آج کل ’’اسپائی کرانیکلز‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ کتاب کے مختلف مندرجات اخبارات اور ٹاک شوز میں زیر بحث آتے رہے۔ میرے نزدیک اس کتاب میں سنی سنائی جھوٹی سچی اور میڈیا کی شائع شدہ خبروں کو یوں پیش کیا گیا ہے جیسے مقابل کی دو خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان انکشافات کر رہے ہوں۔ اصل بات تو کتاب کی ٹائمنگ ہے جس سے بھارت اور اس کے ہم نوا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کے معاملات میں کس حد تک دخیل ہونا چاہتا ہے۔ بھارت ایک جانب ہماری اندرونی کمزوریوں کو Exploit کرنا چاہتا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنے اثرات بڑھانے کا خواہاں ہے جس طرح بھوٹان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا وغیرہ میں وہ مسلسل کر رہا ہے۔ یوں وہ جنوبی ایشیا میں اپنا تسلط قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔
ریٹائرڈ فوجی جرنیل ہو یا کوئی بیوروکریٹ اگر وہ بھارتی جھانسے میں آجائے تو اسے چیک تو ضرور کرنا چاہیے۔ لیکن یہ غلطیاں انفرادی اور ذاتی مفاد پرستی کی علامتیں ہیں یہی غلطیاں اگر سیاسی قیادت کرے تو وہ ناقابل معافی ہونی چاہئیں۔ سیاسی قیادت اور اس کا نقطہ نظر ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔ وہ انڈے بچے دیکر اجتماعی غلطیوں کی نسل تیار کرتا ہے جو کسی بھی وقت ملک و قوم کے لیے بحران اور ناقابل تلافی نقصان بن سکتا ہے۔ سیاسی قیادت بھی وہ ہو جو اجتماعی دانش کے بجائے ذاتی اور خاندانی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح ہو، جو غور و فکر اور تمام پہلوئوں پر کھلی بحث کے بعد کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے اچانک یوٹرن لیکر فیصلوں کا اعلان کرتی رہے۔ مجھے تو ان مبصرین کی باتیں حیرت زدہ کردیتی ہیں جو ’’را‘‘ کی کامیابیوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ’’را‘‘ کی تاریخ میں صرف ایک کامیابی ہے۔ حالانکہ پاکستان کے برعکس بھارت کو اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی حکومتوں اور ایجنسیوں کی بھی مدد حاصل ہے اس کے باوجود یہ ایجنسی بھارت میں جاری درجن بھر آزادی کی تحریکوں اور اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قتل تک کو نہ روک سکی۔ جو واحد کامیابی بنگلہ دیش کی صورت میں اسے ملی وہ بھی ہماری اپنی ناکامیوں کی بدولت ہی ملی۔ لیکن پھر ان کی عیاری دیکھیے کہ کبھی اس کھلی مداخلت اور جارحیت کا کوئی تذکرہ ان کی کتابوں میں نہیں ملے گا۔ ادھر ہم ہیں کہ جو کام ہم نے نہیں بھی کیے ہمارے بے وقوف دوست سینہ تان کر ان کا تمغہ لیکر جگ ہنسائی کا سامان کرتے ہیں۔ اس ضروری تمہید کے بعد اصل بات کی طرف پلٹتے ہیں کہ ’’را‘‘ کے ذمہ دار میڈیا کی شائع کردہ خبروں کو اپنے انکشافات اور کارکردگی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کا ایک ذاتی تجربہ قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ ’’را‘‘ کو بنانے والوں میں بی رمان (B Raman) شامل ہیں۔ یہ 1964 سے 1994ء تک را میں مختلف عہدوں پر رہے اور 2004ء تک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزری بورڈ کے رکن بھی رہے۔ موصوف نے 2007ء میں The Kaoboys of R&AW کے نام سے ایک کتاب لکھی 2008ء میں اپنی دوسری کتاب ’’ٹیرر ازم‘‘ کے 268 ویں صفحے پر موصوف انکشاف فرماتے ہیں ’’جماعت اسلامی پاکستان نے خالصتان اور کشمیر کی آزادی کیلئے ایک خصوصی پراجیکٹ تشکیل دیا۔ جس کا کوڈ نام K-2 رکھا گیا جو کشمیر اور خالصتان کو ظاہر کرتا تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد نے اس وقت کے جماعت اسلامی کے پراپیگنڈا سیکرٹری امیر العظیم کو اس پراجیکٹ کا کوآرڈینیٹر مقرر کردیا۔ آگے چل کر پھر لکھتے ہیں ’’1990ء کے آغاز میں امیر العظیم ایک سوڈانی انسٹرکٹر صلاح الدین کے ہمراہ بنگلہ دیش کا بارڈر کراس کر کے ہندوستان میں داخل ہوگیا۔‘‘ پھر ہندوستان میں امیر العظیم کی ملاقاتوں کی تفصیل لکھ ماری ہے۔یہ تو ہے ’’را‘‘ کے ڈپٹی چیف کا انکشاف ۔ اصل صورتحال جان کر قارئین دم بخود ہو جائیں گے کہ کیا خفیہ ایجنسیاں ایسے ہی چلتی ہیں۔ بی رامن نے جس بات کا بتنگڑ بنا دیا وہ کچھ یوں ہے کہ میں پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر اور اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا۔ بنگلہ دیش سے اسلامی چھاترو شبر کی کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی۔ اسی دوران اخبار میں خبر پڑھی کہ سارک کانفرنس نے طے کیا ہے کہ اس کے ممبر ممالک کا کوئی شہری کسی ایک ملک کا ہوائی سفر کرے گا تو دوسرے رکن ملک کا سفر فری ہوگا۔ اس خبر کو پڑھتے ہی مفت میں امرتسر اور پٹیالہ دیکھنے کا شوق پیدا ہوا جہاں سے تقسیم ہند کے وقت میرے والدین ہجرت کر کے آئے تھے۔ جبکہ کچھ عزیز بمبئی میں جابسے تھے۔ بمبئی والے عزیز پاکستان بھی آتے تھے۔ ان کے خطوط میرے والد صاحب کے نام گھر کے پتے پر آتے تھے۔ ہندوستان کے سفر کا دوسرا شوق خالصتانی سرداروں کی وجہ سے بھی ہوا۔ ضیاء الحق دور میں طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے پر بار بار جیل جانا پڑا۔ کوٹ لکھپت جیل میں جہاں پیپلز پارٹی کے رانا شوکت محمود اور الذوالفقار کے آصف بٹ وغیرہ سے دوستی ہوئی وہاں ان خالصہ سرداروں سے بھی تعلق بنا جنہوں نے خالصتان کی خاطر انڈین جہاز ہائی جیک کیے تھے۔ ان سرداروں کے والدین جب بھی اپنے بیٹوں کی ملاقات کے لیے ہندوستان سے آتے تو ان کو واہگہ بارڈر پر لینے سے واپس چھوڑنے، ملاقاتوں کے لیے اجازت نامے بنوانے اور مہمان نوازی کے لیے دوڑ دھوپ کرنا میری جیل کی دوستی کے ’’فرائض منصبی‘‘ میں شامل ہوگیا تھا۔ یہ لوگ واپس جاتے وقت ہمیشہ دعوت دیتے کہ ہندوستان آکر ہمیں بھی مہمان نوازی کا موقع دیں۔بی رامن اپنی پہلی کتاب کے صفحہ 89 پر لکھتے ہیں کہ پاکستان نے ان سکھ ہائی جیکروں کو جیل میں ڈالنے کے بجائے ننکانہ صاحب میں رہائش دے رکھی تھی۔ حالانہ یہ سکھ پھانسی اور عمر قید کی سزائیں جیل میں کاٹ رہے تھے۔ یہ تو بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے پہلی بار وزیر اعظم بن کر پھانسی کی سزائیں منسوخ کردی تھیں تو پھر ان سکھوں کو 14/15 برس بعد رہائی ملی۔ اب واپس پلٹتے ہیں اپنی اصل بات کی طرف۔ میں اپنے عزیزوں کے ان خطوط جن پر انڈیا کی ٹکٹس اور مہریں تھیں اپنے ساتھ لیکر اسلام آباد چلا آیا۔ بنگلہ دیش کا ویزا لگوایا اور پھر انڈین ایمبیسی جاپہنچا۔ ان دنوں کراچی سے انڈین ویزوں کا اجراء بند تھا اس لیے سارا بوجھ اسلام آباد ایمبیسی پر آگیا تھا۔ طویل لائن دیکھ کر اوسان خطا ہوگئے معلوم ہوا کہ دن بھر لائن میں رہنا پڑتا ہے شام کو اپنی جگہ پر پتھر اور اس پر نام لکھ کر واپس چلے جائیں اور اگلے دن صبح سویرے اپنی جگہ پر واپس پہنچیں۔ میری تو ہمت نہ ہوئی۔ سوچا کہ ڈھاکہ ایمبیسی سے رجوع کروں گا۔ (جاری ہے)