• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم نے پھرا سکول سے بھاگنے کا پلان بنایا تھا۔

’’سنو اس طرف کی دیوار چھوٹی ہے، ادھر سے پھلانگ لیتے ہیں‘‘۔

میں نے اپنی دوست کو ایک سمت اشارہ کیا۔اس نے آنکھ دبا کر تائید کی اور ہم نے دوڑ لگا دی، ابھی دیوار پہ چڑھے ہی تھے کہ آواز آئی’’یہ کتابیں پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں سر رکھ کے سونے کے لیے نہیں‘‘۔ اماں کی کمر پہ زوردار دھپ نے سارے خواب کا فسوں توڑ دیا۔

’’امی آپ مجھے عظیم انسان نہ بننے دیجئیے گا، اچھا بھلا اسکول سے بھاگنے لگی تھی‘‘۔

سنا ہے نیوٹن ا اسکول سے بھاگ گیا تھا،خوش قسمت تھا اور وہ جس نے بلب ایجاد کیاتھا بھلا سانام تھا اس کا، ہاں !یاد آیا، تھامس ایڈیسن! اس کو تو خود اسکول والوں نے نکالا اور اس کی والدہ سے معذرت کر لی تھی،وہ کس قدر سمجھدار خاتون تھیں، پھر اسےا سکول بھیجنے کا سوچا بھی نہیں اور ایک ہماری اماں حضور ہیں، جن کو روزانہ ا سکول بلا کر ہمارے قصیدے سنائے جاتے ہیں ، مگر کیا مجال کہ ان میں سمجھ داری کی رمق ہوتی اور وہ ابا میاں کی حق حلال کی کمائی ضائع ہونے سے بچا لیتیں۔

خیر کتابوں سے یاد آیا ،ہم ایم اے کے فائنل کی تیاری میں غرق ہیں،پورا سمسٹر تو ہم جیسے ذہین لوگ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں یہ بھی گھر والوں پہ احسانِ عظیم ہوتا ہے، چہ جائیکہ اب پڑھیں بھی۔ ایک ہفتہ قبل ہم خوابِ خرگوش سے بیدار ہوئے،وہ کہتے ہیں ناں، قدر کم کر دیتا ہے روز کا آنا جانا، اس لیے کلاس میں جاتے نہیں, نوٹس تو ہم بناتے نہیں،لیکچر کبھی ہینڈ فری لگائے بِنا سنا نہیں, کتابیں خرید کر ملکی سرمائے کے زیاں کے ہم قائل نہیں ,بقول اباجان کے موبائل پہ زیادہ نظر جمائے رکھنے سے عینک کا نمبر بڑھنے کا خطرہ لاحق ہے، اس لیے اتنا بڑا خطرہ ہم ننھی سی جان پر مول لینے کو تیار نہیں اس لیے واٹس ایپ, فیس بک کے علاوہ ہم کچھ بھی موبائل پر استعمال نہیں کرتے ،یہاں تک کے ابا جان کے نصیحت بھرے پیغامات بھی نہیں دیکھتے کہ نظر کے ساتھ ساتھ عزت کا گراف بھی گرنے کا شدید خطرہ ہوتا ہےتو کتاب پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آخری چیز ،جس سے امتحانات میں امداد باہمی پہنچنے کی توقع ہوتی ہے وہ ہیں ،ہمارے دوست،ایسے کہ ان پہ کوئی ضرب المثل صادق ہی نہیں آتی کہ آوے کا آوا ،ہی الٹا ہے۔ وقت پر پہلے کبھی کچھ ان سے برآمد ہو اہے جو اب ہو گا

خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔

ساری رات اس دکھ میں(کہ اب ہم کس طور اپنی اس چھوٹی سی ناک کو کٹنے سے بچا پائیں گے) فیس بک پر دکھی اسٹیٹس اپ لوڈ کرتے رہے اور سو بھی نہ پائے۔صبح کو خیال آیا کہ اب جب کچھ پرچے سے متعلق پڑھنے کو ہے نہیں تو کیوں نمرہ احمد کا ادھورا ناول ہی مکمل کر لیا جائے،اسے پڑھنے بیٹھے ہی تھے کچھ رات کا جگ راتا اور کچھ رومانٹک سا ہیرو جلد ہی ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے،مگر امتحان کی پریشانی (جو کہ ہمیں کبھی نہیں ہوئی ہے) میں ناآسودہ خواہش نے خواب کا روپ دھار لیا اور ابھی ہم ا سکول سے بھاگنے ہی والے تھے کہ ہماری اماں نے ایک بار پھر ارمانوں کا خون کر دیااور ہم ایک بار پھر نیوٹن کے مد مقابل آنے سے محروم رہ گئے۔

(رضوانہ نور)

تازہ ترین
تازہ ترین