المِ انسانیت پر رب کا بیش بہا انعام اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ کریم کا نزول ماہِ رمضان میں فرمایا، اس نسبت سے رمضان اور قرآن میں گہرا تعلق ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ترجمہ ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (البقرہ)۔ سورۃ القدر میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اس کا نزول لیلۃ القدر میں کیا۔‘‘ لہٰذا رمضان اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہونا ایک قدرتی امَر ہے۔ یوں تو سارا سال تلاوتِ کلامِ پاک اور اس کے پیغام پر غوروفکر ہمارے روز کے معمولات کا لازمی جزو ہونا چاہیے، لیکن رمضان المبارک میں تلاوت ِکلام پاک کے فیوض وبرکات کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ یہ ان بابرکت شب و روز میں صاحبِ ایمان کا سب سے بہترین وظیفہ ہے۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق، قرآن کے ہر حرف کو پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں اور رمضان کے دوران ہر نیکی کا ثواب 70گنا بڑھ جاتا ہے۔ مشہور مفسّرِ قرآن، امام فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ کریم تمام آسمانی صحیفوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اس لیے قرآن کریم پر ایمان لانا تمام آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کے مترادف ہے اور قرآن کا انکار، تمام الہامی کتابوں کا انکار ہے۔‘‘ (تفسیرِ کبیر)
تاریخِ نزولِ قرآن:مفتی محمد شفیع ؒ، معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں ’’قرآن، ازل سے لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے، (ترجمہ) ’’بلکہ یہ قرآنِ مجید ہے، لوحِ محفوظ میں۔‘‘ پھر لوحِ محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ یہ پورا کا پورا آسمانِ دنیا کے بیت العزت (بیت المعمور) میں نازل کردیا گیا۔ بیت العزت کو بیت المعمور بھی کہتے ہیں، یہ کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے۔ یہ نزول، لیلۃ القدر میں ہوا۔ قرآن ِکریم کو پہلی مرتبہ آسمانِ دنیا پر نازل کرنے کی حکمت امام ابو شامہؒ نے یہ بیان کی ہے کہ اس سے قرآن کریم کی رفعتِ شان کو ظاہر کرنا مقصود تھا اور ملائکہ کو یہ بات بتانی تھی کہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو اہلِ زمین کی ہدایت کے لیے اتاری جانے والی ہے۔ شیخ زرقانی ؒنے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ’’ اس طرح دو مرتبہ اتارنے سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ یہ کتاب ہر شک و شبے سے بالاتر ہے اور آنحضرتﷺ کے قلبِ مبارک کے علاوہ یہ دو جگہ اور بھی محفوظ ہے۔ ایک لوح ِمحفوظ میں اور دوسرے بیت العزت میں۔‘‘ (مناہل العرفان)
قرآن کریم کا دوسرا تدریجی نزول حضرت محمد ﷺ کے قلبِ مبارک پر اس وقت ہوا، جب آپ ؐ کی عمر ِمبارک 40برس تھی، اس نزول کی ابتدا لیلۃ القدر میں اور تکمیل 23برس میں ہوئی۔ ضرورت و حالات کی مناسبت سے آیات ِقرآنی نازل ہوتی رہیں۔ (تفسیر ابن جریر) رسول اللہﷺ کو عطا کیے گئے معجزات میں سے قرآن ِمجید آپ ؐ کا سب سے بڑا اور قیامت تک محفوظ رہنے والا معجزہ ہے، جس کی حفاظت کا ذمّہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتا ہے ’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (سورۃ الہجر) اسلام سے پہلے دیگر امّتوں پر نازل کی گئی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں ان کے ماننے والوں نے اپنی مرضی اور منشا سے ردّوبدل کرلیا، لیکن یہ منفرد شرف قرآن ہی کو حاصل ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود، اس کے زیر، زبر اور پیش میں بھی کوئی کمی بیشی نہ کرسکا۔ آج دنیا بھر میں لاکھوں حفّاظِ کرام ہیں کہ جن کے سینوں میں قرآن مجید اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب، قرآنِ کریم ہے، جس کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ قرآن پاک کی سورئہ ابراہیم میں اللہ فرماتا ہے:’’یہ کتاب ہے، جسے ہم نے آپ ؐ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ ؐ ، لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔‘‘
قرآنِ مجید کے پانچ حقوق: دراصل قرآنِ کریم وہ نورِ ہدایت ہے، جو بنی نوع انسان کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وہدایت کی روشنی کی طرف گام زن کرتا ہے اور ایسی راہ دکھاتا ہے، جو روشن بھی ہے اور واضح بھی۔ یہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراطِ مستقیم پر لا کر دین کا سّچا راستہ دکھاتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے ’’اللہ تعالیٰ ہر امّت کو ایک شرف عطا کرتا ہے، اس امّت کے لیے سب سے بڑا شرف اور سب سے بڑا سرمایۂ افتخار قرآنِ کریم ہے۔‘‘ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں، تو حضورﷺ نے فرمایا ’’تقویٰ کا اہتمام کرو کہ یہ تمام امور کی جڑ ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس کے ساتھ کچھ اور بھی ارشاد فرمائیں، تو حضورﷺ نے فرمایا ’’تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرو کہ یہ دنیا میں نور اور آخرت میں ذخیرہ ہے۔‘‘ (صحیح ابنِ حبان) قرآن ِپاک کی تلاوت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کی جائے۔ ارشادِ ربّانی ہے ’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘حضرت عثمان بن عفانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں بہترین وہ ہے، جس نے (خود) قرآن سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا۔‘‘ (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا ’’میری طرف سے اسے لوگوں تک پہنچائو، خواہ وہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘ حضرت ابنِ عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کے سینے میں قرآن کا کوئی حصّہ نہیں، وہ اجڑے ہوئے گھر کی مانند ہے۔‘‘ (ترمذی) حجۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے لوگو!میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے، تو کبھی بھی گم راہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی سنّت۔‘‘ علماء نے قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں قرآنِ مجید کے پانچ حقوق بیان کیے ہیں۔ (1)قرآن پر ایمان فرض ہے۔ (2)ایمان کا تقاضا ہے کہ قرآن کی تلاوت کی جائے۔ (3)قرآن پاک، ہدایت و عمل کی کتاب ہے۔ اس کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ (4) تدبّروتفکر، قرآن پاک کے معنیٰ و مطالب پر غور و خوض۔(5)تعلیم و تبلیغ، قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔
ہر شعبہ زندگی سے متعلق رہنما اصول: قرآنِ مجید قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے واحد ذریعۂ ہدایت و نجات ہے۔ انسانیت کی فوزوفلاح اور آخرت کی نجات کا دارومدار کتاب اللہ سے وابستگی ہی میں ہے۔ ایمانیات، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشرت، معاشیات، سائنس و سیاسیات، ایجادات و مشاہدات، علمیات و عملیات غرض ہر شعبۂ زندگی سے متعلق رہنما اصول، اس مقدس کتابِ الٰہی میں موجود ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے خوش گوار اور کام یاب زندگی گزارنے کا ایک مکمل دستورِ حیات، ایک مفصّل منشور، ایک بھرپور مینوئل اور ایک بہترین عملی دستاویز ہے۔ کل کائنات کے اسرارورموز، چاہے وہ زیرِ آب اللہ کی نشانیاں ہوں یا زیرِ زمین پوشیدہ ذخائر، چاہے وہ آسمانوں کے معاملات ہوں یا دیگر مخلوقات کے واقعات، غرض یہ عجائبات و کمالات سے بَھری وہ علم و عمل والی کتاب ہے کہ جس کے ایک ایک لفظ میں حکمت و بصیرت پوشیدہ ہے۔ دنیا ختم ہو جائے گی، لیکن قرآن کے عجائبات ختم نہ ہوں گے۔ جب بھی سائنسی، ارتقائی عمل کے ذریعے مشاہدات سامنے آتے رہیں گے، قرآن کے کمالات عیاں ہوتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے، اہلِ علم پکار اٹھتے ہیں کہ اس کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’اور ہم نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے ، جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں، وہ ان پر ظاہر کردو، تاکہ وہ غور کریں۔ (سورۃالنحل) تدبّر و تفکّر، مسلمانوں پر قرآن کا بہت بڑا حق ہے۔ حضورﷺ نے جب قرآن کی تعلیم عام کی اور لوگ اس کے احکامات پر عمل کرنے لگے، تو چشمِ فلک نے حیرت انگیز انقلاب دیکھا۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر کفر و شرک کے تاریک ماحول اور دورِ جاہلیت میں پروان چڑھنے والے عرب، دنیا کے امام بن گئے۔ عرب کی ایک چھوٹی سی بستی، مدینے سے پھوٹنے والی روشنی نے ساری دنیا کو روشن کر دیا۔ نبی کے نام لیوا کائنات کے حکمران بن گئے، پھر جب تک مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا رہے، دنیا کی سربراہی کا تاج ان کے سروں پر سجا رہا، لیکن جب مسلمانوں نے قرآنی تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیا، تو زوال و پستی ان کا مقدر بن گئے۔
لیلۃ القدر: نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی بابرکت شب
صحابیِ رسول، حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں’’ جب رمضان آیا، تو رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ ایسا آیا ہے، جس میں ایک رات (لیلۃ القدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہا، گویا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا اور اس کی سعادت سے صرف بدنصیب ہی محروم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ) لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت اور قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی مقدّس کتاب، قرآن ِکریم میں پوری ایک سورت نازل فرما کر اس کے وقار و عظمت پر ہمیشہ کے لیے مہرِ تصدیق ثبت فرما دی۔ اللہ نے سورۃ القدر میں ارشاد فرمایا ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں روح الامین اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں اور یہ رات طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’ لیلۃ القدر میں زمین پر بے حساب فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان کے نزول کے بعد آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔‘‘ قدر کے معنی عظمت و بزرگی کے ہیں۔ اسے لیلۃ القدر کہنے کی وجہ اس رات کی قدرومنزلت اور عظمت و بزرگی ہے۔ حضرت ابوبکر ورّاق ؒ تحریر کرتے ہیں ’’اسے لیلۃ القدر (شب قدر) اس وجہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بداعمالیوں کے سبب کوئی قدروقیمت نہ تھی، اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادت کے ذریعے وہ بھی صاحبِ قدرو شرف بن جاتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)حضرت عائشہ ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ ’’میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ!اگر میں شبِ قدر کو پا لوں، تو اس میں کیا دعا مانگوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ دعا مانگنا ’’ اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ‘‘ترجمہ:’’اے اللہ!تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘ (ترمذی/مشکوٰۃ) حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعے پر رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شبِ قدر کی اطلاع فرمادیں، مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شبِ قدر کے بارے میں آگاہ کردوں، مگر فلاں فلاں شخص میں جھگڑا ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے اسے مخفی کردیاگیا (پوشیدہ رکھ دیا گیا) اور اس کی تعیین (مخصوص کرنا) اٹھالی گئی، کیا بعید کہ یہ اٹھا لینا اللہ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، لہٰذا اب اسے طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ علماء فرماتے ہیں کہ’’ اس کے ظاہر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ میرے بندے زیادہ سے زیادہ راتوں میں میری عبادت کر کے مجھ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرلیں اور میں ہر فضیلت والی رات، ان کی شب بیداریوں میں کی گئی عبادات کے عوض دنیا اور آخرت میں وہ کچھ عطا کر دوں، جس کا ان کے اذہان میں تصوّر بھی نہ ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ ’’شبِ برأت‘‘ کی طرح شبِ قدر کا بھی تعیّن فرمادیتا، تو عموماً عام مسلمان صرف ایک ہی رات کو فضیلت والی رات سمجھ کر عبادت کرتے، لیکن اللہ نے اس رات کے ظہور کے لیے پانچ راتیں مقرر فرما کر مسلمانوں کے جذبۂ تجسّس و تلاش، عبادت و ریاضت اور جستجو و شوق کو دوچند کر دیا اور اپنی رحمتوں کے جوش مارتے سمندر کی وسعتوں کو بڑھا دیا۔ شوقِ شبِ قدر میں رمضان کی ان طاق راتوں میں اکثر مساجد میں محافلِ شبینہ منعقد ہوتی ہیں۔ ان ایمان افروز، روح پرور اجتماعات میں کیف و سرور کی لذّتوں سے سرشار، حفّاظِ کرام کی مسحورکن تلاوت، جسم و روح کو منور و شاداں کر دیتی ہے۔ عقیدتوں سے نہال، محبتوں کے لازوال جذبوں سے مالامال صاحبِ ایمان دعائوں بھری جھولیاں پھیلائے، کانپتے ہاتھوں، لرزتے ہونٹوں، اشک بار آنکھوں کے ساتھ ماضی سے شرم سار، حال پر نادم اپنے رب کے حضور عجزو انکساری کی تصویر بنے معافی کے خواست گار نظر آتے ہیں، جب کہ خواتین گھروں پر شب بیداری کر کے اپنے رب کو راضی کرتی ہیں۔روایت میں ہے کہ اس رات ملائکہ کی تخلیق ہوئی۔ اسی رات جنّت میں درخت لگائے گئے۔ اسی رات حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی اور یہی وہ رحمتوں والی رات ہے کہ جس میں بندے کی زبان و قلب سے نکلی دعا اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں قبول و مقبول ہوتی ہے۔ اسی بابرکت رات میں اللہ رب العزت غروبِ آفتاب سے لے کر صبحِ صادق تک آسمان دنیا پر اپنے حاجت مند بندوں کا منتظر رہتا ہے اور فرشتوں سے اعلان کرواتا ہے کہ’’ کوئی ہے، جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں۔‘‘ گویا، ہم تو مائل بہ کرم ہیں..... کوئی سائل ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ اس ایک رات میں جس قدر انعام و اکرام کی بارش فرماتا ہے، اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ اللہ کے کرم کا ذرا تصور تو کیجیے کہ ایک رات کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی 83سال 4مہینے) کے ثواب سے بھی زیادہ اور پھر اس کا اجر دینے کے لیے بھی ربِ کائنات، خود آسمان ِدنیا پر موجود ہے۔ مساجد کی پرنور محافل ہوں یا گھروں کا کوئی تاریک گوشہ، اللہ کے حضور اٹھنے والے ہاتھ، لبوں سے نکلا ہر دعائیہ کلمہ، آنکھ سے ٹپکا ہر آنسو، ربِ کائنات کے حضور پیش کیا جارہا ہے۔ فرشتے مانگنے والوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں، لیکن ہم میں سے اکثریت ان مقدّس راتوں میں کہاں ہوتی ہے؟ ذرا سوچیے، نظریں دوڑایئے، شاید ان میں ہم اور ہمارے اہلِ خانہ بھی شامل ہوں۔ رات کے پہلے پہر سے صبحِ صادق تک شاپنگ مالز اور بازاروں میں عوام کا ازدحام ہے۔ ایک ہی تو کمائی اور منافعے کا مہینہ ہے اور اصل خریدو فروخت ہی آخری عشرے میں ہوتی ہے، لیکن ان اسباب کے باوجود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’تم ہی غالب رہوگے، اگر تم مومن ہو۔‘‘ ماہِ صیام کے چند بابرکت ایّام اور چند رحمتوں والی راتیں ابھی باقی ہیں، جن میں 27ویں شب بھی ہے۔ جس کی فضیلت سے سب واقف ہیں۔ ان آنے والے روز و شب اورساعتوں کو غنیمت جانیے۔ انہیں یادِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں گزاریں۔ رب کو راضی کریں، یاد رکھیں، رب راضی تو سب راضی۔ اپنے جسم و روح کو عبادت کی لذّت سے آشنا کریں، تاکہ ماہِ رمضان کے بعد بھی حبّ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے یہ آشنائی دنیا اور آخرت میں کام یابی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
مدینہ منورہ کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو 27رمضان المبارک کی بابرکت رات کو طویل ترین جدوجہد، بے پناہ قربانیوں اور لاکھوں شہیدوں کے خون کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ پاکستان اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محبت کریں، اس کی حفاظت کریں اور رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں اس کی خوش حالی اور ترقی کے لیے دعاگو ہوں۔