چیف جسٹس ثاقب نثار تھر میں بچوں کی اموات پر سندھ میں پیپلز پارٹی کی سابقہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر برہم ہوگئے ۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میںمٹھی تھرپارکر میں بچوں کی اموات سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی،اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں گورننس نام کی کوئی چیز نہیں،بچوں کی اموات حکومت کی غفلت سے ہوئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی ایسی کارکردگی ہےکیا وہ اگلا الیکشن بھی لڑرہے ہیں؟جن کے بچے مرے ان کی تلافی کون کرے گا؟
سپریم کورٹ نے دوران سماعت دو ماہ میں تھر میں طبی عملے کی کمی پورا کرنے کا حکم دیا اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی پر مشتمل کمیشن تشکیل دیتے ہوئے انہیں محکمہ صحت کے اقدامات کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا حکم دیا ۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ کراچی میں ہیں تو انہیں بلاکر کارکردگی کا پوچھیں،سندھ اور دیگر صوبوں کی کارکردگی میں واضح فرق نظرآتا ہے۔
اس موقع پر سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے کہا کہ چیف سیکرٹری میری سنیں تو میں کچھ کروں،سارا نظام تباہ ہے، اکیلا کیا کر سکتا ہوں؟
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے اوپر کون ہے؟صوبے کے وزیراعلیٰ کے اوپر کون تھا؟صوبے کے سب سے بڑے سے تو آپ کی رشتہ داری ہے،کیا انہیں صورتحال بتائی؟
جسٹس ثاقب نثار نے سیکریٹری صحت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کے بچے مر گئے ان کا کیا کریں گے؟سب ذمےداری آپ کی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔
معاون عدالت نے بتایا کہ سندھ کو70 فیصد ڈاکٹراورطبی عملے کی کمی کا سامنا ہے،ڈاکٹرز اورطبی عملے کی کمی پوری کیےبغیر صورتحال بہترنہیں ہوسکتی۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صوبے میں کتنے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کمی ہے؟
سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ 6 ہزار ڈاکٹرز اور طبی عملے کی بھرتی کی سفارش کی ہے،مسئلہ یہ ہے کراچی سے کوئی ڈاکٹر تھرپارکر جانے کو تیار نہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک کیوں ڈاکٹرز اور عملے کو بھرتی نہیں کیا؟اس کا ذمے دار کون ہے؟ اب عبوری حکومت کیا کرسکتی ہے؟ بتائیں ڈاکٹرز کی بھری میں ہم کیسے معاونت کرسکتے ہیں؟
متاثرہ والدین نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے بچے ویکسین لگانے سے مرے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ 5 ماہ سے کہہ رہے ہیں کام ہو جائے گا، کب بہتری آئے گی؟
عدالت نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کو ڈاکٹرز اور دیگر عملے کی فوری بھرتی کا حکم دیا اور 2 ماہ میں ضلع تھرپارکر کےطبی عملے کی کمی کو پورا کیا جائے۔