• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے دو ماہ پہلے کی بات ہے مجھے اچانک شدید جھٹکا لگا، ہوش و حواس جاتے رہے، یادداشت کھو گئی، مجھے محسوس ہوا کہ میں خلاء اور زمینی فضا کے درمیان کہیں معلق ہوں، اس سارے عرصے میں زیادہ تر تو غشی طاری رہی مگر کبھی کبھی تھوڑا سا ہوش آتا تو نیم وا آنکھوں سے خلاء اور فضا دونوں کی سرگرمیاں نظر آتی تھیں۔ مبہم سائے اپنی اپنی سرگرمیوں میں منہمک نظر آتے۔ غور سے دیکھنے کی کوشش کرتا تو کمزوری کا احساس ہوتا اور پھر ایک جھٹکے سے یادداشت کہیں چلی جاتی......
دو ماہ گزرے ہیں تو اب قدرے بہتری محسوس ہو رہی ہے، یادداشت جزوی طور پر بحال ہو رہی ہے، زمینی فضا جو دھند اور گرد آلود ہوائوں میں کچھ چھپ سی گئی تھی دوبارہ سے صاف نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ غشی کے دوروں کے دوران دھندلی خلاء میں جو سرگرمیاں ہو رہی تھیں اب ان کا نتیجہ فضا میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ جب میری یادداشت گئی تھی تو دو ماہ پہلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا طوطی بولتا تھا، وہ نواز شریف، حکومت اور اداروں کے درمیان کبھی پل کا کردار ادا کرتے تھے اور کبھی نواز شریف کا فرنٹ فٹ سے دفاع کرتے نظر آتے تھے۔ دو ماہ بعد یادداشت واپس آئی ہے تو شاہد خاقان عباسی گھر سدھار چکے ہیں اور انہی کے ساتھ ہی ن لیگ کا وفاق میں اختیار بھی گھر بھیجا جا چکا ہے۔
میں جب خلاء اور فضا میں معلق تھا تو مجھے خلاء اور فضا دونوں میں حکومتیں اور ادارے معلق نظر آتے تھے۔ نگران حکومت کے وزیر اعظم ناصر الملک طویل مدتی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھے، یہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا کیا دھرا ہے وگرنہ سب کچھ تو ٹھیک جا رہا تھا۔ اب بھی خیر ہے معلق پارلیمان ہو گی عمران خان کو مخلوط حکومت میں سربراہی ملے گی، بلوچستان، فاٹا اور کراچی کے 50کے قریب اراکین اسمبلی ان کی حمایت کریں گے، جنوبی پنجاب کی 46نشستوں میں سے 25تو پی ٹی آئی لے ہی جائے گی، خیبر پختونخوا میںپی ٹی آئی 2013ء جتنی نشستیں بھی لے تو 30ہو جائیں گی یوں گنتی 100سے اوپر چلی جائے گی۔ ناردرن پنجاب اور سنٹرل پنجاب کی 95=82+13نشستوں میں سے 20سے اوپر جتنی بھی ملیں عمران کے اکائونٹ میں جائیں گی بظاہر اس سادہ سے فارمولے سے وفاقی حکومت تو بن جائے گی۔ جب میری زبان بند تھی، آنکھیں نیم وا تھیں مدہوشی اور غشی کا عالم تھا تب بھی مجھے فضا میں مرکزی پنجاب کا موڈ کچھ الگ نظر آتا تھا۔ دو سو سے زائد ارکان پنجاب اسمبلی ابھی تک نواز شریف اور شہباز شریف کی جماعت کے ساتھ ہیں حالانکہ غداری کا سرٹیفکیٹ بھی ملا، بھارت نواز ہونے کے طعنے بھی ملے بہرحال ابھی بیر بکھرے ہیں تباہ اور خراب نہیں ہوئے۔ بیر پھر سے چنے جا سکتے ہیں۔
مجھے دو ماہ میں جو خواب نظر آتے تھے وہ ظاہر ہے سارے خواب تھے اور لازماً ’’جھوٹے‘‘ ہوں گے مگر مجھے یوں نظر آتا تھا کہ عدالتوں کے اعلیٰ ترین فیصلوں اور اداروں کے ارادوں کے باوجود ہم پھر سے 90 کی دہائی کی نفرت انگیز سیاست کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اتنا کچھ کر گزرنے کے باوجود نیند میں مجھے یہی نظر آتا تھا کہ پھر سے وفاقی حکومت اور پنجاب کا تنازع ہو گا پھر سے اگلا سال ڈیڑھ سال محاذ آرائی کی نذر ہو گا، شہباز شریف بھی عمران خان جیسے نہ سہی پھر بھی منظورِ نظر ہوں گے، سید مشاہد حسین بھی پسندیدہ ہیں وہ ڈبل ڈی فارمولا چلائیں گے یعنی Defiance and Development مزاحمت اور ترقی کا بیانیہ ساتھ ساتھ چلے گا۔ عمران خان، اسد عمر، علیم خان اور فواد چوہدری بھی عسکری خان کے پیاروں میں شامل ہیں دونوں طرف پیارے ہوں گے جب ان کی لڑائی ہو گی تو حکومتی پیارے مشکل میں آتے جائیں گے۔ میں خواب میں مدہوش دیکھتا تھا کہ پاکستان پھر سے مشکل میں جا رہا ہے، ارادے سب کے نیک ہیں۔ جج، جرنیل اور سیاستدان سب ملک کی بہتری کے خواہش مند ہیں لیکن حالات کا دھارا ہمیں پھر سے منجدھار کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہم بڑی مشکل سے جمہوریت کی کشتی کو گرداب سے نکال لائے تھے مگر شوریدہ سر سمندر ایک بار پھر اس کمزور نائو پر حاوی ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے ادارے انتہائی قابل، بین الاقوامی ڈگری یافتہ کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن والے لوگ چلا رہے ہیں مگر وہ کر وہی رہے ہیں جو گزشتہ 70سال سے ہو رہا تھا۔ وہی ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں، وہی احتساب، وہی بے وفا انتخابی گھوڑے، وہی راندئہ درگاہ سیاسی جماعت اور وہی لاڈلے۔ یہ تو سب کچھ وہی ہے جو 70سال سے ہو رہا ہے نئے اور پختہ کار ملکی قائدین سے تو توقع تھی کہ وہ ملک کو ایک نئی سمت میں لے جائیں گے، مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھیں گے، سیاست سے کرپشن کو نکال باہر کریں گے مگر سیاسی جماعتوں کو مضبوط کریں گے، کرپٹ کو سزا دیں گے مگر کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ افغانستان اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں جوہری تبدیلی لائیں گے، امریکہ کے ساتھ بگڑتے تعلقات کو سنبھالیں گے مگر یہاں تو دنیا بھر سے لڑنے اور چھٹی جنریشن وار کے غلغلے بلند کئے جا رہے ہیں، پھر سے میکارتھی کے اصول لاگو کر کے غدار اور محب وطن کا کھیل جاری ہے۔ یہ تو جنرل ضیاء اور جنرل یحییٰ خان والا ہی پرانا کھیل ہے ، پھر ملک کیسے بدلے گا؟
خیر یہ سب باتیں تب کی ہیں جب میں نیند اور مدہوشی میں تھا اب مجھے ہوش آ چکا ہے اور مجھے ہر طرف ہراہرا نظر آ رہا ہے۔ غداروں کا قلع قمع ہو رہا ہے، محب وطن آگے آ رہے ہیں بس انتخابات ہو لینے دیں ملک میں چار سو بہار ہو گی، دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، ملک کے قرضے اتر جائیں گے، رشوت کا جو بازار گرم نظر آتا ہے وہ ختم ہو جائے گا، ہر کام میرٹ پر ہوا کرے گا۔ نقصان میں چلنے والی پی آئی اے اور دوسرے سرکاری ادارے منافع میں چلے جائیں گے یوں ملک میں سالانہ 500ارب روپے کی بچت ہو گی۔ کالاباغ ڈیم کے لئے چندے کی اپیل کی جائے گی تو اربوں ڈالر فوراً اکٹھے ہو جائیں گے۔ الغرض اس ملک کے سبھی دِلدّر دور ہونے کو ہیں۔ اتنا سوچا ہی تھا کہ پھر بے ہوشی کا دورہ پڑا اور پھر سے برے برے خواب آنے شروع ہو گئے۔ کنفیوژڈ ہوں کہ میرے برے خواب ٹھیک ہیں یا میری جاگتی آنکھوں کا حال ٹھیک ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین