• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابا جی کو مارنے کا بہت شوق تھا

ابا جی مارنے کے بہت شوقین تھے .’’باپ کی طرف پاؤں کر کے بیٹھتا ہے ‘‘ ایک تھپڑ ۔

’’کھانے میں اتنی دیر لگا دی‘‘، ایک تھپڑ ۔سارے دن میں کتنےہی تھپڑ کھانے کے مواقع آتے رہتے تھےاور تو اور ابا جی پڑھے لکھے بھی نہیں تھے۔ میں جوا سکول میں پڑھ کر آتا, گھر آ کر ابا جی کو پڑھانا میری ذمہ داری تھی ،ابا جی کو سبق یاد نہ ہوتا تو بھی دو تھپڑ مجھےہی پڑتے ،’’ خود کچھ سیکھ کر آئے گا تو باپ کو سکھائے گا ناں ‘‘۔

دادی اماں بتاتی تھیں، کہ ابا جی بچپن سے بہت نالائق تھے۔کتنی کوشش کر لی لیکن پڑھ کر نہ دیا. ابا جی کو دادی کی بات پر بھی غصہ آتا لیکن ماں تھیں کچھ کہہ نہ پاتے تو مجھے ہی ایک تھپڑ لگا دیتے۔" چل نکل یہاں سے بے غیرت, باپ کی برائیاں کرنے میں لگا ہے. "ابا جی کے اس رویےکی بناء پر اماں میرا بہت خیال رکھتیں۔

" ابا جی جب مجھے مارتے اماں بچانے آ جاتیں ،کہتیں’’غلطی اپنی ہے بلا وجہ بچے کے پیچھے پڑے ہیں-‘‘

ایک دن میں نے سو چا ابا مارتےہیں تو اماں بچاتی ہیں، جب اماں ماریں گی تو ابا جی کیا کریں گے ؟یہ دیکھنے کے لئے میں نے اماں کے جہیز کے بیڈ پر زور سے چھلانگ لگائی ،بیڈ پہلے ہی خستہ حال تھا, ایسا دھکا ملنے پر اندر جا گرنا لازمی تھا۔

اپنے جہیز کا گلاس توڑ دینے پر اماں , ابا کو بھی ان کی نانی یاد دلادیتیں تو بیڈ ٹوٹنے پر مجھے تھپڑ پڑنا لازم تھالیکن اس سے پہلے کہ اماں غصے میں آ کر میرے دو تھپڑ لگاتیں, ابا جی زور سے ہنسے اور مذاقاً بولے،" لے, آج تیرے نانا کی آخری نشانی بھی گئی , پیسہ بہت تھا لیکن کنجوس اتنے کہ بیٹی کے جہیز میں بھی ڈنڈی مار گئے." اماں غصے سے بل کھا کر ابا جی کی طرف مڑیں، انہیں، اس جملے کے ایک ایک لفظ سے لے کر ابا جی کی ہنسی تک پر اعتراض تھا۔ظاہر سی بات ہے، نانا کی سب سے بڑی جیتی جاگتی نشانی یعنی میری اماں کے سامنے کس کی مجال ہوئی کہ ان کے والد کی شان میں گستاخی کرے ،چاہے وہ ان کا مجازی خدا ہی کیوں نہ ہو۔

اماں بہشتی زیور میں پڑھے صبرــ ــ،برداشت کے سارے اسباق بھول گئیں, وہ گرجیں , برسیں کہ ابا جی بھی حیران کم اور پریشان زیادہ ہو گئے ۔

میں فوراً وہاں سے کھسکا، تا کہ ابا ـ ــــ، اماں کا تسلی سے معرکہ سر ہوجائے , اورصلح ہوجائے، ورنہ کہیں ابا جی کے ہاتھوں پھر میری ہی شامت نہ آ جائے۔دو دن گزرے تو پھر میرے دماغ میں اماں سے مار کھانے کا کیڑا کلبلایا , اسی لئے جب اماں نے اپنا گلابی دوپٹہ پیکو کے لئے دیا تو میں نے شان بے نیازی سے کہا،’’ اماں اب بوڑھی ہور ہی ہو یہ لال گلابی رنگ مت پہنا کرو، – اپنی عمر کے حساب سے پھیکے رنگ لیا کرو '۔‘‘

حسب توقع اماں کو غصہ آ گیا،’’تو وہ کر جو میں نے کہا ہے، زیادہ بڑ بڑ نہ کر، تیرے ابا کو بتایا ناں تو یاد کرے گا '۔‘‘ابا کو اندر آتے دیکھ کر میں نے سر اماں کے قریب کر دیا تو اماں نے ایک ہلکی سی چپت بھی لگا دی –،بس ابا جی کے لئے اتنا سٹارٹ کافی تھا، لپک کر قریب آئے اور میں جو سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ اماں سے بازپرس کریں یا میری دلجوئی کریں گے، انہوں نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔’’ ماں سے بد تمیزی کرتا ہے،بے شرم ، تو جو مرضی کرتا رہے کبھی میں نے کچھ نہیں کہا لیکن ماں سے بدتمیزی ،اتنی نیک ، سوہنی تیری ماں ، تیرے لاڈ اٹھا اٹھا کرتھکتی نہیں اور تو اس کے آگے زبان چلاتا ہے‘‘۔ میں مار کھاتا حسب سابق مدد کے لئے اماں کو دیکھ رہا تھا اور اماں ہکا بکا کھڑی تھیں، اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ابا ،اس کے لئے اتنا حساس ہوںگے، – اتنا مان سمان ، اتنا پیار ،احترام ۔ مجھے پڑنے والا ہر تھپڑ ماں کی حیثیت میں اضافہ کر رہا تھا – وہ ہواؤں میں ا’ڑ رہی تھیں، مجھے بچانا اسے یاد ہی نہیں تھا ۔ مار کھاتےہوئے میں نے جان لیا تھا ،دنیا میں جو چاہے کرتے رہو لیکن کبھی ماں کے ادب میں کمی نہ کرو، – ماں سے پنگا لینے والوں کو نہ تو اللہ معاف کرتا ہےاور نہ ہی ابا جی ۔

(عائشہ تنویر)

تازہ ترین