حافظ عاکف سعید
قرآن و سنت کی روشنی میں ماہِ رمضان کے دو پہلو وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ روزوں کا مہینہ ہے۔دوسرے یہ کہ نزول قرآن کی نسبت سے یہ ماہ قرآن ہے۔ماہِ رمضان میں روزے اور قرآن دونوں نعمتوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔ روزے کی عبادت سے بھی بھرپور فائدہ اُٹھائیں اور قرآن مجید سے بھی جو سب سے زیادہ عظمت والی کتاب ہے اور جس کے نزول کی وجہ سے رمضان سب سے زیادہ فضیلت والا مہینہ ٹھہرا۔قرآن سے جس چیز کی بھی نسبت قائم ہو جائے وہ فضیلت میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے۔ چناںچہ قرآن کو سیکھنے سکھانے والا سب سے اچھا قرار پاتا ہے۔ اِسی طرح قرآن جس مہینے میں نازل ہوا، وہ مہینہ سب سے افضل ٹھہرتا ہے۔ ماہِ رمضان کا پروگرام اصل میں دن کا روزہ اور رات کا قیام مع القرآن ہے،جیسا کہ حدیث رسولﷺ سے واضح ہے۔آپﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ایمان کی کیفیت کے ساتھ اور اللہ ہی سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جائیں گے، اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قیام اللیل کا اصل مقصد رات کو نفل میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنا یا سننا ہے۔) ایمان کی کیفیت کے ساتھ اور اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کے (بھی) پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘ گویا اس ماہِ مبارک کی برکات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے دن کا روزہ اور رات کا قیام مع القرآن کے دو پروگرام ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔
رمضان نزول قرآن اور قرآن مجید سے تجدید تعلق کا مہینہ ہے۔ ویسے تو بندئہ مومن کا قرآن کے ساتھ تعلق پورے سال ہی رہنا چاہیے،لیکن اس ماہ مبارک میں اس تعلق میں دسیوں،بیسیوں گنا اضافہ ہو جانا چاہیے۔اس مہینے قرآن مجید کے پڑھنے، اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ بڑھ جانا چاہیے۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’اِس قرآن میں تم سے پہلی قوموں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔‘‘ سابقہ اقوام کی خبریں، ان کے حالات کا اس میں ذکر آیا ہے۔جیسے قوم نوحؑ، قوم عاد، قوم ثمود اور آل فرعون وغیرہ۔ ’’اور اس میں تمہارے بعد آنے والوں کی بھی خبریں (اشارے) موجود ہیں، اور تمہارے درمیان جو اختلافات ہو جائیں (یا مسائل کھڑے ہو جائیں) ان سب کا فیصلہ بھی اس کے اندر ہے‘‘۔یعنی قرآن قیامت تک کے لیے کتاب مبین ہے۔لہٰذا رہتی دنیا تک جو بھی مسئلے کھڑے ہوں گے اور جو بھی جھگڑے اُٹھیں گے ان سب کا فیصلہ،اس کی راہنمائی، اس قرآن میں ہے۔یہ فیصلہ کن کلام ہے، یہ کلام کس درجے میں فیصلہ کن ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی قرآن کی بدولت قوموں کو اُٹھائے گا اور اسے ترک کرنے کی وجہ سے قوموں کو ذلیل و خوار کرے گا۔ قوموں کی قسمت کا فیصلہ اسی قرآن کی بنیاد پر ہوگا۔
’’جو شخص تکبر اور سرکشی کی بنیاد پر اس قرآن کو چھوڑے (نظر انداز کرے) اللہ تعالیٰ اسے تباہ و برباد کردے گا۔‘‘ اللہ کا کلام اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے انسان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ تو جو شخص اس نعمت عظیمہ کے ساتھ اس طرح کا رویہ برتے، بربادی ہی اُس کا مقدر ہے۔ اللہ اسے برباد کرکے چھوڑے گا۔’’اور جو کوئی اس قرآن کے سوا کسی اور شے سے ہدایت تلاش کرے گا (جیسے آج کے مسلمان قرآن کو چھوڑ کر مغربی افکار میں مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہ رہے ہیں) تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو گمراہ کرکے چھوڑے گا‘‘۔ قرآن عام کتاب نہیں ہے کہ جب چاہا پڑھ لیا اور جب چاہانہ پڑھا۔ چاہا تو استفادہ کرلیا، نہ چاہا تو اُٹھا کر اوپر رکھ دیا،بلکہ یہ ہر معاملے کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ہمیں بہرصورت اِسی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اگر ہم کہیں اور سے راہنمائی چاہیں گے تو صرف گمراہی ہی ہمارے حصے میں آئے گی۔ ہمیں قرآن کو چھوڑ کر کہیں سے بھی ہدایت نہیںملے گی۔
’’اور یہی ہے حبل اللہ (اللہ کی مضبوط رسی)‘‘ ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں قرآن مجید کی وہ آیت آئی ہوگی:’’(اے مسلمانو!) مل جل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور تفرقے میں مت پڑو۔‘‘ (آل عمران)تو یہاں اللہ کی جس رسی کا تذکرہ ہوا، اس سے مراد کیا ہے؟ آپﷺ نے اس کی وضاحت اس حدیث میں فرمادی کہ یہی قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے جسے تھامنے کا حکم ہوا۔ ظاہر ہے قرآن مجید کی تفسیر و تشریح اور وضاحت آپ کے ذمے تھی۔ ایک اور حدیث کے مطابق یہ رسی آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ اِس کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پس قرآن اللہ کے ساتھ براہِ راست مستقل رابطے کا ذریعہ ہے۔
’’اور یہ انتہائی حکیمانہ ذکر ہے۔‘‘ ذکر کی ہمارے دین میں بہت فضیلت آئی ہے۔ اِس کا سب سے مؤثر ذریعہ یہ قرآن ہے۔ ’’اور یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ ہم نماز کی ہر رکعت میں جس صراط مستقیم کی دعا مانگتے ہیں، وہ یہ قرآن ہے۔ قرآن بالکل سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ’’یہ وہ کلام ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خواہشات نفس (تمہیں) گمراہ نہیں کرسکتیں۔‘‘ اس قرآن سے مستحکم اور مضبوط تعلق استوار کرو گے تو نفسانی خواہشات ٹیڑھے رخ پر نہیںلے جاسکیں گی۔ ’’اور زبانیں اِس میں گڑ بڑ نہیں کرسکیں گی۔‘‘یہ اللہ کا کلام ہے جس میں التباس نہیں کیا جاسکتا۔ گڈ مڈ کرکے اس کے مفہوم کو نہیں بدلا جاسکتا۔ سابقہ آسمانی کتابوں میں تحریف کی گئی۔حق و باطل کو گڈ مڈ کیا گیا، لیکن اس کتاب میں یہ کام نہیں ہوسکتا۔
’’علماء کبھی اس سے سیری محسوس نہیں کریں گے۔‘‘ اہل علم ساری عمر قرآن مجید پر تدبر اور غوروفکر کریں گے،لیکن انہیںکبھی یہ محسوس نہیں ہوگا کہ اس میں جو حکمت کے موتی یا راہنمائی تھی، وہ ساری کی ساری ہم نے حاصل کرلی ہے، بلکہ ان کی تشنگی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ ’’اور تکرار تلاوت سے اس پر باسی پن طاری نہیں ہوگا۔‘‘ ساری عمر انسان قرآن پڑھتا رہے گا لیکن یہ محسوس نہیں کرے گا کہ بس پیٹ بھر گیا، بلکہ اُس کی تشنگی بڑھتی جائے گی۔’’اور اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔‘‘قرآن مجید بنیادی طور پر کتاب ہدایت ہے۔ اس میں تخلیق کائنات کا بھی ذکر ہے، جیالوجی کے بارے میںبھی اشارے آئے ہیں، فزیکل سائنسز کے حوالے سے بھی اشارات موجود ہیں۔ یہ عجائبات سے بھرا ہوا کلام ہے۔یہ عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے، بلکہ ہر دور میں نئی نئی چیزیں سامنے آئیں گی۔جب سائنس کی دنیا میں نئی چیز دریافت ہو گی تب معلوم ہوگا کہ ہاں یہ بات بھی قرآن نے کہی تھی۔اس وقت سمجھ میں نہیں آئی، اب سمجھ میں آرہی ہے۔بہر کیف سائنس کے ارتقاء اور فزیکل سائنسز میں نئے نئے مشاہدات سے انسان کے سامنے قرآن کے عجائبات سامنے آتے رہیں گے۔ڈاکٹر رفیع الدین نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ قرآن مجید اللہ کا قول اور کائنات اللہ کا فعل ہے،اور اللہ تعالیٰ کے قول (قرآن) اور فعل (کائنات) میں تضاد نہیں ہوسکتا۔ یعنی قرآن مجید میں کوئی شے ایسی ہو ہی نہیں سکتی جو کائنات کی اصل حقیقتوں سے ٹکرائے یا اُس کے مخالف ہو، بلکہ اس میں اصل حقیقتوں کی طرف اشارے ہیں، یہ اور بات ہے کہ انسان کو وہاں تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔
’’یہ وہ کتاب ہے کہ اِسے جیسے ہی جنوں نے سنا تو بے اختیار پکار اُٹھے: ہم نے سنا ہے قرآن جو بہت دل کو لبھانے والا ہے، جو سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔‘‘حدیث کے آخری ٹکڑے اس حدیث کا کلائمکس ہیں۔فرمایا: ’’جس نے اس قرآن کی بنیاد پر کوئی بات کہی اس نے سچ کہا۔‘‘ ظاہر ہے کہ قرآن سے زیادہ سچی بات کسی کی ہو نہیں سکتی۔ایک آدمی کسی واقعے کے مشاہدے کے بعد اگر اسے سچ سچ بھی بیان کرے تو پورا سچ بیان نہیں کرسکتا۔ اِس لیے کہ اس واقعے کے بہت سے پہلو جو اُس کے سامنے نہیں ہیں،اُس سے بیان ہونے سے رہ جائیں گے۔یہ صرف اللہ کی ذات ہے جو کُل علم رکھتی ہے،لہٰذا اُس کی بات سو فی صد حق اور سچ ہے۔ چناںچہ جو شخص اس قرآن کی بنیاد پر، اس میں آنے والی خبروں، اس کی ہدایت و راہنمائی کی بنیاد پر بات کرے گا وہ سب سے زیادہ سچا ہوگا۔’’اور جو قرآن پر عمل کرے گا اس کا اجر محفوظ ہے۔جس نے قرآن کی بنیاد پر فیصلہ کیا تو اس نے یقیناً عدل سے کام لیا۔‘‘ آخری بات یہ فرمائی ’’اور جس نے (لوگوں کو) قرآن کی طرف بلایا، اسے تو سیدھے راستے کی ہدایت مل گئی۔‘‘ کوئی اور اس ہدایت سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے،لیکن داعی قرآن کی ہدایت کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے۔اُس کی ہدایت یقینی ہے۔اس سے قرآن مجید کی فضیلت کے بہت سے پہلو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آگئے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کتاب مبین سے رشد وہدایت حاصل کرنے اور اس کے پیغام کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)