• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ کی خاقان عباسی حکومت نے اپنے آخری سال میں قابل ٹیکس آمدنی کی حد بارہ لاکھ سالانہ کردی ہے۔ اس فیصلے سے پانچ لاکھ سے زائد ٹیکس دہندگان انکم ٹیکس ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوگئے ہیں۔ بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کرائےگئے فنانس بل میں چھ تا بارہ لاکھ آمدنی والوں پر چند سو روپے ماہانہ کا معمولی سا ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ ادھر سپریم کورٹ نے عید سے پہلے دئیے گئے ایک فیصلے میں موبائل فون صارفین پر عائد مختلف محصولات کی کٹوتی پندرہ دن کے لئے معطل کردی ہے۔ اسکے نتیجے میں ایف بی آر کو رواں مالی سال کے آخری ہفتوں میں ریوینیو کی وصولیابی متاثر ہوگی۔ عدالت نے ایف بی آر کو اس بارے میں کوئی مناسب نظام وضع کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں موبائل فون کے مختلف پیکجز کے ذریعے نہ صرف مفت اور سستی کال بلکہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی بہت کم نرخوں پر مل جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی میں موبائل فون پر کال کے نرخ پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کے نرخ بھی برطانیہ اور یورپی ممالک کی نسبت بہت کم ہیں۔ پیٹرول تو عالمی مارکیٹ سے ہر ملک کو ایک ہی ریٹ پر ملتا ہے۔ مذکورہ ممالک میں نرخ زیادہ ہونے کا سبب پیٹرول اور ڈیزل پر بالواسطہ ٹیکسز ہیں۔ تیل پیدا کرنیوالے ممالک کے علاوہ دنیا کے ہر ترقی کرتے ملک میں انکم ٹیکس اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرحیں کمزور معیشت والے ممالک سے زیادہ ہیں۔
عباسی حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس میں شاہانہ ریلیف کے فیصلے ایسے وقت کئے گئے جب حکومت پاکستان کو محصولات میں بہت کمی اور پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں کمزوری کا سامنا ہے۔ پاکستانی قوم کو معیشت کی حقیقی صورتحال سے آگاہ رکھنے، عوام کو معیشت کی بحالی میں شرکت پر آمادہ کرنے اور انہیں ایک ذمہ دار شہری بنانے کیلئے اقدامات کے بجائے مختلف حکومتوں نے زیادہ تر انتخابی یا وقتی مصلحتوں کو ہی ترجیح دی ہے۔ حکومتوں کی ایک ترجیح جاگیرداروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینا اور امیر طبقے کو نوازنا بھی رہا ہے۔ ان نوازشات کی قیمت ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے عوام کو چکانا پڑ رہی ہے۔ ان غلط پالیسیوں کے نتائج غیر ملکی قرضوں پر مزید انحصار اور ملکی معیشت کی مزید کمزوری کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔
بارہ لاکھ تک آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کردینے سے چند لاکھ ٹیکس دہندگان کو ملنے والے ریلیف کی نسبت کہیں زیادہ نقصان کروڑوں پاکستانیوں کو روپے کی قدر گرنے سے ہوگا۔ جس ملک میں انکم یا سیلز ٹیکس کیلئے رجسٹریشن نہ کروانے، جائیداد وغیرہ کی خرید و فروخت کے جھوٹے ڈیکلریشن جمع کروانے اور اپنی اصل آمدنی نہ بتاکر ٹیکس بچانا عام ہو وہاں بارہ لاکھ سالانہ آمدنی پر چند سو روپے ماہانہ مالیت کے ٹیکس لگا دینے سے بھی بے شمار لوگوں میں ٹیکس ادا کرنیکی ترغیب پیدا نہیں ہوگی۔ ایسے حکومتی اقدامات سے خود ایف بی آر اربوں روپے کے انکم ٹیکس سے محروم ہوگا۔
پاکستان میں لوگ ٹیکس کیوں نہیں دینا چاہتے....؟ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اوّل اور بڑی وجہ تو یہ ہے کہ لوگوں کو یہ اعتماد ہی نہیں ہے کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ دیانت داری کے ساتھ ملکی ترقی اور عام آدمی کی بہبود پر خرچ ہوگا۔ ٹیکس دینے والا ہو یا ٹیکس بچانے والا یہاں ہر ایک کواپنے بچوں کی تعلیم، خاندان کی صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کے لئے اپنے معاملات خود دیکھنے ہوتے ہیں۔
دوم، پرائز بانڈز، فارن ایکسچینج بیرئیر سرٹیفکیٹ اور بیرون ملک سے آنیوالی رقوم پر کوئی سوال نہ ہونا کئی لوگوں کو اپنی اصل آمدنی چھپانے میں مددگار ہے۔ سوم، حکومت کی جانب سے ایف بی آر کے اداروں مثلاً کسٹم، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کے افسران و ماتحتوں کیلئے خصوصی پیکجز نہ ہونا بھی مختلف بدعنوانیوں کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 300ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن ہوتی ہے اس کرپشن کے انسداد کیلئے سب سے پہلے ٹیکس وصولی کے ذمہ داروں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔ ان ضروریات میں صحت، بچوں کی تعلیم اور ریٹائرمنٹ پر ذاتی رہائش کا انتظام شامل ہیں۔ ملک میں کاروباری افراد کو دیانتداری کے ساتھ حقیقی طور پر واجب الادا ٹیکس دینے پر راغب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انکم ٹیکس دینے والے کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔ جو شخص جتنا ٹیکس دیتا ہو، اسی مناسبت سے اسے میڈیکل، لائف انشورنس، بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے ایجوکیشن انشورنس اور کاروبار سے ریٹائرمنٹ یا انتقال کرجانے کی صورت میں بیوی یا شوہر کوایک خاص مدت تک پنشن اداکی جائے۔
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ میرے ادا کئے گئے ٹیکس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ مذکورہ بالا اقدامات کے بعد ٹیکس دہندگان کی ایک بڑی تعداد اعتماد اور اطمینان محسوس کرے گی۔ وزیراعظم خاقان عباسی انتخابی سال میں دس بارہ لاکھ ٹیکس دہندگان کو خوش کرنے کے لئے انکم ٹیکس کی شرح 35سے 15فیصد تک کم کرنے کے بجائے ٹیکس دہندگان کے لئے اکنامک سیکورٹی اسکیم کا اعلان کردیتے تو ان کا نام تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا۔ لیکن بہرحال اس تجویز کو انتخابی معرکوں میں مصروف ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اب بھی اپنے منشور کا حصہ بنا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کےلئے Good Relief کی صورت میں معاشی تحفظ کا اہتمام ہوجائے تو نہ صرف ٹیکس دہندگان کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوگا بلکہ انکم ٹیکس کی مد میں ملنے والے رقم کی مالیت بھی بہت تیزی سے بڑھتی جائے گی۔
لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ایسی کسی تجویز پر سنجیدگی سے غور نہیں کریں گی۔ نہ ہی ووٹرز کی جانب سے سیاسی جماعتوں پر اس کام کے لئے کوئی دباؤ آئے گا۔ کیونکہ ہمارے ہاں انتخابات قوم کو درپیش مسائل اور اہم معاملات پر نہیں بلکہ جذباتی نعروںاور نسلی یا لسانی وابستگی کی بنیاد پر زیادہ ہوتے ہیں۔
رسول بخش پلیجو ( 1930ء تا 2018ء)
قوم پرست رہنما، قومی عوامی تحریک کے بانی رسول بخش پلیجو کی وفات سے ایک دور تمام ہوا۔ آپ نیشنل عوامی پارٹی کے بانی اراکین میں بھی شامل تھے۔ رسول بخش پلیجو ایک کثیر اللسان ہستی تھے۔ وہ سندھی، اردو، انگریزی، فارسی، عربی، ہندی، بنگالی کے علاوہ بلوچی، سرائیکی اور پنجابی زبان بھی خوب جانتے تھے۔ وہ ایک اچھے وکیل، دانشور، ادیب اور شاعر بھی تھے۔ رسول بخش پلیجو نے سندھی زبان میں26اور دیگر زبانوں میں 15سے زائد کتابیں تحریر کیں۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لامیں اخبارات پر پابندیوں کیخلاف آواز اٹھائی اسکے نتیجے میں انہوں نے طویل قید کی تکالیف بھی برداشت کیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم رسول بخش پلیجو کی مغفرت ہو اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام ملے۔ ان کے اہلِ خانہ اور سب متعلقین کو صبر عطا ہو۔
عید الفطر 1439/2018
کئی دہائیوں کے بعد پاکستان بھر میں عید الفطر کا تہوار بہت پرامن ماحول میں منایا گیا۔ ملک کو استحکام اور قوم کو تحفظ دینے کے لئے پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر اداروں کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ بڑی مشکل اور بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہونیوالے اس امن کو وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کیلئے احسن اور مثبت طور پر بروئے کار لایا جائے گا۔

تازہ ترین