ہر سال کی طرح گزشتہ روز 14 جون کو بلڈ ڈونر ڈے یعنی خون عطیہ کرنے والوں کاعالمی دن منایا گیا جس کا مقصد ایک انسان کی دوسرے انسان کو خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ان تمام لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا جو بغیر کسی ذاتی لالچ کے اپنا خون فقط خدمتِ انسانیت کی خاطر دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلئے عطیہ کرتے ہیں۔انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو روز اول سے انسان کا خون ناگہانی آفات، دنگے فساداور مختلف حادثات کی بناء پر بہتا رہا ہے،میں نے جب بلڈ ڈونیشن کے بارے میں مطالعہ شروع کیا تو کچھ حقائق میرے سامنے آئے، مثلاََ یورپ کی تاریخ میںایک دورایسا بھی تھا جب یورپی ممالک آپس کی جنگوں کے باعث ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے لیکن وہیں درد انسانی رکھنے والے سائنسدان کوشاں تھے کہ کسی طرح خون کی کمی کے شکار مریضوں میں دوسرے صحتمند انسانوں کے خون کی منتقلی ممکن بنائی جاسکے، فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ ڈینس نے 17ویں صدی میں ایک بکری کے بچے کا خون انسان کے بدن میں داخل کرکے خون کی منتقلی کیلئے راہ ہموار کردی،بعدازاں دیگر ڈاکٹروں نے خون منتقلی پر اپنے تجربے جاری رکھے، اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت انیسویں صدی میں ایک برطانوی ڈاکٹر جیمز بلنڈل نے خون منتقلی کا آلہ ایجاد کرکے کی جسکی بدولت ایک انسان سے دوسرے انسان کو خون دیا جانے لگا، آج ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اے بی گروپ رکھنے والے کو ہر خون لگایا جاسکتا ہے اور او گروپ رکھنے والا تمام دوسروں کو خون دے سکتا ہے لیکن انیسویں صدی تک ڈاکٹرز خون کے مختلف گروپس کے اجزائے ترکیبی اور انکی ذیلی صفات مثبت اور منفی سے ناآشنا تھے اور یہی بڑی وجہ تھی کہ غلط گروپ کا خون دوسرے کو لگادینے سے نتائج حوصلہ افزا ء نہیں آتے تھے۔ خون منتقلی کیلئے بلڈ گروپس کی دریافت کرنے والا عظیم سائنسدان کارل لینڈسٹینر تھا جسکی اعلیٰ خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اسکے یوم پیدائش 14جون کو ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے قرار دیا گیا ہے، آسٹریا سے تعلق رکھنے والے کارل نے 1900ء میںآگاہ کیا کہ انسانی خون تین بڑے گروپس اے، بی اور او میں منقسم ہے اور خون منتقلی کا عمل کامیابی سے سرانجام دینے کیلئے دونوں کا خون گروپ میچ کرنا ضروری ہے، آسٹروی سائنسدان کو اس اہم دریافت پرنوبل انعام سمیت دنیا بھر کے اعلیٰ اعزازات سے نوازاگیا۔ پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے خون منتقلی کی ضرورت میں اضافہ کردیا، امریکی فوج سے وابستہ ریسرچر اوسوالڈ ہوپ رابرٹسن نے زخمی فوجیوں کی صحتیابی کیلئے دنیا کا پہلے بلڈ بینک قائم کیاجہاں خون بوتلوں میں ذخیرہ کیاجاتا تھا، سویت یونین دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں باضابطہ طور پر بلڈ بینک قائم کیا گیا۔ بدقسمتی سے آج بھی بہت سی انسانی جانیںموثر اور بروقت خون منتقلی کی سہولیات کی عدم دستیابی کی بناء پر ضائع ہوجاتی ہیں،ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرسال اندازاً 32 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کے سبب صرف 18 لاکھ بوتلیں ہی فراہم ہو پاتی ہیں،اسی طرح پاکستان میں سرکاری، نجی اور این جی اوز کی سطح پر بلڈ بینکس کی بڑی تعداد اسپتالوں میں قائم ہے لیکن دہشت گردی ، ٹریفک حادثات اور زچگی کے نتیجے میں زیادہ ترمریض بروقت خون نہ ملنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔عام طور پرسمجھا جاتا ہے کہ خون دینے کا عمل کمزوری کا باعث بنتا ہے یا پھر صرف موٹے تازے ہٹے کٹے افراد ہی خون دینے کے قابل ہوتے ہیں، اسکے برعکس حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ہرصحتمند انسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ رکھا ہوتاہے جسکی وجہ سے سولہ سے ساٹھ برس کی عمر کا ہر تندرست فردہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے، تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آجاتا ہے جو جسم میں موجود بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کے عمل کو بھی مضبوط کرتا ہے، نئے خون کے خلیات پرانے خون سے زیادہ طاقتورہوتے ہیں ۔ بطور ڈاکٹر میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دینے والا فرد کولیسٹرول قابو میں رہنے کی وجہ سے کبھی موٹاپے میں مبتلانہیں ہوتا۔ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ خون کا عطیہ دینے کی عادت اپنالیتے ہیں ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے خدشات 95 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ خون منتقلی سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سی مہلک بیماریاں مثلاََ ایڈز اور ہیپا ٹائٹس خون کے ذریعے دوسرے کو منتقل ہوسکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عطیہ شدہ خون کی مختلف طرح کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈونرکو اگر کوئی بیماری پائی جائے تو وہ بروقت آگاہ ہوجا تا ہے۔ ایک صحتمند بالغ آدمی کے جسم میں پانچ گرام آئرن کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، آئرن کی زیادتی انسان کے دِل،جگر، لبلبے اور خون کی شریانوں کو متاثر کرتی ہے، خون کا عطیہ کے نتیجے میں آئرن کی شرح میںتبدیلی انسانی صحت کیلئے نہایت کارآمد ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خون کا باقاعدہ عطیہ اوسط عمر میں چار سال تک کا اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ ان تمام سائنسی پہلوؤں سے بالاتر ہوکر میری نظر میں خون کا عطیہ کرنا ایک مذہبی اور سماجی فریضہ بھی ہے، دنیا کے ہر مذہب نے انسانی جان کی حرمت یقینی بناتے ہوئے اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہر صورت میں دوسرے انسان کی جان بچائی جائے، سائنس کہتی ہے کہ خو ن عطیہ کرنے کے بعد نئے خون کے بننے سے چہرے میں نکھار پیدا ہوتا ہے جو بڑھاپے کے اثرات کو بھی زائل کرتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ درحقیقت خدا کے بندوں کی جان بچانے کی وجہ سے خدا کی رحمت ہوتی ہے جو اچھے انسانوں کے چہروں پر برستی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ درست خون گروپ کی تلاش جان جوکھم کا کام تھی لیکن آج ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں انٹرنیٹ کی بدولت بلڈ بینک تک رسائی آسان ہوگئی ہے ، بہت سی ویب سائٹس اور واٹس ایپ گروپ خون فراہمی کیلئے رابطہ کاری میں بہترین کردار ادا کررہے ہیں، ابھی حال ہی میں معروف سماجی ویب سائیٹ فیس بک نے پاکستان کے صارفین کو خون کے عطیہ میں مدد دینے کیلئے ایک شاندار فیچر متعارف کروایا ہے جسکی بدولت خون عطیہ دینے میں دلچسپی رکھنے والے اپنے کوائف رجسٹرڈ کرواسکتے ہیں، خون عطیہ کے طلبگارکو فیس بک پر مطلوبہ بلڈ گروپ کیلئے خصوصی پوسٹ کرنی ہوگی اور خون عطیہ کرنے والوں کوخودکار انداز میں نوٹیفکیشن موصول ہوجائے گا، فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف بلڈ بینکس کیلئے خون کا عطیہ دینے والوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کرنے کیلئے پُرعزم ہے۔ مختلف سماجی اداروں کی طرح پاکستان ہندوکونسل بھی خون کا عطیہ یقینی بنانے کیلئے مختلف اقدامات اٹھاتی رہتی ہے، میرا ارادہ ہے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے اگلی مرتبہ پاکستان میں بلڈ کیمپ کا انعقاد کیا جائے تو وہ فیس بک پر ایونٹ کی صورت میں مشتہر کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ عطیہ کنندگان خودکار طور پر آگاہ ہوسکیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں افواہوں اور قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے حقائق پر مبنی خدمت انسانیت کو اپنا مقصد حیات بنانا چاہیے، ہمیں ایک ایسے قابل تقلید فلاحی معاشرے کے قیام کیلئے باہمی جدوجہد کرنی چاہیے جس میں بسنے والا ہر شہری ایک دوسرے کا ہمدرد ، مددگار اور مسیحا ہو،یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی فلاحی کاموں کیلئے وقف کردیتے ہیں انکا نام تاریخ میں امر ہوجاتا ہے،ہم سب کو دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اپناعملی کردار ادا کرنا ہوگا چاہے وہ ایک بوتل خون کے عطیہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔