• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کی سب سے انوکھی عیدی

چند سال قبل عید پر میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب مجھے پشاور کے ایک سرکاری محکمے میں چوکیداری کی ملازمت ملی۔ بے روزگاری کا ایک طویل عرصہ جھیلنے کے بعد میرے لیے یہ بہت بڑی خوشی تھی۔ رمضان المبارک میں ڈیوٹی جوائن کی ،تومجھے بتایا گیا کہ عید پر چھٹی نہیں ملے گی۔ میرے لیے ان کا ہر حکم سر آنکھوں پر تھا۔ گھر والوں کو میں نے یہ خبر پہنچا دی تھی کہ عید پر میرا انتظار نہ کریں۔ جس دفتر میں میری ڈیوٹی تھی، وہاں کل 13ملازمین پر مشتمل عملہ تھا۔ انچارج کا گھر دفتر کے پیچھے ہی واقع تھا، جو انہیں سرکاری طور پر ملا ہوا تھا۔ وہ بھی عید پر تین روز پہلے ہی چھٹی لے کر اپنے گائوں چلے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد گویا سب کو آزادی مل گئی اور ایک ایک کرکے سب ہی غائب ہوگئے۔ میں چوں کہ نیانیا ملازم ہوا تھا، اس لیے بڑی مستعدی سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ میرا ساتھی چوکیدار بھی جب اپنے گھر جانے لگا، تو مجھ سے کہا۔ ’’یار! میں بھی عید کی چھٹیاں گزارنے جارہاہوں، اب چوں کہ تم یہاں اکیلے ہی رہوگے، لہٰذا ہوسکے، تو رات کو باہر ہی سونا، کیوں کہ رات کی تاریکی میں اندر کے کمروں میں کچھ گڑبڑ ہوجاتی ہے۔‘‘

میں نے استفسار کیا کہ ’’کیسی گڑبڑ…؟‘‘تو اس نے بتایا کہ ’’یہاں جنّات کا بسیرا ہے، وہ کسی کو کمرے میں سونے نہیں دیتے۔ اگر یہاں کوئی سوجائے، توبہت تنگ کرتے ہیں۔‘‘یہ بات بتاتے ہوئے چوکیدار کے چہرے پر خوف کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ مَیں پنج وقتہ نمازی ہوں اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جنّات دنیا میں موجود ضرورہیں، مگر بلاوجہ ہماری زندگی میں مداخلت نہیں کرتے۔ میں نے پوچھا، ’’کیا کبھی تمہیں وہ نظر بھی آئے؟‘‘ اس نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا، ’’نظر تو نہیں آئے، لیکن ان کی موجودگی کا بھرپور احساس ضرور ہوتا ہے، واضح طور پر کانوں میں بھنبھناہٹ اورایسی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں کہ بندہ خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلتا ہے، باہر آنے پر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی ڈرائونا خواب دیکھ کر جاگ گیا ہو۔‘‘ میں نے سوچا کہ بندہ اپنے گھر والوں سے دور اکیلا پڑا ہو، تو ایسے اوٹ پٹانگ خیالات اس کے ذہن میں آہی جاتے ہیں۔ سو، یہی سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔

عید کی وجہ سے چوں کہ سب ہی لوگ رخصت پر جاچکے تھے، اس لیے رات کی تاریکی میں گہرا سنّاٹا چھا گیا۔ میں نے ایک ایک کمرے کو اچھی طرح لاک کیا اور بے فکر ہوکر ایک کمرے میں بچھی چارپائی پر لیٹ گیا، ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک کھٹکے سےکھل گئی۔ غور کیا تو برابر کے کمرے سے کرسی گھسیٹنے کی واضح آواز آرہی تھی۔ میں کلہاڑی اٹھاکر اس کمرے کی طرف گیا، جہاں سے آواز سنائی دے رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی مجھے ڈرانے آیا ہے۔ کمرا ایک جھٹکے سے کھولا، تووہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ میں نے ایک ایک کرکے سب کمروں کے تالے کھول کر تلاشی لی، مگر مکمل سنّاٹا دیکھ کر تھوڑا سا خوف محسوس ہوا۔ خیر، دل مضبوط کرکے پھر چارپائی پر آکر لیٹ گیا۔ چند لمحوں بعد پھر کرسی گھسیٹنے کی آواز آئی۔ میں اٹھ بیٹھا کہ حقیقت جاننے کے بعد ہی دوبارہ لیٹوں گا۔ دوبارہ اس کمرے کی طرف بڑھنے لگا، تو کانوں میں شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ سنائی دی۔ ساتھ ہی یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی بار بار میرا نام لے رہا ہو۔ یہ واضح اشارہ کسی گڑبڑ کی نشان دہی کررہا تھا۔ جس کمرے سے کرسی گھسیٹنے کی آواز آرہی تھی، وہاں داخل ہوکر زوردار آواز میں کہا ’’تم کون ہو، سامنے آئو۔‘‘ تومیرے کانوں میں پھر بھنبھناہٹ ہوئی، اور جواب ملا ’’سامنے آگیا، تو دیکھتے ہی بے ہوش ہوجائو گے۔‘‘ آواز اگرچہ عجیب سی تھی، مگر انداز دوستانہ تھا، جس کے باعث میرا ڈر قدرے کم ہوگیا۔ میں نے کہا ’’بھائی! میں کیسے یقین کرلوں کہ تم انسان نہیں ہو۔‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ کمرے میں رکھی ایک کرسی اچانک دو ڈھائی فٹ اونچی اٹھی اور ہوا میں معلّق ہوگئی۔‘‘ میرے جسم میں کپکپاہٹ ہونے لگی۔ پھر وہی آواز آئی ’’دیکھ لیا، مگر میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا، تم یہاں سے چلے جائو۔‘‘ میں نے کہا ’’کیوں چلا جائوں، اس دفتر کی چوکیداری کون کرے گا؟ کوئی واردات ہوگئی، تو میری نوکری چلی جائے گی۔‘‘جواب ملا ’’تمہیں ہم نے عبادت کرتے دیکھا ہے، ہم بھی عبادت کرتے ہیں، یہ میرا وعدہ ہے کہ اس دفتر کی چوکیداری میں کروں گا، تمہارے دفتر کو کوئی نقصان نہیں ہونے دوں گا، آج ہمارا یہاں جشن ہوگا، تم یہاں رہے، تو صبح تک تمہاری حالت خراب ہوجائے گی۔ میرے ساتھی بہت شریر ہیں، وہ تمہاری درگت بنادیں گے اور میں ایسا نہیں چاہتا، اس لیے فوراً اٹھو اور یہاں سے نکل جائو۔‘‘ اب اس بات میں رتّی بھر شبہ نہیں رہا تھا کہ یہ جگہ کسی نادیدہ ہستی کا مسکن تھی۔ میں نے سوچا، جان ہے، تو جہاں ہے۔ عید کی مصروفیات میں کون آفس میری چیکنگ کے لیے آئے گا، بیگ میں اپنے کپڑے ٹھونسے اور تیزی سے وہاں سے نکل آیا۔ مرکزی گیٹ پر تالا لگا دیا تھا۔ میرا گھر مانسہرہ میں تھا۔ گھر پہنچا، تو میرے آنے پر سب کو حیرانی ہوئی۔ سوچا کہ سچ بتائوں گا، تو سب میرا مذاق بنائیں گے، اس لیے مناسب سا بہانہ پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ سب خوش ہوگئے۔

عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی علی الصباح پشاور کے لیے روانہ ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ دفتر کھلنے سے پہلے پہنچ جائوں گا، مگر بدقسمتی سے راستے میں بس خراب ہوگئی۔ خاصی تاخیر کے بعد جب دفتر پہنچا، تو وہ کھلا ہوا تھا اور معمول کا کام ہورہا تھا، جب کہ دفتر کے خاص کمروں کی چابیاں میرے پاس تھیں۔ میں ڈر گیا کہ ان کمروں اور گیٹ کے دروازے کھولنے کے لیے ان کے لاک توڑے گئے ہوں گے، اب میری نوکری ضرور چلی جائے گی۔ گیٹ سے اندر داخل ہوا، تو کیاری میں مالی کام کرتا ہوا ملا۔ میرے دماغ میں جھٹکا سا لگا، کیوں کہ مالی میرے پیچھے ایک، دو روز ضرور آیا ہوگا، اسے پودوں کو پانی جو باقاعدگی سے دینا تھا۔ میں نے مالی کو سلام کیا، وہ کھڑا ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، میں ’’عید مبارک‘‘ کہہ کر اس کے گلے لگ گیا۔ وہ حیران نظر آیا۔ کہنے لگا ’’عمرنواز! تجھے کیا ہوگیا، میں تیری تنہائی کا خیال کرکے عید کے دن آیا تھا اور ہم نے ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی تھی، میں سویّاں لایا تھا، تونے میرا شکریہ ادا کیا تھا، اور اس کے بعد پانی دینے آتا رہا اور آج صبح سب سے پہلے میں آیا، تب بھی گلے مل کر ہم نے مبارک باد دے دی تھی، اب تیسری بار تو پھر مبارک باد دے رہا ہے، تیرا دماغ تو ٹھیک ہے۔‘‘

میرا دماغ، جو پہلے ٹھیک تھا، مالی کی بات سن کر بھک سے اڑگیا۔بہرحال، اسے ہنسی مذاق میں ٹال کر اندرونی گیٹ پر گیا، تو وہاں دوسرا چوکیدار مل گیا۔ میں نے اسے بھی عید کی مبارک باد دی، وہ حیران ہو کر بولا ’’ابھی پندرہ منٹ پہلے تو تم نے مبارک باد دی۔خیر، چھوڑو میں اس وقت ذرا جلدی میں تھا، تمہاری امانت نہیں دے سکا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دو ہزار روپے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’لو بھئی، اپنے پیسے، تم نے وقت پر میری مدد کی، تمہارا شکریہ۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسی مدد اور کیسے پیسے؟ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا، مجھے سچ بتائو، یہ پیسے کس نے تمہیں دیئے؟‘‘اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تمہیں یاد نہیں، بچّوں کے لیے عید کی خریداری میں پیسے کم پڑ رہے تھے، تو میں پشاور ٹھہر گیا کہ کسی دوست سے قرض لے کر خریداری کرلوں گا۔ جب کہیں سے ادھار نہیں ملا، تو صبح سویرے تمہارے پاس آیاتھا، تم نے مجھے دو ہزار روپے کی رقم دے دی تھی۔‘‘ پھر میری حیرانی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اس نے بتایا کہ ’’صبح دفتر کھلنے پر تم سب کو عید مبارک دے چکے ہو۔‘‘ اس انکشاف پر میں نے دفتر کے دیگر لوگوں سے علیک سلیک اور مبارک باد دے کر گلے لگنے کا پروگرام منسوخ کردیا اور معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دینے لگا۔ دوہزار روپے میں نے اس نادیدہ مہربان کی عیدی سمجھ کر رکھ لیے، جس نے میرا روپ دھار کر اپنا وعدہ پورا کیا اور میری ڈیوٹی بھی بہ خوبی نبھائی۔

اس واقعے کا میں نے کسی سے ذکر تک نہیں کیا، مگر سچّی بات یہ ہے کہ میں بہت خوف زدہ ہوگیا تھا، لیکن اس کے بعد مجھے کبھی وہ آواز سنائی دی، نہ کسی نے تنگ کیا۔ پھر ایک سال بعد میں نے ملازمت چھوڑ کر مانسہرہ میں اپنے گائوں میں کھیتی باڑی کا کام شروع کردیا، مگرآج تک اپنے مہربان کی یاد اپنے دل سے فراموش نہیں کرسکا۔

(عمر نواز نور، نوگرام ٹیل، مانسہرہ)

تازہ ترین
تازہ ترین