عینہ میر
لبوں پہ حرفِ شکایت، کوئی گلہ بھی نہیں
میں دوش کیا دوں اُسے، وہ تو بے وفا بھی نہیں
مرے وجود کو پل پل بکھیرنے والا
نظر سے دُور سہی، دل سے پر جدا بھی نہیں
وہ جان کر مجھے تنہا تو کر گیا، لیکن
مری نگاہ میں اُس کی کڑی سزا بھی نہیں
وہ برسوں بعد ملا کل جو ایک محفل میں
نہ میں نے روکا اُسے اور خود رُکا بھی نہیں
نہ جانے کیا اُسے مجبوریاں ہوں، عینہ میر
یہ سوچ کر اُسے دی کوئی بددعا بھی نہیں