سیّدنا حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘ ایسا ماہِ مبارک جس میں ایک ایسی رات (لیلۃ القدر) ہے،جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے‘ (یعنی اس ایک رات میں عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوںکی عبادت سے زیادہ ملتا ہے)
ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص شبِ قدر سے محروم ہوگیا‘وہ گویا پوری بھلائی سے محروم ہوگیا‘ اور شبِ قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو۔ (سنن ابنِ ماجہ)
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص ’’لیلۃ القدر‘‘ میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا رہا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔(صحیح بخاری)اس مقدس اور بابرکت رات کی عظمت و اہمیت کا اندازہ رسول اکرمﷺ کے ان ارشادات سے لگایا جاسکتا ہے‘اس کی عظمت و توقیر کو اجاگر کرنے کے لیے خود اللہ عزوجل نے قرآن کریم، فرقانِ حمید میں ایک مستقل سورت ’’سورۃ القدر‘‘ نازل فرماکر اس کی عظمت و رفعت پر مہرِ تصدیق ثبت فرمائی ۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: بے شک، ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کرنا شروع کیا، اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں روح (الامینؑ) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے لیے) اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں‘ یہ (رات) طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔
اُمتِ محمدﷺ کو جن انعامات اور اعزازات سے سرفراز فرمایا گیا ہے‘ ان میں یہ عظیم ترین انعام ’’لیلۃ القدر‘‘ بھی ہے۔ اس رات میں عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت و ریاضت سے بڑھ کر ہے۔ اس کی مقدار سالوں کے اعتبار سے تراسی سال چار ماہ بنتی ہے۔ جسے قرآن نے ’’لیلۃ القدر خیرمن الف شہر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مقدار کے اعتبار سے تو زمانے اور تقریباً تمام راتیں ایک جیسی تخلیق فرمائی ہیں، لیکن ان میں سے بعض راتوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازنے کے تناظر میں شرف و فضیلت عطا فرمائی، ان میں سے ایک رات شب قدر بھی ہے جورمضان المبارک کےآخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔’’سورۃ القدر‘‘ کے اندر قرآن نے اپنے اسلوب کے مطابق اس رات کی عبادت کے لیے مومنوں کے جذبہ شوق کو بڑھانے کا انداز اختیار فرمایا ہے، چناںچہ ارشادربانی ہے کہ ’’ہم نے قرآن پاک کو شب قدر میں اتارا، وہ قرآن مقدس جو مومنوں کے لیے دستور حیات بھی ہے‘‘۔یہ مقدس کلام ہونے کی وجہ سے تقدس کا حامل ہے جس کا دیکھنا، چھونا، پڑھنا، سننا سب عبادت میں داخل ہے، اس مقدس کلام کا شب قدر میں نازل ہونا خود اس رات کے لیے انتہائی فضیلت کی بات ہے، اللہ رب العزت نے مومنوں کے جذبہ شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی حقیقت بتانے سے پہلے خود مومنوں سے نبی ﷺ کے ذریعے پوچھا ہے کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ شب قدر کتنی عظیم ہے؟ یعنی اس میں کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل ہیں، یہ گناہ گاروں کی مغفرت، مجرموں کی جہنم سے برأت، عبادت و ریاضت، تسبیح و تلاوت اور درود شریف کی کثرت، توبہ و استغفار، کثرت نوافل، صدقات و خیرات، عجزو نیاز مندی اور مرتبہ و عمل کی رات ہے۔ جو اجر و انعام کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں جبرائیل ؑ دیگر فرشتوں کے ساتھ اپنے پروردگار کے حکم سے ہرکارخیر کو لے کر زمین کی طرف اُترتے ہیں۔
صاحب مظاہر حق کے مطابق یہی وہ رات سے جس میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی، جنت میں درخت لگائے گئے۔ درمنثور کی ایک روایت کے مطابق اسی رات میں عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ،اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔
یہ رات اپنے آغاز سے صبح صادق کے آغاز تک سراپا سلامتی ہے، تمام رات ملائکہ کی طرف سےاہل ایمان کے ساتھ سلام وکلام ہوتا رہتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلامتی رات کے کسی حصے میں مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس کی برکات صبح ہونے تک ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔
بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق جسے ابو ہریرہؓ نے نقل فرمایا ہے، نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص شب قدرمیں ایمان و ثواب کی نیت سے عبادت کرے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: شب قدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور اس شخص کے لیے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کررہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے،دعائے رحمت کرتے ہیں۔(مشکوٰۃ)
بخاری اور مشکوۃ کی روایت کے مطابق حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ شب قدر کی اطلاع دینے کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے تو دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تو تمہیں شب قدر کی خبر دینے آیا تھا، لیکن اس جھگڑے کی وجہ سے اس کی تعیین اٹھالی گئی ہے، کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھا لینا اللہ کے علم میں بہتر ہو؟ لہٰذا اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کریں۔
دور اول سے آج تک مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ ہر زمانے میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اس رات کی تلاش میں عبادت کے ذریعے راتوں کا احیاء کرتے ہیں، چونکہ یہ آخری عشرے میں بھی متعین طور پر کسی ایک رات میں نہیں ہوتی ، بدلتی رہتی ہے ،لہٰذا حدیث مبارکہ کے اندراس رات کی علامات کے طور پربعض نشانیاںبتائی گئی ہیں کہ وہ رات کھلی ہوئی چمکدار ہوتی ہے، صاف شفاف ہوتی ہے، نہ تو زیادہ گرم ،نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ دیگر مشائخ نے اپنے اپنے تجربات کے مطابق اس کی علامات میں یہ بات بھی بتائی ہے کہ اس رات میں سمندر کا پانی میٹھا ہوجاتا ہے، شب قدر میں ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔لیکن یہ تمام کی تمام علامات لازمی نہیں ہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تمام کی تمام علامات پائی جائیںاور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض علامتیں پائی جائیں اور بعض مفقودہوں، البتہ اس کا تعلق ظاہری آنکھوں سے نہیں ،بلکہ باطن کی آنکھوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کوبطور بصیرت عطا فرماتا ہے ،ہر شخص ان کو محسوس نہیں کرسکتا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس رات کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر مجھے پتا چل جائے کہ یہی شب قدر ہے تومیںاللہ تعالیٰ سے کون سی دعا مانگوں؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم یہ دعا مانگو :’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘ اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ،پس مجھے بھی معاف فرما دے۔(مسنداحمد، ابن ماجہ، ترمذی)
خوش قسمتی سے ہم آخری عشرے میں ہیں اورشب قدر کی قدرومنزلت کے پیش نظر شب قدر کے حصول میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں اور دعاؤں کو قبول فرمائے، ہمیں چاہیے کہ جہاں اپنی اور اپنے رشتے داروں کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگیں،وہاں ملک کے استحکام، امن و امان اور شریعت کے نفاذ ، خصوصی طور پر عالم اسلام کے مسلمانوں کی خیر و فلاح کے لیے دعائیں مانگیں۔