• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے بدلتے حالات میں ہمارے سرمایہ کار اپنے اثاثے قانونی بنانا چاہتے ہیں لیکن قیام پاکستان کے 70 سال کے دوران مختلف حکومتوں کی غیر تسلسل پالیسیوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں نجی اداروں کو نجکاری کے ذریعے سرکاری تحویل میں لینا، نواز شریف دور حکومت میں فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا، کراچی میں امن و امان کی بدترین صورتحال اور انرجی بحران کے باعث جان و مال اور سرمائے کے تحفظ کیلئے صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا اپنی صنعتیں اور سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کرنا وہ حقیقی عوامل تھے جو بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری کی منتقلی کا سبب بنے۔
نئی ایمنسٹی اسکیم سے توقع کی جارہی ہے کہ غیر ملکی اثاثوں کو قانونی بنانے کیلئے ایک خطیر رقم انکم ٹیکس گوشوارے میں ظاہر یا وطن واپس لائی جاسکتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت پہلے مرحلے میں ان اثاثوں کی پاکستان منتقلی کے بجائے ان اثاثوں کو دستاویزی بنانا حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ دنیا میں منی لانڈرنگ کے سخت عالمی قوانین کے پیش نظر میری پاکستانی بھائیوں کو تجویز ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کو نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت قانونی بنانے کے موقع کو ضائع نہ کریں۔ موجودہ عالمی حالات میں ان کے اثاثے اور سرمایہ کاری پاکستان میں زیادہ محفوظ اور منافع بخش ثابت ہوگی۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بہتر بناکر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے تاکہ سرمایہ کار بیرون ملک کمائی گئی اپنی دولت دوبارہ وطن واپس لاسکیں۔ سابق حکومت نے نئی ایمنسٹی اسکیم بزنس کمیونٹی، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر بنائی تھی اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد یہ اسکیم قانون بن چکا ہے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے ایمنسٹی اسکیم پر جائزہ لینے کا کہا ہے۔ شبر زیدی نے اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس میں صرف منی لانڈرنگ کا جائزہ لینا چاہتی ہے، ایمنسٹی اسکیم پر ان کے کوئی خدشات نہیں لیکن کیس کی سماعت پینڈنگ ہونے کی وجہ سے بزنس کمیونٹی اسکیم پر فوری عملدرآمد کرنے سے گریزاں ہے۔ سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مشیر شبر زیدی اور محمود مانڈوی والا نے اپنی رپورٹ میں ایمنسٹی اسکیم کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ بیرونی اثاثوں کو دستاویزی بنانے کی حکومت کی یہ پہلی اسکیم ہے جس کا اطلاق سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹرینز اور پبلک آفس ہولڈر پر نہیں ہوتا۔ میری سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جلد از جلد ایمنسٹی اسکیم پر فیصلہ سنائے تاکہ بزنس کمیونٹی کا ابہام ختم ہو۔ توقع کی جارہی ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت حکومت کو تقریباً 5 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائراور ٹیکس کی مد میں خطیر رقم حاصل ہوگی جس کی موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور غیر ملکی قرضوں میں ادائیگیوں کیلئے حکومت کو اشد ضرورت ہے۔
ایف بی آر نے ستمبر 2018ء سے 56 ممالک سے وہاں مقیم غیر رہائشی پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت پاکستان نے OECD کے مجموعی 104 ممبر ممالک میں سے 56 ممالک کے ساتھ بینکنگ معلومات کی رسائی کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یہ ممالک جدید کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت ایک دوسرے ملک کو معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں جبکہ دیگر 48 ممالک نے پاکستان کے ساتھ معلومات رسائی کیلئے معاہدے نہیں کئے۔ پہلے مرحلے میں ستمبر 2018ء سے پاکستان 56 ممبر ممالک میں سے 35 ممالک، ستمبر 2019ء سے 20 ممالک اور 2020ء میں مزید ایک ملک سے بینکنگ معلومات حاصل کرسکے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں OECD کے افسران نے ایف بی آر میں کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے جائزے کیلئے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ 15 جون 2018ء کو پاکستان 30 ممالک کے پیئر ریویو گروپ (PRG) کا باقاعدہ ممبر بھی بن جائے گا۔PRG ایک خودکار نظام کے تحت ممبر ممالک کو معلومات فراہم کرتا ہے۔ ایف بی آر نے OECD ممبر ممالک سے 31 ستمبر 2017ء تک غیر رہائشی پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات جس میں مارک اپ، ڈیوڈنڈ انکم اور دیگر انکم کی معلومات بھی شامل ہیں، مانگی ہیں۔ معاہدے کے تحت حکومت غیر رہائشی پاکستانیوں کے 10 ہزار ڈالر سے زائد کے فارن کرنسی اکائونٹس کی معلومات OECD ممبر ممالک سے شیئر کرنے کی پابند ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایف بی آر ٹیکس چوری کی مد میں ٹیکس وصولی بھی کرسکتا ہے۔
حکومت پاکستان نے متحدہ عرب امارات سے 1995ء میں ڈبل ٹیکسیشن ٹریٹی کی تھی جس کے تحت پاکستانیوں کی دبئی میں اربوں روپے کی پراپرٹیوں کی تفصیلات مانگی ہیں۔ وزیراعظم کے سابق مشیر ہارون اختر کے بقول قومی اسمبلی میں بے نامی ٹرانزیکشن کو روکنے کیلئے قانون پاس ہوگیا ہے جس کے تحت وکالت نامہ کے ذریعے پراپرٹی کو بے نامی رکھنا اب مشکل ہوجائے گا۔ پاناما لیکس، آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث اب ان غیر دستاویزی اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان اثاثوں کے مالکان انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ سوئس بینکس سیکرٹ کوڈ اکائونٹ کھولنے کیلئے مشہور ہیں جس میں اکائونٹ ہولڈرز کا نام خفیہ رکھا جاتا ہے اور یہ اکائونٹ ایک پاس ورڈ کے ذریعے آپریٹ ہوتا ہے۔ ایسے سوئس اکائونٹس میں ڈپازٹس پر منافع دینے کے بجائے کھاتے داروں سے سروس چارجز وصول کرتے ہیں۔ 300 سال پرانے سوئس قانون کے تحت سوئس بینکس رقوم کے ذرائع معلوم کئے بغیر اکائونٹ کھول دیتے تھے اور بینکنگ رازداری کے تحت اپنے اکائونٹ ہولڈرز کی تفصیلات بتانے کے پابند نہیں تھے لیکن سوئس حکومت ٹیکس چوری کو بڑا جرم تصور کرتی ہے اور اس کے ٹھوس ثبوت فراہم کئے جانے کی صورت میں اکائونٹ کی تفصیلات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں 2016ء کے وسط میں حکومت پاکستان اور سوئس ٹیکس اتھارٹیز نے بینک کھاتوں کے معلومات کے تبادلے کیلئے اہم مذاکرات کئے تھے جس میں سوئس حکومت نے معاہدے کے عوض ٹیکسوں میں 5 فیصد کمی اور سوئٹزرلینڈ کو انتہائی پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن اب سوئٹزرلینڈ بغیر کسی شرائط معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے آمادہ ہوگیا ہے جس کے تحت پاکستان، سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں موجود پاکستان لوٹی گئی دولت کے متعلق معلومات حاصل کرسکے گا۔ سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لوگ اپنی غیر قانونی دولت سوئٹزرلینڈ اور ٹیکس سے مستثنیٰ دیگر ممالک میں رکھتے ہیں۔ مختلف ممالک میں غیر قانونی دولت کی مجموعی مالیت تقریباً 32 کھرب ڈالر ہے جس میں سے 7 کھرب ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوئس بینکوں میں بھارت کے 1456 ارب ڈالر، روس کے 470 ارب ڈالر، انگلینڈ کے 390 ارب ڈالر اور پاکستان کے 200 ارب ڈالر موجود ہیں۔ کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلسٹ نامی امریکی صحافتی گروپ نے سوئٹزرلینڈ کے بینک HSBC کا ڈیٹا لیک کیا تھا جس میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان سوئس بینک میں دولت رکھنے والا 48 واں بڑا ملک ہے اور مختلف ذرائع کے مطابق پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں موجود ہیں۔ اس دولت کو پاکستان واپس لانے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔نئی ایمنسٹی اسکیم جو پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کو دستاویزی بنانے یا وطن واپس لانے کی پہلی اسکیم ہے، پر 30 جون 2018ء تک عملدرآمد کیا جاسکتا ہے اور اگر سپریم کورٹ نے اس پر جلد فیصلہ نہ سنایا تو سرمایہ کاروں کا اعتماد کھوکر یہ اسکیم بھی دیگر اسکیموں کی طرح فیل ہوجائے گی اور بزنس کمیونٹی اور سرمایہ کار اپنے بیرونی اثاثوں کو قانونی بنانے کا پہلا اور آخری موقع کھودیں گے جبکہ حکومت خطیر زرمبادلہ حاصل کرنے کے نادر موقع سے محروم ہوجائے گی جس کا موجودہ حالات میں پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین