گفتگو: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے سے قبل کراچی میں امن کمیٹی ہوا کرتی تھی اور شہر میں قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام تھیں، مسلم لیگ (ن) نے اس ظلم اور تاریکی کے دور کو ختم کیا، مسلم لیگ (ن) ہی نے وفاق کے فنڈز سے کراچی میں گرین لائن بچھائی، بجٹ تقریر میں کراچی میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے کا اعلان کیا، جنوبی پنجاب کی طرح سندھ میں بھی نئے صوبے بننے چاہئیں، دوبارہ وفاقی حکومت بنی، تو کراچی سے ٹرانسپورٹ اور پانی کی قلت کا مسئلہ ختم کر دیں گے
اگلے برس کراچی میں بجلی کی طلب 3700سے 3800میگا واٹ تک پہنچ جائے گی ، یہ کمی پوری کرنے کے لیے 600سے700میگا واٹ کا انتظام کرنا پڑے گا، لیکن کے ای یہ کمی پوری کرتی نظر نہیں آ رہی،یہ کہنا غلط بیانی ہو گی کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے،اس وقت مجموعی طور پر کم و بیش 4000میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے، جولائی تک نیلم، جہلم پاور پراجیکٹ بھی مکمل ہو جائے گا، جس سے 975میگا واٹ بجلی ملے گی اور تربیلا فورتھ ایکسٹینشن بھی مکمل ہو جائے گی، جس سے 1400میگاواٹ بجلی ملے گی، جولائی میں حالات بہتر ہو جائیں گے تاہم ترسیل کے نظام میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے اور یہ بہتر ہو سکتا ہے
کالا باغ ڈیم ایک بہترین آبی ذخیرہ ثابت ہو گا، لیکن اگر یہ منصوبہ متنازع ہو چکا ہے، تو اس کے بہ جائے دوسرا منصوبہ شروع کر دیا جائے، اگر میاں صاحب ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں، تو اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ وہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی عزت نہ کرنے کی بات کر رہے ہیں، ہمارے دور میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئی،آیندہ دنوں شرحِ نمو میں مزید اضافہ اور افراطِ زر میں کمی واقع ہو گی، روپے کی قدر میں کمی سے برآمدات میں اضافہ ہونا شروع ہوا ، صحت اور تعلیم کے شعبے میں صوبوں کو 2350ارب روپے دیں گے
سازگار حالات نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ (نون) قومی اسمبلی کی 115نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی،پاکستان کی دوسری اور تیسری بڑی جماعتیں پی پی اور پی ٹی آئی ہوں گی، جو 40،40نشستیں حاصل کریں گی،کاغذاتِ نامزدگی سے شقیں نکالنے کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا، سپریم کورٹ کو امیدواروں سے جو کچھ پوچھنا ہے، پوچھ لے، آیندہ انتخابات شفاف ہوں گے ، الیکشن سے پہلے اور بعد میں یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انتخابات انجینئرڈ ہوں گے، میں نے روپے کی قدر میں کمی کی اور پھر برآمدات میں اضافہ ہوا، ہم نے ایک بنیادی غلطی یہ کی تھی کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر گرنے سے روکے رکھا اور اس کے نتیجے میں ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ میں اربوں ڈالرز raise کرنا پڑے
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل ایک ممتاز صنعت کار اور ماہر معیشت ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر رہے اور وفاقی وزیر خزانہ، ریونیو اور اقتصادی امور کے طور پر خدمات انجام دیں۔ قبل ازیں، وہ وزیر مملکت، وزیر اعظم کے خصوصی معاون، بورڈ آف انوسٹمنٹ اور نج کاری کمیشن کےچیئرمین رہے۔ علاوہ ازیں، سوئی سدرن گیس کمپنی کے چیئرمین بھی رہے۔ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل نے یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے وارٹن اسکول آف بزنس سے پبلک فنانس اور پولیٹیکل اکانومی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ پاکستان واپسی سے قبل آئی ایم ایف سے وابستہ رہے۔ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل پاکستان کی سب سے بڑی کنفیکشنری کمپنی اسمٰعیل انڈسٹریز(لمیٹڈ) کے سی ای او اور ڈائریکٹر اور کراچی امریکن اسکول کے صدر بھی رہے۔ نیز، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی وزیٹنگ فیکلٹی میں بھی شامل رہے۔ حال ہی میں انہوں نے اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل سے ان کی رہائش گاہ پر خصوصی گفتگو ہوئی، جس میں ان کے سیاست میں قدم رکھنے کے فیصلے، آیندہ انتخابات کے بعد کے منظر نامے، گزشتہ حکومت کی معاشی کارکردگی اور ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال سمیت دیگر معاملات پر بات چیت ہوئی۔ یہ تفصیلی گفتگو ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
جنگ:آپ نے کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاست میں حصہ لینے کا خیال کیسے آیا اور یہ اہل کراچی کے لیے کتنی اچھی خبر ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میں نے گزشتہ عام انتخابات میں بھی این اے 250سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروائے تھے، لیکن یہاں ہماری جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی، جس کی وجہ سے میں نے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے۔ میں نے سوشل میڈیا پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ پارٹی کے ٹکٹ دینے سے مشروط ہے۔ میں مشیرِ خزانہ، وزیرِ خزانہ، بورڈ آف انوسٹمنٹ کے چیئرمین، نجکاری کمیشن کے چیئرمین اور ایس ایس جی سی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے چکا ہوں۔ گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی فیصلہ ساز مجلس میں شامل رہا اور گرین لائن بس سروس سمیت کراچی کے حوالے سے کئی اہم فیصلوں میںاہم کردار ادا کیا۔ اگر ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوتی ہے، تو اس اعتبار یہ سے اہلِ کراچی کے لیے اچھی خبر ہو گی کہ شہرقائد سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد فیصلہ سازی میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔
جنگ:جب آپ اپنی انتخابی مہم میں عوام کے درمیان جائیں گے، تو انہیں خود کو ووٹ دینے پر کس طرح آمادہ کریں گے؟ کیا مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کراچی میں ترقیاتی کام کروائے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل2013:ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے سے قبل کراچی میں امن کمیٹی ہوا کرتی تھی اور شہر میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام تھیں۔ کراچی کے تاجروں سے لے کر غریب مزدور تک تنگ تھے۔ جرائم پیشہ افراد پوری بس کو لوٹ لیتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس ظلم اور تاریکی کے دور کو ختم کیا ۔ اس میں پاکستان رینجرز کا بھی خاصا کردار ہے، لیکن قیامِ امن کا سہرا مسلم لیگ (ن) ہی کے سر جاتا ہے، جبکہ اس سے قبل کی حکومت نے شہر میں بے امنی کو ہوا دی۔ مسلم لیگ (ن) ہی نے وفاق کے فنڈز سے کراچی میں گرین لائن بچھائی، جبکہ لاہور، ملتان اور پشاور سمیت دوسرے شہروں میں ایسی سروسز پر صوبائی حکومتیں اپنے وسائل خرچ کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا فرض تھا کہ وہ کراچی میں کم از کم ایک بس لائن تو بچھاتی کہ اس شہر میں صوبے کی کم و بیش40فیصد یا ایک تہائی آبادی مقیم ہے۔ حالانکہ ماسٹر پلان میں کم از کم نصف درجن بس لائنیں میں شامل تھیں۔ چوںکہ مجھے اندازہ تھا کہ پی پی سرجانی ٹائون سے آرام باغ یا ٹاور تک بس سروس شروع نہیں کرے گی کہ یہاں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ہے، اس لیے میں نے میاں نواز شریف کو گرین لائن بس سروس کا مشورہ دیا۔ اسی طرح کے فور منصوبے میں ایک تہائی رقم کراچی کی مقامی حکومت، ایک تہائی صوبائی حکومت اور اتنی ہی رقم وفاقی حکومت نے فراہم کرنی تھی، لیکن جب پی پی اور ایم کیو ایم کا اتحاد ختم ہو گیا، تو پی پی نے کراچی کے وسائل بھی ہضم کر لیے۔ اگرچہ اس صورت میں صوبائی حکومت کو دو تہائی فنڈز فراہم کرنے تھے، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ تب تک منصوبے کی لاگت بڑھ کر 25ارب تک پہنچ چکی تھی اور ہم نے یعنی وفاق نے نصف لاگت ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ لاگت 40ارب تک پہنچ چکی ہے، لیکن پائپ لائن تعمیر نہیں ہو رہی۔ یہ منصوبہ پی پی کی وفاقی حکومت میں بنا تھا، لیکن اس نے رقم ادا نہیں کی اور 2016-17ء میں ہم نے 2ارب روپے ادا کیے۔ یعنی ہم نے ہی یہ منصوبہ شروع کیا۔ پھر جب میں وفاقی وزیر خزانہ بنا اور اللہ نے مجھے بجٹ پیش کرنے کا موقع دیا، تو کراچی کا شہری ہونے کے ناتے میں نے یہ کہا کہ سمندر کے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگائوں گا۔ اس پلانٹ پر 100ارب کی لاگت آئے گی اور ہم یہ پلانٹ وفاقی حکومت کی رقم کے بہ جائے بی او ٹی پر لگائیں گے اور اس کے نتیجے میں کراچی کو 50ملین گیلن میٹھا پانی ملے گا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں ایک گیلن پر 20سے30پیسے کی لاگت آئے گی، جو بہت کم ہے۔ جب ہماری وفاقی حکومت آئے گی، تو ہم یہ منصوبہ ضرور شروع کریں گے اور کراچی میں ٹرانسپورٹ اور پانی کی قلت کا مسئلہ حل کریں گے۔
جنگ:یوں تو پورے ملک ہی میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے، لیکن کراچی کی صورتحال ابتر ہے اور اب تو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی ہے، جبکہ حکومت اور کے ای کے درمیان ہونے والا معاہدہ بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے آپ کی حکومت نے کوئی کردار ادا کیا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:کراچی میں اتنی زیادہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہے، جتنی ملک کے دوسرے حصوں میں ہوا کرتی تھی۔ اس وقت کے ای خود 3000میگا واٹ بجلی خرید یا بنا سکتی ہے، جبکہ شدید گرمی میں بجلی کی طلب 3500میگا واٹ تک پہنچ جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہر روز شہر کا بارہواں حصہ لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہوتا ہے۔ اب جہاں تک کے الیکٹرک کی سرمایہ کاری نہ کرنے کی بات ہے، تو یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ صوبائی حکومت واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو کے الیکٹرک کی رقم ادا نہیں کرتی تھی۔ اسی طرح گیس کمپنی کے پیسے بھی روک لیے جاتے تھے، جس کی وجہ سے گردشی قرضوں نے جنم لیا۔ جب تک میں ایس ایس جی سی کا چیئرمین تھا، تو میں نے کے ای سے گیس کے پیسے نہیں لیے، لیکن گیس بند بھی نہیں کی۔ اب پتہ نہیں نگراں حکومت گردشی قرضوں کا مسئلہ حل کر پاتی ہے یا نہیں۔ اگلے برس کراچی میں بجلی کی طلب 3700سے 3800میگا واٹ تک پہنچ جائے گی اور یہ کمی پورے کرنے کے لیے 600سے700میگا واٹ کا انتظام کرنا پڑے گا، لیکن کے ای یہ کمی پوری کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔
جنگ:اگر دیکھا جائے، تو کے ای کے مقابلے میں کے ای ایس سی کی کارکردگی بہتر رہی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اب ابراج کے ای کو شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کرنے جا رہا ہے اور اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے، تو آپ کو بہتری نظر آئے گی۔ البتہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگلے برس بجلی کی طلب میں مزید اضافہ ہو گا اور کے الیکٹرک کو دوسرے ذرایع سے بجلی حاصل کرنا ہو گی۔
جنگ:مسلم لیگ (ن) لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ایجنڈے پر حکومت میں آئی تھی، لیکن لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تو درکنار ، بلکہ ان علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی ہے، جہاں پہلے نہیں ہو رہی تھی۔ کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں نگراں وزیر اعظم کو پاور کمپنیز کے حوالے سے میٹنگ کرنا پڑی۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:یہ کہنا غلط بیانی ہو گی کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے۔ ان دنوں حویلی بہادر شاہ کے دو ٹربائنز میں سے ایک ٹرپ ہونے اور بلوکی پاور پلانٹ بند ہونے کی وجہ سے 1900میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ پھر ہائیڈل انرجی سے پچھلے برس کی نسبت 2300میگاواٹ کم مل رہے ہیں، جس کا سبب تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کی کمی ہے۔ یعنی اس وقت مجموعی طور پر کم و بیش 4000میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے، لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ جولائی تک نیلم، جہلم پاور پراجیکٹ بھی مکمل ہو جائے گا، جس سے 975میگا واٹ بجلی ملے گی اور تربیلا فورتھ ایکسٹینشن بھی مکمل ہو جائے گی، جس سے 1400میگاواٹ بجلی ملے گی۔ جولائی میں حالات بہتر ہو جائیں گے، لیکن اس وقت ہماری توقعات اور دعووں کے بالکل برعکس بجلی کی لوڈ شیڈنگ جار ی ہے۔ اس وقت پانی سے تیار ہونے والی بجلی نہ ملنے کی وجہ سے اسلام آباد میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہو رہی ہے، لیکن لاہور میں زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔
جنگ:کیا آپ پر امید ہیں کہ جب مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنی انتخابی مہم چلائے گی اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کرے گی، تو اسے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میں 2011ء میں لاہور میں مقیم تھا اور وہاں ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، لیکن اب پورے دن میں گھنٹے دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ یعنی لوڈ شیڈنگ یومیہ 12گھنٹے سے 2گھنٹے تک پہنچ گئی ہے، جو ہماری حکومت کی کامیابی ہے اور ویسے بھی ان دنوں پنجاب میں میاں نواز شریف کا بیانیہ بہت مقبول ہو رہا ہے۔
جنگ:ماہرین کا ماننا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں تو اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی ترسیل کا نظام نہیں بنایا گیا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:یہ بات بالکل درست ہے۔ ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب جونہی درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو پلانٹ ٹرپ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دیکھیں، عموماً ایک کول پاور پلانٹ مکمل ہونے میں تین برس لگ جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے دور حکومت میں کوئلے کے دو پلانٹس اور ایل این جی کے تین ٹرمینلز لگائے اور صرف ایک سو ارب روپے کی تو پائپ لائن بچھائی ہے۔ تاہم، ترسیل کے نظام میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے اور یہ بہتر ہو سکتا ہے۔
جنگ:پاکستان کو پانی کی قلت کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ یو این او کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے، جنہیں پانی کی قلت کا سامنا ہے اور پانی کے ذخائر تیزی سے خشک ہو رہے ہیں۔ ان دنوں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی باتیں ہو رہی ہیں، جس کے خلاف ملک کی تین صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں قرار داد منظور ہو چکی ہے، لیکن اس کے علاوہ دوسرے آبی ذخائر بھی تو تعمیر کیے جا سکتے ہیں، جن پر پی پی یا آپ کی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:ملک کی آبادی 7کروڑ سے 20کروڑ تک پہنچ چکی ہے، لیکن تربیلا اور منگلا کے علاوہ کوئی نیا ڈیم نہیں بنا۔ اب کم از کم 700ارب روپے کی لاگت سے بھاشا ڈیم تو تعمیر کیا جائے۔ بے شک کالا باغ ڈیم ایک بہترین آبی ذخیرہ ثابت ہو گا، لیکن اگر یہ منصوبہ متنازع ہو چکا ہے، تو اس کے بہ جائے دوسرا منصوبہ شروع کر دیا جائے، تاکہ حکومت پر لوگوں کا اعتماد بڑھے۔
جنگ:آپ نے مسلم لیگ (نون) کے بیانیے کی بات کی ہے۔ میاں نواز شریف مستقل عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر رہے ہیں۔ کیا اس سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ اگر میاں صاحب ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں، تو اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ وہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی عزت نہ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور ہائی کورٹ نے خدیجہ صدیقی پر حملہ کرنے والے ملزم کو رہا کر دیا۔ کیا ایسے فیصلوں سے عدلیہ کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح چیف جسٹس صاحب بھی کیمروں کے ساتھ مختلف مقامات کے دورے کر رہے ہیں اور لوگوں پر برتن پھینک رہے ہیں، تو ایسے اقدامات کے نتیجے میں عدلیہ پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ البتہ ہم اسے متنازع بنانے کی کوشش نہیں کر رہے۔
جنگ:لیکن مسلم لیگ (ن) کا یہ دعویٰ ہے کہ حکومت بنانے اور گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کرتی ہے اور پھر ویسے بھی مسلم لیگ (ن) خود بھی اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد سے برسر اقتدار آتی رہی ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:ایسی بات نہیں ہے۔ 2013ء کے انتخابات صاف و شفاف تھے۔ پی ٹی آئی بھی اس بات کو مانتی ہے، لیکن دھرنے دے کر ملک کی ترقی کی راہیں روکی گئیں۔ اگرچہ میاں نواز شریف چار برس تک وزیر اعظم رہے اور ہماری حکومت نے پانچ برس مکمل کیے، لیکن دھرنوں کی وجہ سے ہم اپنے اہداف حاصل نہ کر سکے۔ اگر یہ رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں، تو شاید آج لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہوتی اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس قسم کی سرگرمیوں سے ملک و قوم کا وقت ضایع کیا گیا۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے 4برس تک حکومت کی، لیکن انہیں ایک لمحے کے لیے بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا۔
جنگ:آپ کس کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:ہم نے اپنے منشور میں 4اِیز کو شامل کیا تھا۔ ایجوکیشن، الیکٹریسٹی، اکانومی اور ایکسٹریم ازم۔ ہم پاک فوج اور پاکستان رینجرز کے تعاون سے کراچی اور فاٹا میں امن لے کر آئے۔ امریکا کھربوں ڈالرز خرچ کر کے بھی نیٹو اور ایساف کی مدد سے افغانستان پر سے طالبان کا قبضہ ختم نہیں کر واسکا، جبکہ ہماری فوج نے فاٹا کو دہشت گردوں سے پاک کر دکھایا۔ اگر اکانومی کی بات کی جائے، تو اس وقت شرحِ نمو 5.7سے 5.8فیصد ہے اور افراطِ زر قابلِ ذکر حد تک کم ہو چکا ہے۔ معیشت میں وسعت آنے کی وجہ سے شہریوں کو روزگار مل رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور زراعت کے شعبے میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ پھر اللہ نے مجھے یہ سعادت دی کہ ہم نے ملازمت پیشہ افراد کے ٹیکس ریٹ نصف کر دیے۔ اس کے علاوہ ٹیکس نادہندگان کے لیے یہ مشکل بھی کھڑی کی کہ اگر وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے، تو گاڑی بھی نہیں خرید سکتے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت آگے بڑھ رہی ہے۔ اگلے سال شرحِ نمو 6فیصد سے بھی بڑھ جائے گی اور افراطِ زر میں مزید کمی واقع ہو گی۔ البتہ درآمدات میں اضافہ ایک مسئلہ ہے، لیکن روپے کی قدر میں کمی سے برآمدات میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوا ہے۔ اگر ہم اس سمت میں چلتے رہے، تو یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ہم صحت اور تعلیم کے شعبے میں 2350ارب روپے دیں گے، جبکہ پی پی نے 1200ارب دیے تھے۔ اب صوبے صحت اور تعلیم پر خاطر خواہ رقم خرچ کر سکتے ہیں۔ اگر انرجی کی بات کی جائے، تو ہم نے ایل این جی سے چلنے والے تین پلانٹس لگائے ہیں، بھکی، بلوکی اور حویلی بہادر شاہ میں۔ اس میں بھکی پنجاب حکومت کا اور بلوکی اور حویلی بہادر شاہ پلانٹ وفاقی حکومت کا ہے۔ ان منصوبوں سے 3600میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ 2600میگا واٹ کول پاور پلانٹ سے آئے، 1300کراچی میں اتنے ہی ساہیوال میں۔اس کے ساتھ ہی 300میگا واٹ سولر پلانٹ سے حاصل کیے گئے۔ 900میگاواٹ نیلم جہلم سے آ گئے۔ 1435میگاواٹ تربیلا فور سے آ گئے۔ اس کے علاوہ ہم نے نندی پور پراجیکٹ لگایا، جس سے 400سے 450میگا واٹ ملے۔ پی پی اسے پورٹ پر چھوڑ گئی تھی۔ چشمہ تھری اور فور سے 600میگا واٹ ملتے ہیں، تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ توانائی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔
جنگ:پنجاب ملک کا اہم صوبہ ہے۔ عموماً پنجاب میں فتح حاصل کرنے والی جماعت وفاق میں بھی حکومت بناتی ہے۔ ان دنوں ملک میں الیکٹ ایبلز کی سیاست ہو رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے کئی اہم رہنما پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ذوالفقار کھوسہ علی کھوسہ نے بھی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مقابلہ ہو گا اور وہاں گھمسان کا رن پڑنے والا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:وسطی اور شمالی پنجاب میں قومی اسمبلی کی 95نشستیں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں 102نشستیں تھیں، جن میں سے 7کم ہو چکی ہیں۔ اگر ہوا مسلم لیگ (ن) کے بہت زیادہ بھی خلاف ہوئی، تو ہم 80نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میاں نواز شریف جہاں جاتے ہیں، عوام کا سیلاب امنڈ آتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل محسن شاہنواز رانجھا نے ایک جلسہ کروایا تھا۔ اس کامیاب جلسے پر سب نے انہیں مبارک باد دی۔ پھر طلال چوہدری نے فیصل آباد میں ایک بڑا جلسہ کروایا اور لوگوں نے انہیں مبارک باد دی۔ پھر میاں صاحب مانسہرہ گئے، وہاں بھی عوام آ گئے، تو ہمیں احساس ہوا کہ جہاں میاں صاحب جاتے ہیں، وہاں عوام امنڈ آتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) پورے پاکستان سے 115نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
جنگ :عدالتِ عظمیٰ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا ہے اور ان کے خلاف نیب کی عدالت میں بھی مقدمات چل رہے ہیں۔ اگر میاں صاحب کے خلاف سخت فیصلہ آتا ہے، تو آپ کیا لائحہ عمل اپنائیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میاں صاحب کو اقامے پر نکالا گیا، تو اس سے سخت فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد جی ٹی روڈ پر عوام کا ہجوم نکل آیا۔ پھر نواز شریف کو پارٹی قیادت سے بھی ہٹا دیا گیا، لیکن عوام نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اگر پھر کوئی فیصلہ خلاف آ گیا، تو عوام نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑنا۔ لوگ اب یہی پوچھتے ہیں کہ نواز شریف نے کیا کرپشن کی۔ بڑی الجھے ہوئے فیصلے اور تعبیریں پیش کی جا رہی ہیں۔
جنگ:لیکن میاں صاحب کے دونوں صاحبزادے اور سمدھی اسحٰق ڈار ملک واپس کیوں نہیں آ رہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میاں صاحب کے صاحبزادے عدالت میں پیش ہوئے ہیں اور میاں نواز شریف ان کی صاحبزادی اور داماد 80سے زاید مرتبہ عدالت میں پیش ہو چکے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے کوئی کرپشن نہیں کی اور نہ ہی انہیں کرپشن پر نکالا گیا۔
جنگ:نئے کاغذاتِ نامزدگی پر خاصا بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اس میں سے کم و بیش 20ڈیکلریشنز کو نکال دیا گیا ۔ پارلیمنٹ نے ایسا کیوں کیا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:انتخابی اصلاحات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس نے یہ بل تیار کیا، لیکن کاغذاتِ نامزدگی میں ناموسِ رسالتؐ سے متعلق ترمیم کا سارا نزلہ بھی ہم پر گرا۔ البتہ کاغذاتِ نامزدگی سے بعض شقیں نکالنے کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا، لیکن سپریم کورٹ کو امیدواروں سے جو کچھ پوچھنا ہے، وہ پوچھ لے۔
جنگ:کیا آیندہ انتخابات صاف و شفاف ہوں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :جی بالکل۔ آیندہ انتخابات شفاف ہوں گے اور الیکشن سے پہلے اور بعد میں یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انتخابات انجینئرڈ ہوں گے۔ انتخابات شفاف ہونے چاہئیں اور شفاف ہوتے دکھائی دینے چاہئیں۔ اگر کسی کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسے وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، تو اس سے انتخابات متاثر ہوں گے۔
جنگ:ہمارے جمہوری نظام کے لیے الیکٹ ایبلز کی سیاست کس قدر مفید ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اگر الیکٹ ایبل واقعی الیکٹ ایبل ہوتا ہے، تو اسے پارٹی تبدیل کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ وہ کسی بھی پارٹی میں رہتے ہوئے جیت سکتا ہے۔ دراصل، قاف لیگ ایک حقیقی جماعت نہیں تھی، لیکن چوںکہ اسے اس وقت کےحکمراں کی حمایت حاصل تھی، لہٰذا بیش تر سیاستدان اس میں شامل ہو گئے، لیکن مسلم لیگ (ن)، پی پی اور پاکستان تحریک انصاف حقیقی جماعتیں ہیں اور ان کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ 2013ء میں پی ٹی آئی کی کارکردگی اچھی رہی اور حالیہ انتخابات میں بھی یہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی ایک حقیقی جماعت تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات میں وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائے گی۔ پی ایس پی بھی دیرپا جماعت نہیں لگتی۔ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ جسے پارٹی چھوڑ کر جاناہے، چلا جائے۔ حکومت میں نہ آنے سے بندہ مر تو نہیں جاتا۔
جنگ:آیندہ عام انتخابات کے نتائج کے بارے میں کیا پیش گوئی کریں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ہی ہو گی۔ اگرچہ بہت سے لوگ اسے چھوڑ کر جا چکے ہیں اور مزید چھوڑنے والے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ملک بھر سے 110سے 115نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اسی طرح پاکستان کی دوسری اور تیسری بڑی جماعتیں پی پی اور پی ٹی آئی ہوں گی، جو 40،40نشستیں حاصل کریں گی۔
جنگ :یعنی 2013ء کے انتخابات والا نتیجہ آئے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:جی ہاں، کم و بیش ویسا ہی رزلٹ سامنے آئے گا۔ ہو سکتا ہے کہ بلوچستان سے کچھ نشستیں ’’باپ‘‘ نکال لے اور سندھ سے جی ڈی اے 4سے 5نشستیں لینے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کراچی اور پنجاب سے کچھ نشستیں نکال لے۔
جنگ:کے پی کے میں کیا صورتحال ہو گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:کے پی کے پشتو اکثریتی علاقوں میں پی ٹی آئی فتح حاصل کرے گی۔ پی ٹی آئی نے کے پی کے جنوبی اضلاع میں فنڈز فراہم کیے ہیں۔ یہاں سے بھی پی ٹی آئی ہی کی جیت کے امکانات ہیں۔
جنگ:آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد والی ہی صورتحال ہو گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: جی ہاں۔
جنگ:معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ آپ کی حکومت معیشت کو مشکل میں چھوڑ کر جا رہی ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور روپے پر دبائو ہے اور نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اس وقت روپے پر دبائو ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اگلے چند برسوں میں ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا اور برآمدات میں اضافے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔ درآمدات بہت تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ میں نے روپے کی قدر میں کمی کی اور پھر مارچ، اپریل اور مئی میں برآمدات میں اضافہ ہوا۔ ہم نے ایک بنیادی غلطی یہ کی تھی کہ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر گرنے سے روکے رکھا اور اس کے نتیجے میں ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ میں اربوں ڈالرز raise کرنا پڑے۔ یہ ایک حد تک تو ٹھیک تھا، لیکن جب یہ رقم 14ارب ڈالرز تک پہنچ جاتی، تو ہمارے لیے برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ سو اس کا یہی حل تھا کہ روپے کی قدر کو کم کیا جائے اور ہم نے ایسا ہی کیا، لیکن مصنوعی طور پر قدر کو گرنے سے روکنے کی وجہ سے ہمیں جو نقصان پہنچا، اس کے اثرات تو یقیناً نظر ائیں گے۔ درحقیقت، اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ میں ایسے افراد موجود نہیں ہیں، جو معیشت پر واقعی مہارت رکھتے ہوں۔ یہ افراد مفروضوں پر کام کرتے ہیں، حالانکہ یہ ایک خالصتاً تیکنیکی شعبہ ہے، جس کی وجہ سے مسائل سامنے آتے ہیں۔
جنگ :ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ایک سخت فیصلہ تھا۔ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا کہ زیادہ تر بجٹ پنجاب میں استعمال ہو رہا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:جب 2010-11ء میں صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ دیا گیا، تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبوں کو 57فیصد رقم ملے گی اور وفاق پر یہ ذمہ داری بھی عاید کی گئی کہ ٹیکس وصولی بھی وہی کرے گا۔ دفاع کے اخراجات بھی وفاق ادا کرے گا۔ ترقیاتی بجٹ بھی وفاق دے گا۔ نیز، متعدد اداروں کو گرانٹ بھی وفاق دے گا۔ اب وفاق یہ سارے کس طرح کر سکتا ہے۔ پھر دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ جو فیصلہ نچلی ترین سطح ہو سکتا ہے، اسے وہیں کیا جائے۔ ہمیں اپنے پی ایس ڈی پی کے ذریعے آبی ذخائر تعمیر کرنے چاہئیں۔ صوبوں کے درمیان رابطہ سڑکیں تعمیر کرنی چاہئیں۔ صوبوں کے درمیان پائپ لائنز بچھانی چاہئیں، لیکن شہروں کے اندر اس طرح کے ترقیاتی کام کرنا وفاق کی ذمہ داری نہیں۔ وفاقی حکومت ان ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور ہم نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ اب مختلف صوبوں میں ترقیاتی کام کس طرح ہوں گے اور کتنے فنڈز مختص کیے جائیں گے، اس کا فیصلہ پلاننگ ڈویژن کرتا ہے۔
جنگ: کیا مستقبل میں روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: میں فی الوقت اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ سوچ کہ مضبوط کرنسی ملک کے لیے ضروری ہوتی ہے، معیشت کے مضمون سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس وقت 1300کورین وان ایک امریکی ڈالر کے مساوی ہے، تو کیا ہماری معیشت کوریا سے زیادہ مضبوط ہے۔
جنگ: آپ نے ایک غیر منتخب رکن کے طور پر پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس کی وضاحت کریں۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:آئین میں یہ شق موجود ہے۔ اگر کسی کو یہ پسند نہیں، تو پھر اس شق ہی کو ختم کر دیں۔ اسی طرح ایوان میں خواتین بھی مخصوص نشستوں پر آتی ہیں۔ آئین میں اس بات کی گنجائش موجود ہے اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بھی یہ کہنا تھا کہ جس نے بجٹ تیار کیا ہے، اسے ہی پیش کرنا چاہیے۔ مجھے تو انہوں نے بجٹ سے 6ماہ پہلے ہی حلف لینے کے لیے کہا تھا، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اس پر پی ٹی آئی والوں نے پارلیمنٹ میں جو تماشہ کیا، لیکن اگر یہ معاملہ نہ ہوتا، تو وہ کوئی اور ایشو اٹھا کر تماشہ کرتے۔ اس سے قبل جب اسحٰق ڈار نے بجٹ پیش کیا تھا، تو تب بھی انہوں نے شور شرابہ کیا تھا، تو یہ ایک ریت بن چکی ہے۔
جنگ:ٹیکس میں آپ نے بہت زیادہ مراعات دی ہیں۔ آپ 4لاکھ سے 12لاکھ میں آگئے، تو کیا اس کے نتیجے میں بہت سے افراد ٹیکس نیٹ سے باہر نہیں ہو جائیں گے؟ نیز، کیا ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کم نہیں ہو جائے گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:ہم نے کہا ہے کہ 4سے 8لاکھ پر ہزار روپے سال کا ٹیکس دیں اور 8سے 12لاکھ پر 2ہزار کا ٹیکس دیں اور ٹیکس گزار بن جائیں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کی ریلیف ملے گا اور وہ ٹیکس نیٹ میں آئیں گے۔ پھر اس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں بھی اضافہ ہو گا۔ پچھلے سال ایف بی آر نے کتنے نوٹسز جاری کیے اور کتنا ٹیکس ملا۔ اگر ارب روپے کے نوٹسز جاری کیے اور کروڑ روپے ٹیکس ملا، تو اس کا کیا فائدہ ہوا۔ پھر صنعت کاروں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ آپ کو بھی پتہ ہے کہ کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اب کم از کم سرمایہ دار کو کام تو کرنے دیا جائے، تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور اس سے ایسے طریقے سے ٹیکس لیا جائے کہ جہاں سے اس کی بچت کا راستہ نہ ہو۔ اگر کوئی سرمایہ دار 15فیصد کے حساب سے سالانہ 60لاکھ ٹیکس دے رہا ہے، تو اس سے اس کی پریشانیاں بھی ختم ہو جائیں اور وہ بڑے آرام سے ٹیکس اداکرے گا۔
جنگ:آپ نے بجٹ خسارہ بیان کرتے ہوئے اس میں گردشی قرضوں اور خسارے میں چلنے والی سرکاری اداروں پر آنے والے اخراجات کو شامل نہیں کیا۔ اگر انہیں بھی بجٹ خسارے میں شامل کر لیا جاتا، تو کیا بجٹ خسارے میں اضافہ نہیں ہوتا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: یاد رہے کہ 2013ء میں گردشی قرضے اتارنے کے لیے ہم نے بجٹ کے علاوہ پاور ہولڈنگ سے بھی پیسے لیے تھے۔ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ اگر میں گردشی قرضے اور سرکاری اداروں کا خسارہ بھی بجٹ خسارے میں شامل کر لوں، تو بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ ہمیں پی آئی اے، اسٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور ڈسکوز کا خسارہ کم کرنا ہو گا، ورنہ یہ ہمیں کھا جائیں گے۔
جنگ:ان دنوں جنوبی پنجاب صوبہ اور سندھ میں بھی ایک نئے صوبے کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ کیا آپ نئے صوبوں کے حق میں ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:یہ اچھی بات بھی ہے اور بری ہے۔ بری بات اس لیے ہے کہ انتخابات سے پہلے نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور انتخابات کے بعد سب سے فراموش کر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فیصلے جذبات کے بہ جائے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں ملک کے ریٹائرڈ پروفیسرز، ججز، جنرلز، بیوروکریٹس، ماہرینِ معیشت اور سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر غور کرنا چاہیے کہ اس ملک کے انتظامی امور کس طرح بہتر انداز میں چلائے جا سکتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں اپنی تجاویز تیار کر کے قومی اسمبلی میں بھیجیں اور پارلیمنٹ اس پر بحث کرے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک میں چار صوبے ناکافی ہیں، لیکن نئے صوبے لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں۔ تاہم، لسانیت کے عنصر کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ میں بھی جرمنی، فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور عیسائی ہونے کے باوجود یہ لسانیت کی بنیاد پر امتیاز روا رکھتے ہیں۔ ہمیں بیٹھ کر غور و فکر کے ساتھ یہ معاملات طے کرنے چاہئیں۔ اگر اس ملک میں 20سے 30صوبے بھی بن جاتے ہیں، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اب جب اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل دیے گئے، تو انہوں نے انہیں نچلی سطح پر منتقل نہیں کیا۔ اب کراچی کا فیصلہ دادو یا دادو کا فیصلہ کراچی میں نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کراچی کے کسی علاقے میں سڑک بننی ہے، تو اس کا فیصلہ اس شہر کے لوگوں کو کرنا چاہیے۔ اب اٹک سے لے کر رحیم یار خان تک پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے، بلکہ یہ کئی ممالک بھی بڑا ہے۔ اگر اسے انتظامی بنیادوں پر چار حصوں میں تقسیم کر لیا جائے، تو یہ بہتر ہے۔ اسی طرح کے پی کے اور بلوچستان میں بھی نئے صوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ یہی کام ڈویژنز کی سطح پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نئے صوبوں کے قیام سے ہماری غلط فہمیاں اور رنجشیں اور احساسِ محرومی دور ہو گا اور فیڈریشن مضبوط ہو گی۔
جنگ: کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملک بھر کے اضلاع کو زیادہ با اختیار کر دیا جائے، جس طرح کراچی میں ٹائونز کو اختیارات دیے گئے تھے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: جی بالکل ایسا بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مل بیٹھ کر غور و فکر کرنا ہو گا۔ بھارت میں بھی مزید نئے صوبے بنے ہیں۔ مشرقی پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پنجاب، ہریانہ اور چندی گڑھ۔ پاکستان میں بھی انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بننے چاہئیں اور اس میں کوئی ہرج بھی نہیں۔ پی پی رہنمائوں کی جانب سے سندھ میں نئے صوبے کا نعرہ لگانے والوں کو لعنت دینا درست عمل نہیں، کیونکہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن سکتا ہے، تو جنوبی سندھ صوبہ کیوں نہیں۔