کہا جاتا ہے کہ تعلیم میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے بچے کے معمولات، عادات اور فطرت کو سمجھے بغیر والدین اور اساتذہ اس کی اچھی تربیت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بچے کی کردار سازی، اس کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل اور اُس کی نفسیات کو سمجھنا والدین اور اساتذہ دونوں ہی کے لیے بے حد ضروری ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ انسان بے پناہ خوبیوں کا حامل ہے جس میںاس کی حسیں سر فہرست ہےتو کردار سازی اور ترقی میں حسوں کے کردار کو کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟اسی امر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے موجودہ دور میںسائنسدان اور تحقیقدان سننے اورسونگھنے کی حسوں کے ذریعے تعلیمی اداروں اوردفاتر میں کارکردگی بہتر کرنے کے لیے مختلف تجربات کر رہے ہیں ۔ ماہرین نے بہت سی جگہوں پرمختلف آوازوں کے دوران افراد کی صلاحیتوں کو جانچا اور یہ نتائج اخذ کیے کہ جب آواز نہ زیادہ اونچی ہو نہ کم تو انسان میں موجودتخلیقی صلاحیتیں بہترین ہوتی ہیں۔
اسی طرح مختلف خوشبوئیں بھی صلاحیتوں کی کارکردگی پر مثبت اثرات رکھتی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ چہل قدمی کر رہے ہوں اور اچانک ایک خوشبو آپ کی سوچ پر مکمل طور پر اثر انداز ہوئی ہو؟ایسی خوشبو جو جذبات کے ساتھ منسلک ہو، ایسی خوشبو جو بچپن کی کسی یاد کو ذہن میں واپس لے آئے اور کسی تصویر کو دماغ میں روشن کر دے؟ماہرین نے اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کے لئے لندن میں سپیشل بچوں پر خوشبو سے جڑا یہ تجریہ مختلف مضامین کے دوران مختلف خوشبوئوں کے ساتھ آزمایا ، جیسا کہ گریپ فروٹ کی خوشبو ریاضی کے دوران، لوینڈر فارسی کے لیے اورمنٹ کا استعمال تاریخ جیسے مضامین کے لیے کیا گیا۔جس کے مثبت نتائج سامنے آئے اور طلباء نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔جس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ مخصوص خوشبوئیں انجانے طور پر مخصوص موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں۔
تحقیقدانوں کے مطابق یادداشت اور خوشبو کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے سائنسدانوں نے کہا کہ اموشنل برین اور سمپل ریسپٹرز کے قریب ہونے کی وجہ سےیادداشت اور خوشبو کاآپس میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اگر کسی انسان کی خوشبو کسی دوسرے انسان کو اس کی یاد دلا سکتی ہے تو کیاکوئی خوشبو مخصوص موضوع یا مضمون یاد رکھنے کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی ہے ؟اور کیاایسی خوشبو سے حقائق بھی یاد رکھے جا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر چاکلیٹ کی خوشبو آپ نے سائنس کی کوئی تھیوری پڑھتے ہوئے سونگھی اورجب اگلی دفعہ آپ نے چاکلیٹ کی خوشبو سونگھی تو تھیوری کا ہر لفظ ذہن میں آ گیاہو۔ ’’پروسٹ ایفیکٹ ‘‘کا مطالعہ کہتا ہے کہ یہ تعلق بذات خود اثرات رکھتا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خوشبو صفحہ نمبر یا تصویر کو ذہن میں واضح نہیں کرتی بلکہ موضوع کا تصور یا اہم نکات دوہرانےمیں اہمیت کی حامل ہے۔ مثال کے طور پر بیالوجی کے پریکٹیکل کرتے ہوئے اکثر طلباء وطالبات کلوروفارم کو سونگھتے ہیں اور اپنا تجربہ کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا دوبارہ جب بھی وہ کلوروفام کو سونگھیں گے ان کے دماغ میں اپنا پریکٹیکل اور اس سے متعلق اہم معلومات گردش کرنے لگیں گی، اس کے علاوہ اگر مختلف مضامین پڑھتے ہوئے مختلف پرفیومز یا خوشبوئیں چھڑکائیں تو ان کو دہراتے ہوئے پھر سے اسی خوشبو کا استعمال مدد فراہم کر سکتا ہے اوریہ عمل طلباء کی یادداشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، بالخصوص ایسے طلباءکے لئے جن کو اسباق یا مفروضات سمجھنے یا یاد رکھنے میں مشکل کا سامنا رہتا ہے۔
ایک حقیقی مفروضے یا آئیڈیا کے ساتھ مخصوص خوشبو کا تعلق ہوتاہے۔یہ تجربہ یادداشت کو بڑھانے اور دماغی مخصوص صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے دلچسپ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا طریقۂ کار بھی ہو سکتا ہے جس سے ماہرین یا سائنسدان مختلف کوئزز میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس طریقۂ کار سے طلباء و طالبات بھی خوشبوئوں کے استعمال سے اپنے دماغ میں مختلف معلومات جمع کرنے کی سعی کر سکتے ہیں اور یادداشت یا حافظے کو چاق و چوبند رکھ سکتے ہیں۔
موزارٹ ایفیکٹ
موزارٹ ایفیکٹ کی اصطلاح 1991ء میں متعارف کروائی گئی جس کے مطابق کلاسیکل موسیقی سننا دماغ کی صلاحیتوں کو نکھارتا اور بڑھاتا ہے۔ ان تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جورجیا کے گورنر زیل ملر نے 1998ء میں یہ تجویز پیش کی کہ ریاست کے بجٹ میں سے کلاسیکل موسیقی کی سی ڈیز بنانے کی رقم الگ کر لی جائے تاکہ وہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو فراہم کی جا سکیں۔ موزارٹس موسیقی کی دھنوں نے نہ صرف بچوں یا بالغ افراد پر بلکہ جانوروں پر بھی مثبت اثرات مرتب کئے، جس کا انکشاف اٹلی کے کسانوں نے بھی کیا جب ماہر نفسیات اپنی کتاب ’’مائنڈ میتھس‘‘ کی تحقیق کے لئے گئےتو وہاں موجودکسانوں کا کہنا تھا کہ بیلوں کو دن میں تین بار موزارٹ میوزک دودھ کی بہترین پیداوار کے لئے سنایا جاتا ہے۔
اس بات کو اگرچہ اہمیت نہیں دی جا رہی مگر تحقیقات کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار نے یہ تجویز کیا ہے کہ سونگھنے اور سننے کی حسیں سیکھنے، کارکردگی اور تخلیقی صلاحیتوں پر گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ ان معلومات کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے بیرونِ ممالک کے چند سینئر اساتذہ نے اپنے تعلیمی اداروں میں مختلف آوازوں کے استعمال سے کارکردگی میں تبدیلی نوٹ کرنے کے لئے تجربات کئے۔ آیا کہ یہ تحقیق گریڈز میں مثبت اثرات کا باعث بن سکتی ہے کہ نہیں؟ اور اگر بن سکتی ہے تو اس کا کس طریقے سے اور کتنا استعمال بہترین ثابت ہو گا؟
یہ تحقیق تو بہت عرصہ قبل بتا دی گئی تھی کہ بہت سی آوازیں پڑھائی پر منفی اثرات بھی رکھتی ہیں۔ 15سال قبل کی گئی بہت سی ریسرچز نے یہ اخذ کیا کہ ایسے تعلیمی ادارے جو ایئرپورٹ کے قریب تر ہیں وہاں پڑھنے والے طلباء و طالبات کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ تاہم عام آوازیں بھی اپنے اثرات رکھتی ہیں، جیسے کہ ٹریفک کے شور اور طلباء کی خود پیدا کرنے والی آوازیں بھی ان کی یادداشت کو متاثر کرتی ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کمرہ جماعت میں باتیں کرنے کی آوازیںطلباء و طالبات کے لئے زیادہ اضطراب پیدا کرتی ہیں اور ان کا دھیان بھٹکاتی ہیں۔ ایسی آوازیں جن سےطلباء باتوں کو سمجھ سکیں، ان کے لئے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جب پس پشت آواز درمیانی سطح پر ہو تو طلبہ تخلیقی سرگرمیوں میں بہترین نتائج رکھتے ہیں، اس کے برعکس بہت کم اور بہت زیادہ آوازیں تخلیقی صلاحیتوں کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔
ماہرین نفسیات کا مزید کہنا تھا کہ ہمیشہ ایسی آوازیں نقصان دہ ہوتی ہیں جن میں متغیرات زیادہ ہوں، اگر ہلکی اور ایک ردھم والی آواز مسلسل آ رہی ہو تو اس سے دھیان زیادہ نہیں بھٹکتا اور پڑھنے کی رفتار نارمل رہتی ہے۔ ایسی صورتِ حال جہاں تخلیقی صلاحیتوں کا عمل دخل ہو ان میں پس پشت موسیقی مثبت ثابت ہو گی۔ انہی تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے اساتذہ نے یہ طریقہ اپنایا بھی ہے اور یہ مفروضات کہ میوزک سننا ’’آئی کیو‘‘ لیول کو بڑھاتا ہے ’’موزارٹ ایفیکٹ‘‘ کہلاتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ ارد گرد کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے تو خود بخود پڑھائی اور یادداشت کے بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔اسپیشل چلڈرن کی تعلیم میں اکثر آوازوں اور خوشبوئوں کو یاددہانی کے لئے بہترین نتائج کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ایسے تعلیمی ادارے جو موسیقی کے انتخاب میں احتیاط برتیں وہ میوزک کے ذریعے کارکردگی کو بہتر کر سکتے ہیں۔