اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اپنی مخلوقات میں سے بعض اشخاص کو دوسرے اشخاص پر، بعض مقامات کو دوسرے مقامات پر اور بعض زمانوں کو دوسرے زمانوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے،سال بھر میں جو راتیں گردش میں آتی ہیں،ان میں سے قرآن مجید نے جس شبِ اقدس کا نہایت جلالت شان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، بلکہ اس کی عظمت ِ شان اور قدر ومنزلت کو بیان کرنے کے لیے ایک مکمل سور ت نازل ہوئی ہے،وہ ’’لیلۃ القدر ‘‘ہے ۔ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: بلا شبہ ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں اتارا ، اور آپ کچھ جانتے ہیں کہ شبِ قدر کیا ہے ؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس میں فرشتے اور روح (القدس) اپنے پروردگار کے حکم سے ہرامر( خیر ) کے لیے اترتے ہیں،یہ (رات)سراسر سلامتی ہے ( اور یہ کیفیت خیر وبرکت) طلوع فجر تک جاری رہتی ہے ‘‘۔
مفسرین کرام نے ’’لیلۃ القدر ‘‘ کے نام سے اس رات کو موسوم کرنے کی کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،مثلاًاس کے ایک معنی ’’قدر ومنزلت ‘‘کے ہیں ،اور یہ شرف کیا کم ہے کہ ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائے ۔ ’’قدر‘‘ کے ایک معنی تقدیر وتدبیر اور مقدار مقرر کرنے کے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ اس رات کو سال بھر کے لیے قضا و قدر کے معاملات طے فرما کر اُن فرشتوں کو تفویض فرماتا ہے جو ’’مُدَبِّراتِ امر‘‘کہلاتے ہیں اور جن کے سپرد کائنات کے تکوینی امور کا نظام ہے ،ان امور میں بندوںکے حیات وممات،رزق کی فراخی اور تنگی ، صحت ومرض ،اقتدار پر عزل ونصب، بارشوں کی فراوانی یا قحط سالی ودیگر معاملات شامل ہیں ۔’’ قدر‘‘ کے ایک معنی تنگی کے ہیں ، یعنی اس رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے اتنی کثیر تعداد میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ یہ خطۂ ارضی اپنی وسعتوں کے باوجود ان کے لیے تنگ ہوجاتا ہے ۔
امتِ محمدیہ کے لیے نعمتِ عظمیٰ :۔تقریباً تمام مفسرین کرام نے ’’سورۃ القدر ‘‘کے شان ِ نزول میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابۂ کرامؓ کے سامنے گزشتہ امتوں کے ایسے عابدین کا تذکرہ فرمایا،جنہوں نے 80سال مسلسل اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس طرح گزارے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی،بعض نے ان سے حضرت ایوبؑ ، حضرت حزقیلؑ ، حضرت یوشع ؑاور حضرت زکریاؑ مراد لیے ہیں،بعض دیگر حضرات کا بھی تذکرہ کیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ سن کر صحابۂ کرامؓ کو ان پر رشک آیا ، کیوںکہ صحابۂ کرامؓ خیر کے کاموں کے لیے حریص تھے اور امور خیر کے لیے ان میں بے پناہ جذبۂ مسابقت تھا ، انہوں نے سوچا کہ ہر ایک اتنی عمر نہیں پاتا کہ اس میں سے اسّی سال خالص عبادت میں بسر کر سکے، لہٰذا انہیں اس سے قَلق ورنج ہوا ،توان کی طمانیت اور تسکینِ قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ القدر ‘‘ نازل فرمائی اور اس میں یہ بشارت دی کہ ہم تمہیں شبِ قدر کی صورت میں ایک ایسی نعمت ِ عظمیٰ عطا کر رہے ہیں کہ اگر کسی خوش نصیب کو یہ ایک رات مل جائے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ذکر وفکر ، عبادت ، قیام ، تلاوت ، تسبیح و تحمید واذکار،درود پاک اور دعا میں گزار لے،تو اسے بارگاہِ الوہیت سے تیس ہزارراتوں کی عبادت سے زیادہ اجر عطا فرمائے گا ،جس میں شبِ قدر شامل نہ ہو ، بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر وثواب اور انعام واکرام سے نوازے گا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی منفرد وممتاز نعمت ہے جو پچھلی امتوں کو نصیب نہیں ہوئی اور یہ خاتم الانبیاء ، سیّدُ المرسلین ، رحمۃ للعالمین ﷺ کا وسیلۂ کرم اور تصدق ہے ، جس پر یہ امت جتنا بھی ناز کرے ، کم ہے ۔
کم عبادت پر زیادہ اجر کیوں ؟عمومی ضابطہ تو یہی ہے کہ ہر عبادت پر اجر اس کی مقدار اور معیار کے مطابق عطا کیا جاتاہے ، لیکن بعض اوقات نسبت کے بدلنے سے جزا وسزا کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں ، مثلاًگھر پر تنہا نماز پڑھنے کا اجر دس گنا ، مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا اجر ستائیس گنا، مسجد نبویؐ میں پچاس ہزار گنا اور مسجدا لحرام میں ایک لاکھ گنا عطا کیا جاتا ہے۔اسی طرح اگر کسی خوش نصیب مومن کو یہ شب اقدس عالمِ بے داری میں مل جائے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے تو ایک ہزار ماہ (یعنی 83سال 4ماہ )کی مسلسل عبادت سے بھی زیادہ اجر وثواب بارگاہ خداوندی سے اسے عطا کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر کون سی ہے ؟ اس بارے میں مختلف روایات واقوال ہیں ۔ راجح اقوال یہ ہیں کہ یہ رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ کی کوئی رات ہے ، اور یہ عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے،رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’شبِ قدر کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (صحیح بخاری )سب سے زیادہ راجح قول یہ ہے کہ یہ ستائیسویں شبِ رمضان ہے ۔
صحیح مسلم میں ایک طویل حدیث ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جلیل القدر تابعی زِر بن حبیشؒ نے صحابی رسول حضرت اُبی بن کعبؓ سے کہا کہ آپ کے دینی بھائی عبداللہ بن مسعودؓ تو کہتے ہیں کہ جو شخص پورے سال کی راتوں میں قیام کرے گا ، وہ لیلۃ القدر کو پالے گا ( یعنی شبِ قدر سال کی غیر معینہ رات ہوتی ہے)، تو فرمائیے آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟، توحضرت اُبَی بن کعبؓ نے فرمایا: عبداللہ بن مسعودؓ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ، غالباً وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرکے شوقِ عبادت سے غافل نہ ہوجائیں ، ورنہ انہیں یقیناً معلوم ہے کہ یہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے ، پھر حضرت اُبَی بن کعبؓ نے پورے یقین کے ساتھ قسم کھا کر فرمایا:یہ ستائیسویں شب ہی ہے ، زِربن حُبَیش کہتے ہیں کہ میں نے اُبَی بن کعبؓ سے عرض کیا : آپ اتنی قطعیت کے ساتھ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ شبِ قدر کی صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تواس کی شعاع نہیں ہوتی ، اُبَی بن کعبؓکے اس قول کا منشا یہ ہے کہ انہوں نے بارہا زبان پاک رسول اکرم ﷺ سے بیان کردہ علامات کی روشنی میں تجربہ کرکے علم الیقین حاصل کرلیا ہے کہ یہ ستائیسویں شب ہی ہے۔
ستائیسویںشب کے شبِ قدر ہونے پر سورۃ القدر سے قرائن : سورۃ القدر میں ’’لیلۃ القدر ‘‘ کا کلمہ تین مرتبہ آیا ہے اور لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں اور نو کو تین سے ضرب دیں تو حاصل ضرب ستائیس آتا ہے۔ امام رازیؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے۔
شبِ قدر کو مخفی رکھنے کی حکمت : اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں شبِ قدر کا صراحت کے ساتھ تعین نہیں فرمایا کہ یہ کون سی شبِ اقدس ہے۔ اس کی مستور حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے اطاعت شِعار اور عبادت گزار اس رات کو پانے کی جستجو میں ایک نہیں کئی راتیں ، رمضان المبارک کی ساری راتیں یا کم از کم عشرۂ اخیرہ کی ساری طاق راتیں ، اپنے معبود ِ حقیقی کے ذکر وفکر اور عبادت میں مگن رہ کر گزار دیں ،اور مالک حقیقی کی یاد میں مشغول رہ کر ، توبہ واستغفار کرتے ہوئے ، خشوع وخضوع اور تضَرع میں ڈوب کر جو بھی رات گزر جائے ، وہ شبِ قدر سے کم نہیں ہے ۔ گویا اصل مقصد رِضا ئے رب ، لِقائے مولیٰ اور حضوریٔ بارگاہِ ربُّ العالمین کی لذتِ روحانی وایمانی کو پالینے کی تڑپ، جذب وجنون اور شوق وارفتگی بندۂ مومن کے دل میں پیدا کرناہے اور یہی کیف وسرور روحِ شبِ قدر ہے۔اس شبِ اقدس کو مستور رکھنے کی ایک حکمت گناہ گارانِ امت اور غفلت شعاروں کو اس نعمتِ عظمیٰ کی ناقدری کے وبال سے بچانا ہے ، کیوںکہ جو خوش نصیب اپنی راتوں کی نیند ، آرام وسکون اور لمحاتِ عیش ونشاط کوقربان کر کے اس مبارک شب کو تلاش کریں گے ،وہ اللہ جلّ شانہٗ کے فضل وکرم سے یقیناً اسے پالیں گے ۔
شبِ قدر میں فرشتوں کا سلام :اللہ جلّ شانہٗ نے فرمایا: ’’ اس (مبارک رات ) میں فرشتے اور (بطور خاص ) جبرائیل امینؑ (زمین پر) اترتے ہیں ، اپنے ربِّ ذوالجلال کے حکم سے ، اور (اہل ایمان کو) سلامتی کی نوید دیتے ہیں‘‘۔
شبِ قدر میں عبادت کا طریقہ :۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’جس (خوش نصیب )نے شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اجر وثواب کی نیت سے قیام کیا تواس کے سارے پچھلے گناہوں کو اللہ جلّ شانہٗ (اپنے خصوصی فضل وکرم سے)معاف فرمادے گا‘‘۔اس حدیث پاک کی رو سے اس مبارک شب کی سب سے نمایاں اور مقبول عبادت اللہ تعالیٰ کے حضور قیام ، بکثرت نوافل کا اہتمام اور دعا ئے مغفرت ہے اور سب سے بڑا انعام مغفرت کامل ہے ۔ اس رات یہ دعا بھی بکثرت پڑھنی چاہیے : ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّٗ کَرِیْمُٗ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَا عْفُ عَنَّا‘‘ترجمہ:’’اے اللہ!تو نہایت کرم فرمانے والا ، معاف فرمانے والا ہے ،تو عفو وکرم کو پسند فرماتا ہے ، تو ہم گناہ گاروں کو بھی معاف فرما‘‘۔