• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم اپنی انتہائی شدت کے ساتھ ساتھ اپنے اختتام کے آخری مرحلہ میں ہے اور پاکستان میں8نومبر کی صبح ہونے تک امریکی صدارت کے انتخابی نتائج کی خاصی واضح صورتحال کا اہل پاکستان کو علم ہو جانے کا قوی امکان ہے کہ 6نومبر کے امریکی الیکشن میں اگلے چار سال کیلئے وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما ہی قیام بڑھائیں گے یا ری پبلکن مٹ رومنی امریکہ کے صدر ہوں گے؟ اسی طرح امریکی سینٹ میں اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کو حاصل رہے گی یا ری پبلکن موجودہ چار سینیٹرز کے فرق کو ختم کر کے اکثریت میں آ جائیں گے۔ اسی طرح ایوان نمائندگان میں اس وقت ری پبلکن پارٹی کو 35نشستوں کی جو اکثریت حاصل ہے اس کا کیا بنتا ہے؟ مگر بنیادی حقیقت یہ ہے کہ امریکی نظام اپنی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ مضبوط اور جمہوری تسلیم کیا جاتا ہے اور بش، الگور کے درمیان صدارتی الیکشن میں سخت مقابلہ اور فلوریڈا میں ووٹنگ مشینوں کی خراب کارکردگی سے ووٹوں میں سوراخ نامکمل رہنے سے جارج بش کے بھائی جیف بش کے فلوریڈا کے گورنر ہونے کے دور میں ووٹوں کے بڑے معمولی فرق نے جو شکوک اور تنازع پیدا کیا اس کا ذکر آج بھی ہوتا ہے مگر اس کے باوجود سیاسی پارٹیوں کے کسی تصادم، ووٹروں کی کسی مارکٹائی یا احتجاجی ہڑتالوں اور توڑ پھوڑ کے کسی بھی واقعے کے بغیر ہی جارج بش کو کامیاب صدارتی امیدوار تسلیم کر لیا گیا وہ دو مرتبہ صدارت کی میعاد پوری کر کے اب سبکدوشی کے چار سال بھی مکمل کر چکے اور نظام قابل عمل اور مضبوط نظرآتا ہے۔ ووٹ پر نشان لگانے والی50سال بلکہ اس سے بھی زیادہ پرانی مشینوں کی جگہ بعض امریکی ریاستوں میں جدید الیکٹرانک مشینوں کا استعمال ہوگا جن کی اپنی خوبیاں اور نقائص بھی زیربحث آ چکے ہیں مگر لوگ نظام کے بارے میں یقین و اعتماد رکھتے ہیں۔ صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں کے انتظام اور انعقاد کا ذمہ دار ”صدارتی مباحثوں کا کمیشن سب کیلئے قابل قبول ہے“۔
اس کمیشن کے ایک اہم رکن اور بڑے ممتاز سابق سینیٹر ایلن سمپسن اپنی تلاشی اور چیکنگ کیلئے لائن میں کھڑے مجھے مباحثہ کمیشن کی غیرجانبداری، فیصلوں میں دیانتداری اور اس کی ساخت کے بارے میں بتاتے رہے لیکن اپنی بزرگ عمری اور بااثر شخصیت کے باوجود لائن میں کھڑے میرے ساتھ اپنی باری کا انتظار کرتے رہے البتہ سیکورٹی چیکنگ کے بعد یونیورسٹی کیمپس میں انہیں ایک اور بلڈنگ میں لے جانے کیلئے پروٹوکول کا عملہ انہیں کھلی گولف کار میں بٹھا کر لے گیا۔ یہ کمیشن صدارت کے امیدواروں کیلئے تین مباحثوں اور نائب صدارت کیلئے ایک مباحثے کے انتظامات، طریقہ کار اور حتمی فیصلوں کا ذمہ دار تھا۔ کاش پاکستان میں انتخابات سے قبل امیدواروں کے درمیان مباحثوں کیلئے بھی کوئی ایسا کمیشن اور نظام وضع کیا جا سکے جو امیدواروں کو سیاسی پارٹیوں اور حامی ورکروں کے حصار سے نکال کر ایسے پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتوں، خدمات اور منشور کو پیش کرنے اور جرح و مقابلے کے بعد امیدواروں کے موازنہ کا عوامی موقع فراہم کرسکے۔ پاکستان کو ایک مضبوط اور غیرجانبدارانہ جمہوری انتخابی نظام ہی بچا سکتا ہے اور عوام کو محرومی کی بجائے شرکت اور برداشت کا احساس اجاگر کر سکتا ہے۔ بہرحال امریکہ میں اس مضبوط انتخابی نظام سے گزرنے والے دونوں امیدوار بارک اوباما اور مٹ رومنی ان امریکی ریاستوں کے دورے کر رہے ہیں جنہیں ”میدان جنگ“ کہا جاتا ہے اور امیدواروں کیلئے قدرے غیر یقینی صورتحال ہے۔ اوہایو، ورجینیا، فلوریڈا، نیواڈا سمیت یہ آٹھ ریاستیں امریکی صدارت کے الیکشن میں جیت کیلئے انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔ میری سوچ کے مطابق تین میں سے دو مباحثوں میں مٹ رومنی کے مقابلے میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بارک اوباما کی پوزیشن اور عوامی مقبولیت کافی بہتر ہوچکی ہے اور غیر یقینی صورتحال والی ”میدان جنگ“ کی متعدد ریاستوں میں بھی اوباما کے حق میں صورتحال خاصی بہتر ہوگئی ہے اب مسئلہ صرف حامی ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک آ کر اپنا ووٹ استعمال کرنے کا ہے۔ اگر صدر اوباما اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے حامی ووٹروں کو پولنگ بوتھ پرآنے اور ووٹ ڈالنے کیلئے جوش پیدا کر سکتے ہیں تو بارک اوباما الیکشن جیت جائیں گے بلکہ امریکی سینیٹ کے انتخابات میں بھی اپنی موجودہ اکثریت برقرار رکھنے میں ڈیموکریٹک پارٹی کامیاب ہو سکتی ہے بلکہ ایوان نمائندگان میں بھی موجودہ ری پبلکن 35نشستوں کی اکثریت کو کم کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے اسی لئے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ 2012ء کے امریکی الیکشن کے فیصلے ”ووٹرز ٹرن آؤٹ“ (VOTERS TURNOUT) سے جڑے ہوئے ہیں۔
اسی اثناء میں پاکستان میں سیاسی سونامی لانے کے دعویدار تحریک انصاف کے عمران خان کینیڈا کے بعد امریکہ بھی فنڈ ریزنگ کیلئے آئے تو ٹورنٹو کے ایئرپورٹ پر متعین امریکی امیگریشن حکام نے انہیں پرواز کیلئے تیار فلائٹ سے اتار کر پوچھ گچھ کی، کچھ دیر انتظار کے بعد نیویارک آنے والی یہ پرواز عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے بغیر ہی روانہ ہو کر ایک گھنٹہ کی تاخیر سے نیویارک کے جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر پہنچ گئی لیکن اسی اثناء میں عمران خان کے روکے جانے کی اطلاع مل چکی تھی اور میں نے ٹورنٹو میں پاکستانی قونصلیٹ، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے رابطے کر کے عمران خان کی نیویارک آمد سے قبل ہی صورتحال کے بارے میں جزوی طور پر آگاہی حاصل کر کے ”جیو نیوز“ کے ناظرین کو آگاہ کر چکا تھا۔ تین گھنٹے کی تاخیر و انتظار کے بعد نیو یارک کے دوسرے ایئرپورٹ پر عمران خان جب پہنچے تو پھر براہ راست عمران خان سے صورتحال اور ان کا موقف حاصل کیا لیکن امریکی محکمہ خارجہ کا موقف پھر بھی نہ ملا بلکہ ایک ترجمان نے انتظار کرنے کو کہا۔ آخر دو روز بعد جب واشنگٹن سمیت نیویارک اور امریکہ کے مشرقی ساحل کی ریاستوں میں طوفان سینڈی کی آمد کی دہشت ناک خبر سن کر کھانے پینے کی اشیاء کا ذخیرہ 24گھنٹے چلنے والی ٹرین سروس میٹرو، پروازیں بند کرنے کے اعلانات و انتظامات ہو چکے تھے اور پاکستان میں سیاسی سونامی لانے والے عمران خان دورہ نیویارک مکمل کر کے طوفان سینڈی کے علاقے سے دور کیلیفورینا میں مصروف تھے تو اتوار کی تعطیل کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ کے مختصر موقف پر مبنی ایک ای میل پیغام موصول ہوا جس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ عمران خان کو کینیڈا کے ٹورنٹو ایئرپورٹ پر امریکی امیگریشن کے ہاتھوں روکے جانے اور پھر مسئلہ کے حل ہونے کے معاملے سے باخبر ہے اور اب عمران خان کا امریکہ میں خیرمقدم کرتا ہے۔ یہ ایک مبہم اور مختصر بیان ناکافی ہے اور صورتحال واضح نہیں کرتا بلکہ عمران خان کا ”جیو“ سے انٹرویو کہیں زیادہ واضح ہے۔ بہرحال یہ گتھی عمران خان ہی سلجھا سکتے ہیں۔ البتہ عمران خان کی نیویارک آمد پر ان کی مقامی تحریک انصاف میں جو گروہی سیاست اور تضادات کے مناظر و حقائق دیکھنے میں آئے ہیں وہ کسی بھی طرح مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی امریکہ شاخوں سے مختلف نہیں بلکہ عمران خان کی شخصیت، امیج اور تحریک کیلئے بڑی نقصان دہ یوں بھی ہے کہ امریکہ میں آباد پاکستانی دوسروں کے مقابلے میں عمران خان سے کہیں زیادہ توقعات رکھتے ہیں اور عطیات بھی دیتے ہیں۔ عمران خان کو اس معاملے میں بھی فیصلے کرنا ہوں گے۔
تازہ ترین