• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میں آپ کو بتائوں گا، جب میں مذہبی ووٹر کے حوالے سے قصور ضلع کی گلیوں، محلوں، چائے خانوں، ریڑھی بانوں اور مذہبی طبقات میں جاکر معلومات اکٹھی کر رہا تھا، اس وقت میں حیریت میں ڈوب گیا کہ قصور کے ایک گائوں میں ’’خواتین کی تعداد‘‘ مردوں سے کیوں زیادہ ہے۔ عربی زبان کے لفظ قصر کی جمع قصور کا معنی محلات ہے، قصور نے پہلے انگریز حکومت سے 1867 میں میونسپیلٹی کا درجہ حاصل کیا۔ 1976 میں لاہور سے الگ ہوکر قصور کو تحصیل کا درجہ ملا، ماضی میں قصور کو لاہور کی آنکھ کہا جاتا تھا۔ اس کا کل رقبہ3995 مربع کلومیٹر ہے، قصور مذہبی، روحانی اور ثقافی روایات کا ہمیشہ پاسدار رہا ہے۔ ضلع قصور کی چار تحصیلیں ہیں، جن میں چونیاں، قصور، کوٹ رادھا کشن اور پتوکی شامل ہیں ۔34لاکھ 80ہزار آبادی والے ضلع میں مذہبی ووٹر کی تعداد اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں بے شمار مساجد، مدارس اور مذہبی شخصیات کے علاوہ اوقاف کے زیر اہتمام صوفی شاعر بلھے شاہ کے علاوہ بابا شاہ کمال چشتی، خواجہ دائم حضوری، بابا صد دیوان، بابا عباس شاہ، بابا نقیب شاہ اور دیگر ہستیوں کے دربار شامل ہیں۔ ڈی پی او کے علاوہ 4ایس ڈی پی او، 20تھانے، 35پولیس چوکیوں والے اس ضلع میں صرف 2ہزار پولیس کے جوان 25جولائی کے الیکشن کو پرامن ماحول میں کرانے کی کوشش کریں گے۔ قصور میں یہ خوش آئند بات دیکھنے کو ملی کہ یہاں کوئی فورتھ شیڈول میں مذہبی جماعت کا رہنما نہیں۔ ضلع قصور میں 4این اے 137، 138، 139، 140جبکہ پی پی کے 9حلقے 174، 175، 176، 177، 178، 179، 180، 181، 182ہیں۔ 20سالہ تجربہ رکھنے والے جنگ کے نمائندہ محمد سلیم الرحمان کو 25جولائی کو الیکشن ہوتا نظر ہی نہیں آرہا، ان کے نزدیک مسلم لیگ ن کا مذہبی ووٹر قصور شہر میں اپنے پائوں پر کھڑا ہے، جبکہ باقی تحصیلوں میں گڑبڑ نظر آرہی ہے۔ یہ الیکشن اس لئے بھی مزیدار ہے کہ اس ضلع میں ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے ہم مسلک اور ہمارے دوست مولانا ابتسام الٰہی ظہیر بھی اسی حلقہ سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ تحریک لبیک کا زیادہ ووٹر قصور میں ہمیں نظر نہیں آیا۔ مذہبی ووٹر کا کہنا تھا کہ ہم جائیں تو کدھر جائیں، جب فصلی بٹیرے کبھی ادھر کبھی ادھر کی پروازیں پکڑتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی مقابلہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہی ہے، قصور سے 2013کے انتخابات میں ن لیگ نے قومی کی 100 فی صد اور صوبائی کی 80 فی صد سیٹیں جیت لی تھیں، باقی 20فی صد ق لیگ کے وقاص موکل اور سردار آصف نکئی نے جیتیں۔ یہاں ووٹر کو سیاسی بیگانوں کے چبوتروں سے اُڑان بھر کر آنے والے امیدواروں کی جماعتوں کے منشور بارے کوئی علم نہیں اور نہ ہی کوئی دلچسپی، باقی مذہبی ووٹر کے نزدیک مسالک کم اور ذاتیں زیادہ اہم ہیں۔ قصور میں پیپلزپارٹی کو کئی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ 2008میں بے نظیر کی شہادت کے باوجود پی پی پی کی ایک سیٹ سردار آصف نکئی نے جیتی تھی، چوہدری منظور احمد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے مقامی لڑائی جھگڑوں سے فائدہ اٹھا بھی سکتے ہیں۔ مقامی ووٹر کے بقول ق لیگ کے پاس کوئی نامور مقامی سیاستدان ہی نہیں بچا، تو ووٹ کس کو دیں۔ ق لیگ کی تمام شخصی وکٹیں تحریک انصاف اڑانے میں کامیاب ہو چکی ہے، ق لیگ کے سابق ایم پی اے اور حالیہ تحریک انصاف کے رہنما پیر مختار احمد کا ووٹ بینک بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ دوسری طرف واٹر ریسرچ کونسل کے بقول قصور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے23 شہروں میں شامل ہے جس کے پانی میں بیکٹیریا، آرسینک، مٹی اور فضلے کی ملاوٹ 78فیصد تک ہے۔ 1990میں واٹر سپلائی اسکیم کے تحت ایسی ٹینکیاں بنائی گئیں جس سے گھروں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ جن کے اب پائپ مختلف جگہوں سے خراب ہو چکے ہیں۔ لوگ پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ووٹر کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کروانے کے لئے کبھی کوئی مذہبی شخصیت یا جماعت آگے نہیں آئی، تو ووٹ مذہبی بنیادوں پر کیوں دیں؟ یہاں پر ایک امیدوار پاکستان فلاح پارٹی کے عطا قصوری صاحب بھی ہیں، جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کوشاں ہیں۔ ضلع قصور کے الیکشن 2018میں ماضی میں بچوں کے ساتھ زیادتی والا واقعہ اور زینب قتل کیس کو ابھی تک مذہبی طبقہ تو کیا عام شہری بھی بھول نہیں پار ہا۔ اگر حکومت اداروں کو ایکٹو کر کے زینب کے قاتل عمران نامی لڑکے کو عبرت کا نشان عملاً بنا دیتی، تو اس کا مسلم لیگ ن کو الیکشن میں بھی فائدہ ہونا تھا۔ میری بات جب زینب کے والد سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ زینب کے گھر والے اپنے سابقہ گھر میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتظامیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے، کہیں الیکشن کے دنوں میں عوام ان کے گھر حملہ نہ کردیں۔ 25 جولائی2018 بدھ کے دن اگر الیکشن ہو جاتا ہے، تو یہ انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے کیونکہ جب جہالت کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے بدھ کو منحوس کہنا شروع کیا تو امام ابو حنیفہ ؒنے فرمایا تھا کہ اگر مجھے زندگی کا آخری دن کام کے لئے ملے تو بدھ کے دن سے نئے کام کا آغاز کروں گا۔ یاد رہے چوتھے، پانچویں اور چھٹے الیکشن کے بعد یہ گیارہواں الیکشن بھی بدھ کے دن ہونے جارہا ہے تاہم 25جولائی کو قصور کے میدانی علاقوں میں شدید گرمی ہوگی اور برسات کا موسم بھی شروع ہو چکا ہوگا، بارش موسم خوشگوار کرنے کے لئے تو برسے لیکن شدید بارشوں سے الیکشن کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ دوسرا ان دنوں میں چاروں صوبوں کی طرح ہزاروں خواتین و حضرات فریضہ حج کی سعادت حاصل کرنے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی پاک زمین پر موجود ہوں گے۔ میری درخواست ہے کہ خاص طور پر حاجیوں کے لئے حکومت ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر ضروری اہتمام کرے، تاکہ وہ ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہیں۔ میں نے شروع میں لکھا تھا، کہ آپ کو بتائیں گے کہ ضلع قصور کے 43درجہ حرارت والی سخت ترین گرمی میں گلی محلوں میں جانے کا ایک فائدہ یہ ہوا جو مجھے آفس کے اے سی والے کمرے میں نہیں تھا۔ یہ واقعہ کوئی خیبرپختواہ کے پہاڑوں کی بلندیوں، بلوچستان کے پہاڑوں کی غاروں، جنوبی سندھ کے میدانی علاقوں کا نہیں، بلکہ خادم پنجاب شہباز شریف کے الیکشن والے حلقہ سے صرف 25کلومیٹر دور کا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ضلع قصور کے ستوکے اور میر محمد گائوں میں جہاں پر شروع میں معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع ہوا اور اب تک ایک سو سے زائد مرد قتل و غارت کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس لئے ان دو چھوٹے جڑواں دیہات میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے اور مرد کم رہ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان دیہات میں مزید قتل و غارت الیکشن والے دن ہو سکتی ہے۔ میری نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں ان دو دیہاتوں میں ممکنہ قتل و غارت سے قبل سخت ترین سیکورٹی کا اہتمام کریں اور یہاں فوج کی نگرانی میں الیکشن کرائے جائیں بلکہ الیکشن سے پہلے ایک دن وہاں جائیں یا پھر جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان نے حمزہ شہباز اور عائشہ احد کی صلح کرائی ہے آپ بھی یہ نیک کام کر گزریں کیونکہ یہاں پانچ سال ختم ہونے میں دیر نہیں لگتی، آپ کی حکومت کے دن تو بہت تھوڑے ہیں۔ تمام قارئین کو عید مبارک، ہر جمعہ ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفی ﷺ 80بار گھر، دفتر اور پھر تنہا پڑھنے کا اہتمام باقاعدگی سے ضرور کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین