• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل کی کھڑکی

عزیر امین

جب اندھیرا گھُپ ہو جائے تو بجائے اس کے کہ انسان روئے پیٹے اور واویلا کرے، اسے روشنی ایجاد کر لینی چاہیے، مگر اس قندیل کو جلانے کے لیے خوابوں کا تیل لگانا پڑتاہے ، ہمت اور جرأت کی بازی لگتی ہے ، جذبات کا خون ہوتا ہے، کیونکہ جب دل میں گھُٹن ڈیرا ڈالنے لگے تو احساس کی کھڑکیوں پر سے محبت کے پھول دار ، دبیز پردے اُٹھانے پڑتے ہیں، جیسے بے بسی ، توقعات اور خوابوں سے اکتایا ہوا شخص صبح انگڑائیاں لیتا ہوا اٹھتا ہے اور تیزی سے کھڑکی پر سے پردے سرکاتے ہی بستر پر گِرجاتا ہے اور خواب کے وہ سارے مناظر اپنے ذہن میں پھر سے دُہراتا ہے، اسی اثناء میں سورج کی ٹھنڈی روشنی کمرے کے ایک ایک گوشے کو منور کر دیتی ہےاور اس کے دل سے وہ سارے غم مٹا دیتی ہے، جن سے وہ چاہتے ہوئے بھی بچ نہیںپاتا ، مگر وہ خواب رہ رہ کر اسے اذیت دینے آتےرہتے ہیں،وہ جھٹ انہیں ذہن سے جھٹک دیتا ہے، اب ان پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ جب سورج کی کرنیں ماحول کے باریک ذروں پر پڑتی ہیں تو ہر سمت کہکشاں کا گماں ہونے لگتا ہے۔روشنی ایجاد ہو چکی تھی۔ محبت اور سکون کی جنگ میں اندھیرا ہار چکا تھا،مگر اب باہر بادل چھا رہے تھے ، سورج چھپ رہا تھا۔ آندھی آنے کو تھی،شاید روشنی کی قیمت تھی۔ایک آزمائش کی بجلی تھی جو ہر اس شخص کے آنگن میں گِرتی ہے جو روشنی سے محبت کرتا ہے،جو نفرتوں سے لڑتا ہے۔ اچانک ایک گلدان گِرا ،جو اس نے بہت سنبھال کر رکھا ہوا تھا، جس میں رکھا ایک ایک پھول کسی کی امانت تھا۔ طوفان کے خوف سے اُس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا، اُس کا بستر دھول سے اٹ گیا تھا۔وہ گھبرایا ، ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا،ً بجلی چمکی تو جھٹ سے اس نے دل کی کھڑکی بند کی اور لمبے لمبے سانس لینے لگا، پھر وہی اندھیرا تھا ، وہی صورت اور آنکھوں میں پھر وہی خواب تھے ۔۔۔ وہ ہار گیا تھا، اندھیرا جیت گیا تھا۔روشنی والوں کے لیے اللّٰہ تعالیٰ جب انسان کا سینہ ہدایت کے لیے کھولتا ہے تو پہلے آزماتا ہے، جو صبر کر لیتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے اللّٰہ راہیں کھولتا ہے۔اس دنیا میں نہ جانے کتنے دلوں کے کواڑ کھلتے اور بند ہوتے ہیں ، کتنے خواب ٹوٹتے اور کتنے ہی بُنے جاتے ہیں ۔ روشنی اور اندھیرا ہمیشہ سے نبرد آزما ہیں، کبھی اندھیرا جیت جاتا ہے اور کبھی روشنی،جب گھپ اندھیرا ہوجائےتوروشنی ایجادکرلینی چاہیے۔

تازہ ترین