• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2013ء میں منتخب ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی میعادپوری کرچکیں۔ وفاق میں مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم شاہد خان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مذاکرات کے کئی ادوار اور بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی مذاکرات میں شمولیت کے بعد بطور نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کا نام فائنل کیاتھا۔ صوبوں میں صرف صوبہ سندھ میں اسمبلی قائدین یعنی پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور ایم کیو ایم کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے یہ آئینی فریضہ بروقت ادا کیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور تحریکِ انصاف کے قائد حزب اختلاف محمود الرشید، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور جمعیت علما اسلام کے قائد حزب اختلاف علامہ لطف الرحمٰن، بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (PkMAP)کے قائد حزب اختلاف عبدالرحیم زیارتوال مسلسل مشاورت کے باوجود اپنے اپنے صوبوں میں نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے کسی شخصیت پر متفق نہ ہوسکے تھےچنانچہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا۔
اس منظرنامے سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ قائد حزب اختلاف ہوں یا قائد ایوان جہاں منصب پیپلز پارٹی کے پاس تھا وہاں معاملے کو مقررہ مدت میں طے کرلیا گیا۔ صوبوں میں مسلم لیگ، تحریک انصاف، جے یو آئی، بلوچستان عوامی پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے وزرائے اعلیٰ اور قائدین حزب اختلاف نتیجہ خیز مشاورت نہ کرسکے۔ صوبہ سندھ نے نگراں وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان سب سے پہلے کرکے دیگر تینوں صوبوں کی سیاسی قیادتوں کو بصیرت اور معاملہ فہمی کا پیغام دیا ہے۔
آئندہ انتخابات کے بعد صوبہ سندھ کے دیرینہ مسائل حل ہوپائیں گے؟ ملک میں ایک طویل عرصے سے جمہوری حکومتوں کے کام کرتے رہنے اور قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کی جانب سے صوبوں کو ان کے مقررہ حصوں کی مسلسل فراہمی کے باوجود سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں عوام کو کئی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان بھر میں شہروں کی آباد ی اور ان کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ کراچی کے ساتھ ساتھ سندھ کے دیگر شہروں مثلاً حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ، نواب شاہ، کوٹری، میر پور خاص، شکار پور،جیکب آباد، خیرپور، دادو، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو آدم، عمرکوٹ، شہداد کوٹ، بدین، گھوٹکی، سانگھڑ کی آبادی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اندرونِ سندھ شہروں میں آبادی بڑھنے کی بڑی وجہ مقامی شرح پیدائش اوراردگرد علاقوں سے روزگار کیلئے لوگوں کی ان شہروں کی طرف نقل مکانی ہے۔ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں آبادی میں اضافےکی چار بڑی وجوہات ہیں۔
1۔ مقامی شرح پیدائش، 2۔ سندھ کے دیگر شہروں سے، 3۔ پاکستان کے دیگر صوبوں سے، 4۔ غیر ممالک خصوصاً بنگلادیش اور بعض دیگر ممالک سے روزگار کیلئے لوگوں کی کراچی آمد۔شہری عوام ہوں یا دیہی عوام روزگار، تعلیم، صحت، شہری سہولتوں کی فراہمی اور دیگر کئی شعبوں میںسب کو کئی تکالیف ہیں، عوام کو پے در پے آنے والی حکومتوں سے بہت سی شکایات ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ منتخب حکومت کی عملداری میں ملک، صوبے، بڑے چھوٹے شہروں او دیہات کے حالات بہتر ہوںگے۔ لیکن یہ توقعات کتنی پوری ہوسکیں؟ صوبہ سندھ کی سیاست میں پچھلی تین دہائیوں سے شہری اور دیہی تفریق کے باعث ہیجان اور رسہ کشی کی سی کیفیات رہی ہیں۔
دنیا کے ہر ملک میں تجارتی ساحلوں کے کنارے آباد شہر ہوں یا صنعتی شہر، وہاں ملک کے دیگر علاقوں سے لوگوں کا روزگار کی تلاش میں آنا صدیوں کا معمول ہے۔ تجارتی ساحلی شہر اگر صنعتی شہر بھی بن جائے تو انسانی نقل مکانی کا رخ اس شہر کی طرف مزید بڑھ جاتا ہے۔ برصغیر میں بنگلا دیش کا شہر چٹاگانگ، بھارت کے شہر کلکتہ، مدراس(چنائی)، ممبئی، مشرق وسطیٰ کے شہر دبئی، ابوظہبی، جدہ، دیگر ایشیائی شہر کولمبو، سنگاپور، بنکاک، ہانگ کانگ، جکارتہ، تائی پی، منیلا، شنگھائی، ٹوکیو وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ کراچی کو بجا طور پر منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ ساحلی، صنعتی و تجارتی شہر اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے کراچی کی آبادی روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے انتظام، بنیادی ضروریات کی فراہمی، پرائمری، سیکنڈری اسکول، کالج اور جامعات کی شکل میں تعلیمی اداروں، اسپتال ڈسپنسری، بنیادی صحت یونٹ (BHU) کے قیام، تجارتی اور گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی مسلسل فراہمی، شہر کو مختلف ضروریات کیلئے پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا انتظام، بحر عرب کو کچرے، صنعتی فضلے اور خراب پانی کی آلودگی سے محفوظ رکھنا، پاکستان کے سب سے بڑی شہر کے باسیوں کی صحت کی حفاظت اور بیماریوں سے بچاؤ کیلئے، صنعت اور ٹریفک کے دھوئیں اور شور سے ہونے والی آلودگی پر کنٹرول اور وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے ماحولیاتی تحفظ اور دیگر کئی مسائل سے نجات کیلئے اسمبلیوں میں موجود سب جماعتوںکو مل کر کام کرنے کی شدید اور فوری ضرورت ہے۔ پاکستان کو اور اپنے صوبے کو سب سے زیادہ ریونیو اور سب سے زیادہ روزگار دینے والے شہر کراچی کی ترقی پورے ملک اور پورے صوبے کی ترقی ہے۔ 1947ء کے بعد بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان میں بسنے والے مسلمان سب سے زیادہ کراچی میں آباد ہیں۔ کراچی پہلے پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے متوالوں کا شہر تھا۔ 1964ء میں صدر ایوب اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہونے والے صدارتی انتخابات میں کراچی نے حکومتی امیدوار یعنی صدر ایوب خان کے بجائے بانی ٔ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ محترمہ فاطمہ جناح یہ انتخابات بوجوہ نہ جیت سکیں لیکن اہلِ کراچی نے اس کے بعد سے اپنے لئے ایک اپوزیشن شہر کا لقب اختیار کرلیا۔ 1971ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ کی سب سے مقبول پارٹی بن کر ابھر رہی تھی۔ گوکہ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں اردو اسپیکنگ کمیونٹی کے کئی اہل دانش اور سماجی ورکرز بھی شامل تھے لیکن یہ لوگ اہلِ کراچی کی اکثریت کو پارٹی کے پروگرام کی طرف راغب کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آہستہ آہستہ کراچی پیپلز پارٹی مخالف شہر کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا۔ اب اہلِ کراچی کو سوچنا چاہئے کہ چالیس پچاس سالوں سے مسلسل اپوزیشن کا شہر بن کر اس شہر کو کیا فوائد ملے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی سندھ کی بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں صرف اپنے حصول اقتدار کیلئے نہیں بلکہ دیہی اور شہری علاقوں کی بہتری کی خاطر شراکت اقتدار پر غور کریں۔ اس شراکت کے نتیجے میں سندھ کے صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے حالات میں سدھار آئے گااور عوام کو ریلیف ملےگا۔
سندھ کی حکمرا ں جماعت پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم نے نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر پر تو پہل کردی، کیا سندھ کے عوام یہ توقع رکھیں کہ اس صوبہ میں بسنے والے سب شہریوں کی خدمت اور سندھ کی ترقی کیلئے بھی سندھ کی سیاسی جماعتیں مل کر نیک نیتی کے ساتھ مخلصانہ کوشش کریں گی؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین