• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کی بنیاد تعلیم، سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر منحصر ہے اور اس ترقی کے حصول کے لئے معیاری افرادی قوت کی تشکیل ضروری ہے جو تعلیم اورپیشہ ورانہ مہارت سے آراستہ ہو اور اعلیٰ و جدید ٹیکنالوجی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔اب کو ئی بھی ملک محض قدرتی وسائل کے ذخائر کے بل بوتے پر ترقی نہیں کر سکتا۔ اس تعلیمی اہمیت کا اندازہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر (Tony Blair) کی اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ ان سے ان کی حکومت کی تین اہم ترجیحات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نےبرجستہ جواب دیاتعلیم ، تعلیم اور تعلیم۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعض چھوٹے ممالک مثلاً کوریا، سنگاپور اور فن لینڈ نے مضبوط علمی معیشت کے بل بوتے پر ہی عالمی منڈی میںنمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ سماجی و اقتصادی ترقی کے چار اہم ستون ہیں 1۔ تعلیم، 2۔سائنس و ٹیکنالوجی،3۔ جدت طرازی اور 4۔ ایماندار قیادت کےزیر سایہ اچھی طرز حکومت ۔ عالمی سطح پر اس وقت ممالک میں ترقی کا مقابلہ اقتصادی بنیادوں پر ہے جو کہ بعض میدانوں مثلاً ادویات سازی، انجینئرنگ کاسامان، بائیو میڈیکل آلات،بر قیات، کمپیوٹرز، حساس دفاعی سامان، آٹوموبائل،طیارہ سازی ، ڈرون جہاز، آبدوز، سوفٹ وئیرز، شمسی خلئے، اور اسی قسم کی دوسری اشیاءمیں درمیانے اور اعلیٰ درجے کی تکنیکی مصنوعات سازی کی صلاحیت پیدا کرنے اور برآمدات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن پاکستان اس دوڑ میں کہیں نظر نہیں آرہا، ہماری صنعت کا تقریباً ساٹھ فیصدحصہ کم آمدن کپڑا سازی کی صنعت پر مشتمل ہے جوعالمی مارکیٹ میں6 فیصد سے بھی کم حصے پر محیط ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس ملک میں موجود دو مضبوط عناصر، جاگیردارانہ نظام اور ناخواندگی کی موجودگی میں بھوک اور افلاس سے چھٹکارا حاصل کرنا محض خواب و خیال ہی نظر آتا ہے۔ کیونکہ جاگیرداروں کے زیر اثر یہ پارلیمنٹ تعلیم کو کبھی پروان نہیں چڑھنےدے گی کیوں کہ اس سے جاگیردارانہ نظام کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتاہے اور جب خواندگی نہیں ہوگی توغربت اپنا ڈیرہ جمائے رکھے گی۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ نظام پوری آب و تاب سے پھل پھول رہاہے جبکہ دیگر ممالک اس دیمک کی طرح ملک کو چاٹ جانے والے طبقے سے کب کا چھٹکارہ حاصل کر چکے ہیں۔ بھارت میں جواہر لال نہرو نے تقسیم ہند کے فوراًبعد ہی اس نظام کا خاتمہ زمینی اصلاحات کے نام پر کردیا تھا۔حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی کے فوراً بعد اس نظام کو ختم کردیا تھا۔ لیکن پاکستان میں ان مضبوط جاگیر دارحکمرانوں نے ایسےکسی نظام اور ایسے کسی قانون کو تشکیل ہی نہیں ہونے دیا جس سے ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہویہی وجہ ہے کہ ْملک میں آج تک حقیقی جمہوری نظام قائم ہی نہیں ہوسکا۔یہاں تک کہ انہوں نے مقامی حکومتوں کے انتخابات سے انکار کردیا تاکہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہی نہ ہوسکیں ۔ اس نے پاکستان کی ترقی بالخصوص تعلیمی ترقی پر تباہ کن اثرات مرتب کیے جس کے نتیجے میں ملکی سماجی ومعاشی ترقی کا عمل بھی رک گیا۔
موجودہ جمہوری نظام کی باربار ناکامی کی وجہ غیرآئینی مداخلت کو گردانا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہےکہ جمہوریت کو کبھی ارتقا کا موقع ہی نہیں دیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر مرتبہ "جاگیردار پرور جمہوریت " کےحکمرانوں کی لوٹ مار کو روکنے کے لئے فوج کو حکومت میں مداخلت کرنی پڑی ہے۔ پاکستان میں نام نہاد "جمہوریت" کی بدترین ناکامی کی اصل وجہ پارلیمانی نظام حکومت ہے جس کی باگ ڈو جاگیر داروں اور"منتخب کنندگان" (electables) کے ہاتھوں میں ہے۔ جو جب بھی برسر اقتدار آئے انہوں نےآزادانہ لوٹ مار کا با زار گرم کیا۔میں ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ نظام میں مندرجہ ذیل واضح تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے:
۱۔ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت قائم کیا جائے تاکہ عوام ایسے شخص کو منتخب کرسکیں جسے وہ سمجھتے ہوں کہ اس میں دیانت داری، قوم کی رہ نمائی کرنے کی صلاحیت اور قائدانہ صلاحیتیں موجود ہوں۔ یہ شخص اپنی کابینہ کے افراد اور حکومتی سیکرٹریز ملک کے بہترین تکنیکی ماہرین میں سے منتخب کرے ۔ ۲۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل بزرگوں کی عدالتی کونسل قائم کی جائے جو کہ خود مختارہو اور حکومتی مداخلت کے بغیر کسی فرد کا متبادل منتخب کرسکے۔ بزرگوں کی یہ کونسل ، صدر پاکستان ، پارلیمنٹ ، سینیٹ کے انتخابی امیدواراور مختلف حکومتی اداروں کے سربراہان کی مکمل چھان بین اور تحقیق کے بعد ان کو منظور کرے گی۔ان مناصب کے لئے صرف ایسے افراد کے ناموں کی منظوری دی جائے جن کا کردار بے داغ ہو اور جن کے اندر اس منصب پر فائز ہونے کی اہلیت ہو جن کا ماضی ان کی کامیابیوں اورمہارت کی گواہی دے ۔۳۔ پارلیمنٹ کا کردار قانون سازی اور اس پر نظر پر محدود ہو ، قانون سازی کے لئے ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کے تعلیمی پس منظر اور صلاحیتوں کومد نظر رکھا جائے ، اور انہی افراد کو رکن اسمبلی منتخب کیا جائے جو اس صلاحیت کے حامل ہوں ۔۴۔ تمام سرکاری اداروں (پی آئی اے، اسٹیل ملز، پاکستان ریلوے ، واپڈا، پی ٹی سی ایل وغیرہ)کے بہترین انتظامی بورڈز ہوں(جن کے اراکین ممتاز بزرگوں کی عدالتی کونسل کی جانچ پڑتال کے بعد منتخب کئے گئے ہوں) ان افراد کا تقرر حکومت کی جانب سے نہ کیا جائے ۔ان اداروں کے سربراہان کا تقرر ادارے کے اند ر انتخابات کے ذریعے کیا جائے ۔ ۵۔ آئین میں ضروری ترامیم کے ذریعے تعلیم کا بجٹ GDPکا کم از کم7فیصد حصہ لازمی کیا جائے۔۶۔بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے نیب، FIA،اور دوسرے اینٹی کرپشن اداروں کے سربراہان کا تقرر حکومت کی بجائے ممتاز بزرگوں کی عدالتی کونسل کے ذریعے کیا جائے ۔ ۷۔ عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کروائی جائیں اور ہزاروں اضافی ججوں کا تقرر عمل میں لایا جائے تاکہ انصاف تین مہینے کی لازمی مدت میں فراہم کیا جا سکے۔ ۸۔ بدعنوانوں پر سزائے موت کا نفاذ کیا جائے تاکہ لوٹی ہوئی قومی دولت ملک میں واپس لائی جاسکے اور اس حوالے سے کسی قسم کے ہر جانے / جرمانےکی ادائیگی کی گنجائش نہ رکھی جائے۔
اگر ہم نے ان تبدیلیوں پر عمل درآمد نہ کیا اور پرانے قرضے چکانے کے لئے نئے قرضے لیتے رہے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمارے پاس اپنے فوجیوں کی تنخواہ تک کے لئے پیسے نہیں ہوں گے۔
پاکستان آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے ۔ فوجی حکومت اسکا حل نہیں ہے ۔ موجودہ پارلیمانی نظام جمہوریت بھی بری طرح سے ناکام ہو گیا ہے، اس کا اندازہ ترقی کے تمام اہم اشاروں (برآمدات، قومی قرض، صنعتی ترقی، غربت کی سطح، خواندگی کی سطح وغیرہ) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہےجو واضح کرتا ہے کہ اس نظام حکومت سے صرف بدعنوان حکمرانوں ہی کو فائدہ پہنچا ہے ۔ اس ناکامی کی شاہراہ پر ایک امید کی کرن نظر آئی ہے ایک آبادیاتی مفاد ہمیں حاصل ہے جو کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک کو بھی حاصل نہیں وہ یہ کہ ہماری دس کروڑ کی آبادی 25 سال سے کم عمر نو جوانوں پر مشتمل ہے جس میں ترقی کی زبردست صلاحیت ہے ۔ تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں اپنے وسائل کارخ ، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی جانب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان جدید علم و ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔ یہ دریچہ صرف 20 سال کی قلیل مدت کے لئے میسر ہے اس سے پہلے کہ یہ موقع شدید بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے مزید تباہی کا باعث بنے ،ہمیں اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ آج چھوٹے سےسنگاپور کی برآمدات330 ارب ڈالر سالانہ ہیں جبکہ ہماری آبادی سنگاپور سے 40 گنا زیادہ اسکے باوجود ہماری برآمدات صرف21 ارب ڈالر ہیں ۔ یہ صورتحال 1985 ء سے اب تک کی حکمرانی کی ہولناک حالت زار کی منظر کشی کرتی ہے۔
اس حوالے سے اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کون لائے گا؟ظاہر ہے کہ جاگیرداروں پر مشتمل موجودہ اسمبلیاں ایسی آئینی ترامیم پر ہر گز راضی نہیں ہوں گی جس سے ان کےمفادات کو نقصان پہنچنے کا ذرہ بھر بھی خدشہ ہو۔اس کے لئے عبوری تکنیکی ماہرین کی حکومت آئین میں ترمیم کرکے ایک مختلف قسم کی صدارتی جمہوریت تشکیل دے سکتی ہے ۔
کسی دانا آدمی کا قول ہے کہ"نادانی اور بے وقوفی کی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی کام بار بار کیا جائے اور مختلف نتائج کی توقع رکھی جائے" یہ بات طے ہے کہ پارلیمانی نظام جمہوریت اونچےدعوئوں کے باوجود پاکستان میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس راستے پر جاری رہنابیوقوفی ہی ہے ۔ یہی وقت ہے کہ آئین کو تبدیل کیا جائے اور صدارتی نظام جمہوریت مکمل احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے نافذ کیا جائے ۔تاکہ بدعنوان افراد پھر اس نظام حکومت کا حصہ نہ بن جائیں اس کے لئے اسی مضمون اور سابقہ مضامین میں بیان کردہ اقدامات پر عمل کیا جائے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین