• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید الفطر: اُمتِ مسلمہ کا ملی تہوار

شَوّال المکرّم کا چاند آسمان پر نمودار ہوتے ہی رمضان المبارک کی روح پرور ساعتیں رخصت ہوئیں۔ عیدِ سعید کا پرمسّرت تہوار ہم پر سایہ فگن ہے۔ آج آسمانوں پر بھی عید کا سماں ہے۔ اہلِ آسمان خوشی سے نہال ہیں۔ آسمانِ دنیا پر رب ذوالجلال اپنی شانِ کریمی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اس موقعے پر باری تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر پھیل جانے کا حکم فرماتا ہے اور پھر چندہی لمحات میں بے شمار فرشتے کائنات کےکونے کونے میں پھیل جاتے ہیں اور ہر شہر، ہرمحلّے، ہر گلی اور ہر کوچے پر کھڑے ہوکر پکارتے ہیں۔ ’’اے اللہ کے محبوب ؐ کے امّتیو! اے رسولِ اللہؐ کے چاہنے والو! اللہ کے گھر کی طرف چلو… کہ آج مہربان رب، تمہیں ایسے عظم انعام و اکرام سے نوازے گا، جس کا تم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔‘‘ فرشتے اس پیغامِ خوش نوا کی صدا لگاتے اور پکارتے رہتے ہیں اور اہلِ ایمان، اللہ کی حمدوثناء کرتے اللہ اکبر، اللہ اکبر ، لاالہ اللہ و اللہ اکبر، اللہ و للہ الحمد کا ورد کرتے جوق درجوق عیدگاہ کی جانب رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ اللہ جل شانہ اپنے نیک بندوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے گھر کی جانب آتے دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے فرشتوں سے فرماتا ہے ’’اے میرے فرشتو! ذرا یہ تو بتائو کہ جو مزدور اپنی مزدوری ٹھیک طور پر پوری کرے، اس کا انعام کیا ہونا چاہیے؟‘‘ فرشتے عاجزی و انکساری کے ساتھ ربِ کائنات سے عرض کرتے ہیں، ’’اے ارض و سماء کے مالک! اے ہمارے معبود و آقا! مزدوروں کو ان کی مزدوری کے بدلے پوری اجرت دے دی جائے۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے میرے ملائکہ! تم گواہ رہوکہ ان کی ایک ماہ کی ریاضت و عبادت، روزوں، نمازوں، تراویح، قیامِ لیل کی عبادت، ذکر واذکار، زکوٰۃ، خیرات و صدقات کے عوض میں ان سے راضی ہوگیا۔ آج یہ جو مانگیں گے، میں انہیں عطا کروں گا۔‘‘ پھر باری تعالیٰ نمازِ عید ادا کرنے کے لیے آئے ہوئے اپنے بندوں سے مخاطب ہوتا ہے، ’’اے میرے بندو! تم نے مجھے راضی کردیا… تو میں بھی تم سے راضی ہوگیا… مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! آج جو کچھ تم مجھ سے مانگو گے، میں عطا کروں گا۔ دنیا اور آخرت کی جو آسائشیں مانگو گے، میں تمہاری جھولی میں ڈال دوں گا۔ تمہاری حاجات ختم ہوجائیں گی، لیکن میری رحمتوں کی بارش برستی رہے گی اور آج اس دَر سے کوئی خالی ہاتھ نہ جائے گا۔ اور جب تک تم میری خشیت اختیار کیے رہوگے، میں تمہاری خطائوں اور لغزشوں کو معاف کرتا رہوں گا۔ بس، اب تم بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔‘‘

عیدالفطر کی خوشی منانا مسنون ہے۔ یہ اللہ کی جانب سے ماہِ رمضان کو اس کے حکم کے مطابق گزارنے اور ضبطِ نفس کا بہترین مظاہرہ کرنے پر ربِ جلیل کی جانب سے انعامِ عظیم ہے۔ اللہ کے نیک بندے اس دن کو یومِ تشکّر کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے۔ تہوار منا کرخوشی حاصل کرناانسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب و ملّت کے پیروکار خواہ وہ عیسائی، یہودی، ہندو یا سکھ ہوں، سب کسی نہ کسی طور اپنی اجتماعی خوشیوں کا اظہار مذہبی تہوار مناکر ہی کرتے ہیں۔ کرئہ ارض پر خوشی کا تہوار منانے کا آغاز اس روز سے ہوا، جس دن حضرت آدمؑ کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔ گویا یہ دنیا کی پہلی عید تھی۔ پھر دوسری عید اس وقت منائی گئی، جب حضرت نوح ؑ اور ان کی امّت کو طوفانِ نوح سے نجات ملی اور پھر اس کی یاد میں ان کی امّت ہر سال خوشی کا تہوار منانے لگی۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی امّت نے اس روز سے عید منانا شروع کی، جس روز حضرت ابراہیمؑ کو آتشِ نمرود میں ڈالاگیا، مگر آگ اللہ کے حکم سے گلِ گل زار ہوگئی۔ حضرت یونسؑ کی امّت کے لیے وہ دن عید کا تھا کہ جس دن حضرت یونس ؑ امتحان میں کام یاب ہوئے اور انہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی، اسی خوشی میں ہرسال ان کی قوم خوشی کا تہوار مناتی تھی۔ بنی اسرائیل اس روز عید منایا کرتے تھے، جس دن انہیں فرعون کے مظالم سے نجات ملی۔ عیسائی، حضرت عیسیٰ ؑکی ولادت کی مناسبت سے عید مناتے ہیں۔اسی طرح کفار عرب بھی خوشیوں کے تہوار منایا کرتے تھے۔ طلوعِ اسلام سے قبل عربوں کے تین بڑے بت تھے۔ لات، منات اورعزیٰ ان میں لات اہلِ طائف کا خدا تھا۔ منات اہلِ مدینہ کا اور عزیٰ اہلِ مکّہ کا۔ چوں کہ عرب مختلف قوموں، قبیلوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، لہٰذا ہر قبیلے کے خوشیوں کے دن بھی الگ الگ تھے۔ جس میں دوسرے قبیلے کے لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح ہر قبیلہ ایک سال میں کئی تہوار مناتا، جن میں کھیل تماشے، ناچ گانے کے مقابلے وغیرہ ہوتے اور عموماً یہ تہوار کئی کئی دن تک جاری رہتے۔ایران کے مجوسی نو روز اور مہرجان کے نام سے اور ہندومت کے ماننے والے دیوالی اور ہولی کے نام سے خوشی کا تہوار مناتے ہیں۔

رمضان المبارک 2ہجری کو غزوئہ بدر کے تاریخی معرکے میں اللہ نے مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب فرمائی۔13دن بعد یکم شوال 2ہجری کو مسلمانوں نے پہلی عیدالفطر منائی۔ اس سے قبل اہلِ مدینہ ہر برس خوشی و مسّرت کے دوتہوار، نو روز اور مہرجان منایا کرتے تھے۔ تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں نام عرب کی سرزمین پر ایران سے آئے، کیوں کہ ایران کے مجوسی ان دونوں تہواروں کو کئی ہزار سال قبلِ مسیح سے مناتے چلے آرہے تھے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ جب ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے، تو اہلِ مدینہ خوشیوں کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے ان سے ان تہواروں کی حقیقت جاننا چاہی، تو انہوں نے عرض کیا ’’طلوعِ اسلام سے قبل ہمارے آبائو اجداد ان دنوں میں یہ تہوار منایا کرتے تھے۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں اب اس سے بہتر دو دن عطا فرمادیئے ہیں ’’عیدالفطر اور عیدالاضحی۔‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’یہ دونوں ایّام یعنی عیدین کھانے پینے، باہم خوش ہونے اور اللہ کو یاد کرنے کے ہیں۔‘‘

’’عید‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی خوشی، مسّرت و انبساط کے ہیں۔ اور یہ خوشی و مسّرت اہلِ ایمان کو، ماہِ رمضان میں اللہ کی رضا کی خاطر روزہ، نماز، ذکر واذکار، توبہ و استغفار، قیامِ لیل، خود احتسابی، تزکیۂ نفس، صدقہ و خیرات، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے عوض باری تعالیٰ کی طرف سے بیش قیمت انعام و اکرام کی صورت عطا کی جاتی ہے۔ دراصل اسلام میں خوشی اور مسّرت کا تصوّر دنیا کی دیگر اقوامِ عالم کے تصوّر سے قطعی مختلف اور جداگانہ ہے۔ خوشی کے اس تہوار پر مسلمان کھیل تماشے یا ناچ گانا نہیں کرتے، بلکہ وہ اسے یومِ تشکّر اور یومِ تجدیدِ عہد کے طور پر مناتے ہیں اور اس کی ابتدا صدقہ فطر سے ہوتی ہے، جس کے بارے میں حکم ہے کہ اس کی ادائیگی نمازِ عید سے قبل لازمی کردی جائے، تاکہ غریب غربا، مساکین، بےآسرا اور مفلوک الحال افراد بھی عیدِکی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ نے صدقۂ فطر کو لازم قرار دیا، روزے داروں کوپاک کرنے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے، جس نے نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کردیا، تو یہ صدقۂ مقبولہ (صدقۂ فطر) ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا، توپھر عام صدقات کی طرح یہ بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ) صدقہ فطر رمضان المبارک میں کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے اور بہتر یہی ہے کہ عید سے پہلے کسی غریب کو دے دیا جائے، تاکہ وہ بھی عید والے دن اس خوشی میں شریک ہوسکے۔‘‘ روایت کے مطاب، حضور نبی کریمﷺ نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے عیدگاہ کی جانب تشریف لے جارہے تھے، راستے میں کچھ بچّے کھیلتے ہوئے نظر آئے، جو نئے اور خوب صورت لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے۔ بچّوں نے حضورﷺ کو دیکھ کر سلام کیا۔ حضورﷺ ان کے پاس رکے، انہیں پیار کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور آگے تشریف لے گئے۔ راستے میں آپﷺ نے دیکھا کہ ایک بچّہ پرانے کپڑے پہنے اداس بیٹھا ہے۔ حضورﷺ بچّے کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’بیٹا! کیا بات ہے؟ اتنے اداس اور پریشان کیوں ہو؟‘‘ بچّے نے، جو اتنے محبت بھرے الفاظ سنے، تو روتے ہوئے بولا ’’یارسول اللہﷺ! میں یتیم ہوں، میرا باپ حیات نہیں، جو مجھے نئے کپڑے لا کردے اور نہ میری ماں ہے، جو مجھے نہلا دھلا کرتیار کرے اور میں بھی اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاسکوں۔‘‘بچّے کی باتیں سن کر سرکارِدوعالمﷺ آب دیدہ ہوگئے، بچّے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے۔ امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا ’’اے عائشہ ؓ! اس بچّے کو نہلادو۔‘‘ بچّہ امّاں عائشہ کے حوالے کیا اور خود اپنی چادر کے درمیان سے دوٹکڑے کردیئے۔ کپڑے کا ایک ٹکڑا بچّے پر تہ بند کی طرح باندھا اور دوسرے کوبدن کے اوپری حصّے پر لپیٹ دیا اور پھر آپﷺ اور سیّدہ عائشہ ؓ نے مل کر بچّے کو تیار کردیا۔ جب عیدگاہ کی جانب چلنے لگے، تو آپﷺ نے فرمایا ’’آج تم چل کر مسجد نہیں جائوگے، بلکہ میرے کاندھے پر سوار ہوکر جائوگے۔‘‘ جب آپﷺ اس بچّے کو کاندھوں پر بٹھاکر اس گلی سے گزرے، جہاں بچّے کھیل رہے تھے، تو بچّوں نے اس یتیم بچّے کو حضور نبی کریمﷺ کے کاندھوں پر سوار دیکھ کر حیرت اور حسرت سے کہا ’’کاش! ہم بھی یتیم ہوتے، تو آج ہمیں بھی حضورﷺ کے کاندھوں پر سوار ہونے کا شرف نصیب ہوتا۔‘‘ آپﷺ عید گاہ کے منبر پر جلوہ افروز ہوئے، تو بچّہ نیچے بیٹھنے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’آج تم زمین پر نہیں، بلکہ میرے ساتھ منبر پر بیٹھو گے۔‘‘ آپﷺ نے اس بچّے کو اپنے ساتھ منبر پر بٹھایا، پھر اس کے سر پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر ارشاد فرمایا ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت وشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔‘‘ مزید فرمایا ’’مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔ وہ اسے مصیبت کے وقت تنہا نہیں چھوڑتا۔ جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی مشکل دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت کے دن اس سے سختی دور کرے گا۔‘‘

عیدالفطر کے مسنون اعمال: عیدالفطر کی رات لیلتہ الجائزہ کہلاتی ہے۔ اس رات میں عبادت کی بڑی فضلیت ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جن میں کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔1۔ شب جمعہ2۔ رجب کی پہلی رات3۔ شعبان کی پندرہویں رات(شب برات)4۔ عیدالفطر کی رات5۔ عیدالاضحی کی رات۔عید کی صبحِ صادق سے پہلے تہجّد کی نماز ادا کرنا افضل عمل ہے۔ اس موقعے پر اللہ سے دنیا اور آخرت کے لیے دعائیں کی جائیں۔ نمازِفجر باجماعت ادا کریں۔ مسواک اور غسل سے فارغ ہوکر جو بھی اچھے اور پاک کپڑے میسّر آئیں، خواہ نئے ہوں یا پرانے، زیبِ تن کریں، خوشبو لگائیں، عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھائیں۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عید الفطر کے دن جب تک چند کھجوریں نہ کھالیتے، عیدگاہ تشریف نہ لے جاتے اور آپ طاق عدد میں کھجوریں تناول فرماتے۔(صحیح بخاری) اگر فطرہ ادا نہیں کیا، تو عیدگاہ جانے سے قبل ادا کردیں۔ عیدگاہ کی جانب جاتے ہوئے راستے میں آہستگی پڑھیں ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر ، لاالہ اللہ و اللہ اکبر، اللہ و للہ الحمد ‘‘۔ عید گاہ جانا سنّتِ موکدہ ہے۔ ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس آئیں۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ عید کے دن مختلف راستوں سے آتے جاتے تھے۔ ( صحیح بخاری) راستہ بدلنے میں شرعی مصلحت یہ ہے کہ ہر طرف اسلام کی شوکت کا اظہار ہو، نیز، جہاں ہمارے قدم پڑیں گے، قیامت کے دن وہ خطّے گواہی دیں گے۔نماز کے بعد اہلِ محلہ سے عید ملیں۔ خیریت معلوم کریں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہوں۔گھر آکر والدین،بزرگوں اور گھر کے دیگر افراد کو عید کی مبارک باد دیں۔ بچّوں کو عیدی دینا بھی ہماری روایات میں شامل ہے۔ حسبِ توفیق بچّوں کو عیدی دیں۔ یہ خوشی، محبت اور پیار کا ایک اظہار ہے ۔عید کے دن قبرستان جائیں اور اپنے بزرگوں اور اہل قبورکے لیے دعائے مغفرت کریں۔ عید کا دن مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خوشی کا دن ہے، اہلِ خانہ کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزاریں، لیکن اپنی اس خوشی میں ان غریبوں کوبھی یاد رکھیں، جن کا کسی نہ کسی طور آپ سے کوئی تعلق ہے، خواہ وہ آپ کے پڑوسی ہوں یا رشتے دار۔ آپ کے ملازم ہوں یا دیگر ضرورت مند، حسبِ توفیق امداد کرکے انہیں بھی اپنی ان خوشیوں میں شامل کریں۔حضور نبی کریمﷺ نے آپس میں تحائف کے تبادلےکو احسن عمل فرمایا ہے، لہٰذا بہن بھائیوں، رشتے داروں اور دوست احباب کو استعداد کے مطابق تحفے تحائف دینے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔آج سے کچھ سال پہلے تک تہوار والے دنوں میں اہلِ محلّہ ایک دوسرے کے گھر پکوان بھجوایا کرتے تھے۔ مثلاً رمضان میں افطاری، عید پر سویّاں یاشِیر خورما، لیکن افسوس کہ اب بڑے شہروں میں یہ خوب صورت روایات ختم ہوجاتی جارہی ہیں۔ انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت و پیار اور احترام کا جذبہ پیدا ہو۔ ویسے بھی یہ ہماری تہذیب کا حسن ہے۔ا للہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی حقیقی روح کے مطابق خوشیوں کے تہوار منانے کی توفیق عطا فرمائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین