چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے سنگین غداری کیس کے مفرور ملزم پرویز مشرف کو عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی مشروط اجازت دے دی ہے،ان کے الیکشن لڑنے کو عدالتی حکم سے مشروط کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں 13جون کو لاہور رجسٹری میں پیش ہونے پر گرفتار نہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کی پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے عوامی عہدہ کیلئے تا حیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران یہ عبوری حکمنامہ جاری کیا۔ فاضل چیف جسٹس کے اس عبوری حکمنامے پرسیاسی رہنماؤں، قانونی ماہرین اور مختلف حلقوں کی طرف سے حیرت کے ساتھ سخت تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ آئینی امور کے ماہر ایس ایم ظفر نے عدالت عظمی کے اس حکم کو بہت حد تک آئین سے ماورا قرار دیا ہے جبکہ انکے صاحبزادے نگران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر اور رشید اے رضوی جیسے بعض ماہرین قانون سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمی چاہتی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نظام انصاف کے سامنے خود کو پیش کر دیں اور قانون کا سامنا کریں اس لئےانہیں گرفتار نہ کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ چونکہ پرویز مشرف کو کسی عدالت نے کسی بھی مقدمے میں ابھی تک سزا نہیں سنائی اسلئے وہ الیکشن لڑنے کے اہل ہیں اور جرم ثابت ہونے تک بے قصور ہی تصور ہونگے۔ دوسری طرف احتساب عدالت میں 80سے زائد پیشیاں بھگتنے والے سابق وزیرا عظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ دو بار آئین توڑنے ، ججوں کو نظر بند کرنے،بارہ مئی کو درجنوں افراد کو مارنے، بگٹی کو قتل کرنے کے ذمہ دار کو کیسے الیکشن لڑنے کی مشروط اجازت دی جا سکتی ہے، نواز شریف نے اس آئینی شق کےبارےمیں بھی پوچھا ہے جس کے تحت سابق آمر کو یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی تیمار داری کیلئے حاضری سے استثنیٰ نہ ملنے کا حوالہ دے کر اپنے اور پرویز مشرف کیساتھ روا رکھے جانیوالے سلوک کا موازنہ بھی کیا۔ بطور چیئرمین سینیٹ ملک میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والی حکمراں اشرافیہ سے لے کر عام آدمی تک قانون کی پانچ کیٹیگریز کے بارےمیںکھلا سچ بولنے والے میاں رضا ربانی نے بھی پرویز مشرف کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت دینے پر سخت رد عمل دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ملک کی مختلف عدالتیں جس شخص کو مفرور قرار دے کر جس کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر چکی ہیں اسے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت دینا ثابت کرتا ہے کہ جو آئین توڑے، آئین کو معطل کرے اور نظام انصاف کا بھگوڑا ہو وہ پاکستان میں انتہائی قابل عزت ہے۔ الیکشن سے قبل پرویز مشرف کو وطن واپسی پر گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی نے انتخابات کی شفافیت پراٹھنے والے سوالات کو بھی مہمیز عطا کر دی ہے کیونکہ وہ نہ صرف ایک رجسٹرڈ جماعت کے سربراہ ہیں بلکہ چھ ماہ قبل انہوں نے پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے 23 جماعتوں پر مشتمل ایک گرینڈ الائنس بنانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی طرف سے خود ساختہ اتحاد میں شامل کی گئی بہت سی جماعتوں نے نہ صرف ایسے کسی گرینڈ الائنس کا حصہ بننے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا بلکہ ان جماعتوں کے رہنماؤں نے برملا مشرف کے اس فرضی منصوبے سے لا تعلقی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ اس نازک موقع پر پرویز مشرف کیلئے ایسی رعایت بلا شبہ سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں کیونکہ سابق وزیرا عظم نواز شریف اپنے خلاف قائم تمام مقدمات کی وجہ اس ڈکٹیٹر کے خلاف سنگین غداری کی کارروائی کو قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے عبوری حکم نامے کے بعد آل پاکستان مسلم لیگ کے عہدیداران نے دعویٰ کیا کہ پرویز مشرف کی پاکستان واپسی کیلئے پہلے سے مشاورت جاری تھی اور اب ان کی جلد واپسی کیلئے تاریخ کا تعین کر لیا جائے گا تاہم ابھی کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت ملنے پرمستقبل کے منظرنامے میں رنگ بھرنے کے تصورات جاری تھے کہ نادرا نے پرویز مشرف کا شناختی کارڈ بلاک کر دیا جس کیساتھ ہی ان کا پاسپورٹ بھی بلاک ہو گیا۔ پرویز مشرف کو پاکستان واپسی کیلئے شناختی کارڈ کو ان بلاک کرانا ہوگا جس کیلئے انہیں یقیناً ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا جس کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار کراچی رجسٹری میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بھی فرما چکے ہیں کہ پرویز مشرف کے آنے سے سب کو خطرہ ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف آ کر قانون کا سامنا کرے، کسی کیلئے خطرے کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔ قارئین کی معلومات کیلئے نادرا نے سابق آمر کا قومی شناختی کارڈ اس خصوصی عدالت کی ہدایات کی روشنی میں بلاک کیا ہے جو نہ صرف اس کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے بلکہ وہ اسے مفرور قرار دیتے ہوئے اس کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر چکی ہے، یہی نہیں بلکہ خصوصی عدالت وفاقی حکومت کو اس مفرور ملزم کی گرفتاری کیلئے انٹر پول کے ذریعے کارروائی کرنے کی ہدایت بھی دے چکی ہے۔ یہ وہی پرویز مشرف ہیں جن کے خلاف خصوصی عدالت میں 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے پرسنگین غداری کیس زیرسماعت ہے جبکہ وہ شہید بے نظیر بھٹو قتل کیس ،لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عبد الرشید غازی ہلاکت کیس اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمات میں بھی مطلوب ہیں۔ یہ وہی پرویز مشرف ہیں جنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اکبر بگٹی قتل کیس میں بغیر پیش ہوئے خصوصی عدالت سے با عزت بری ہو جاتے ہیں۔ آئین پاکستان کو پامال کر کے آٹھ سال، دس ماہ اور چھ دن تک پاکستان پر حکمرانی کرنے والے یہ وہی پرویز مشرف ہیں جنہیں ایڈیشنل سیشن جج سے لیکر خصوصی عدالت تک نہ صرف اشتہاری قراردیکر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے بلکہ ان کی جائیدادکی قرقی کے احکامات بھی صادر کر چکی ہے۔ گزشتہ عام انتخابات سے قبل24 مارچ 2013 کو پاکستان واپس آنے والے یہ وہی آمر ہیں جو تین سال تک ملک کے نظام انصاف کی بے بسی سے کھیلنے کی بعد 18 مارچ 2016 ءکو خصوصی عدالت میں علاج کا بہانہ بنا کر پاکستان سے راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں۔ ان تین سالوں میں ایڈیشنل سیشن جج سے انسداد دہشت گردی اور خصوصی عدالت تک انہیں بار بار طلب کرتی ہیں لیکن وہ ان کے سامنے پیش ہونا اپنی توہین گردانتے ہیں۔ اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر مفرور ہونے اور امراض قلب کے ادارے میں پناہ لینے کی روداد بھی تاریخ کا دلچسپ باب ہے۔ سنگین غداری کیس میں مخصوص ضمانتوں کے بعد صرف ایک بار پیش ہونے والے یہ وہی آئین شکنی کے مرتکب ملزم ہیں جو فرد جرم عائد ہونے کے بعد اس سے انکار کیلئے بھی دوبارہ عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ہمت نہیں کر سکے۔ دو سال تین ماہ قبل خصوصی عدالت کے بلانے پر حاضر ہونے کی یقین دہانی پرمبنی حلف نامہ جمع کرانے والے یہ وہی پرویز مشرف ہیں جنہوں نے کراچی ایئر پورٹ سے دبئی روانہ ہوتے وقت دعویٰ کیا تھا کہ ؛ وہ ایک کمانڈو ہیں جنہیں اپنے وطن سے پیار ہے ،وہ چند ماہ میں وطن واپس آ جائیں گے؛۔ وہ تب بھی سپریم کورٹ کی طرف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے حکمنامے کا فائدہ اٹھا کر پاکستان سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کی بیرون ملک روانگی کا داغ بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کے دامن پر لگایا جاتا ہے حالانکہ پرویز مشرف خود انکشاف کر چکے ہیں کہ وہ کس کی مدد سے باہر گئے تھے۔ ادھر اپوزیشن کی تنقید پر آخری قومی اسمبلی کے آخری سیشن کے دوران سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق ان الفاظ میں برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ جمہوریت میں جتنی جان تھی اتنی دیر پرویز مشرف کو باہر جانے سے روکے رکھا تھا۔ایک سال کم تقریبا ایک عشرے کے اقتدار کی یادیں ہی ہیں جو پرویز مشرف کو ایک بار پھر پاکستان واپس آنے پرمجبور کر رہی ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو حبس بے جا میں رکھنے سے آئین شکنی تک مختلف مقدمات ان کے ارادوں اور منصوبوں کی راہ میں حائل ہیں۔ ان حالات میں جب وہ انہی مقدمات میں پاکستان کی مختلف عدالتوں کو مطلوب ہیں سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں عام انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی مشروط اجازت دینے اور وطن واپسی پر گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔آئین اورجمہوریت پر یقین رکھنے والا ہرپاکستانی ان سوالات کے جوابات کا طلبگار ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)