کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھرمیں بچوں کی اموات پر پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی پرسخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں کوئی کام ٹھیک نہیں، سندھ میں سب کام بد نیتی کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے، جب بھی سندھ آیاہوں یہاں دیگر صوبوں کی نسبت غیرمعمولی فرق نظر آیا ہے، یہاں گورننس نام کی کوئی چیز نہیں،مراد علی شاہ کی حکومت میں یہ سب ہوا اب وہ دوبارہ کس منہ سے الیکشن لڑرہے ہیں، بدترین کا ر کر د گی پراگلاالیکشن کس طرح سے لڑسکتے ہیں؟ ڈاکٹرز کی عدم تعیناتی کی وجہ سے بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں اسکا ذمہ دارکون ہے؟عجیب بات ہے کہ وزراء کو پیجارو سے کم معیار کی گاڑی پسند ہی نہیں آتی۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف مقد ما ت کی سماعت کے موقع پر دیئے۔ چیف جسٹس نے محکمہ صحت کے اقدامات پر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی ثناءاللہ عباسی کو انکوائری افسر مقرر کرتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرکے 2؍ ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے وزراء کی لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دیدیا۔تفصیلات کے مطابق منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میںلارجربینچ نے مٹھی تھرپارکر میں بچوں کی اموات کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔اس موقع پر سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو ،ایڈووکیٹ جنرل سندھ، سول سوسائٹی کی جانب سے بیرسٹرفیصل صدیقی پیش ہوئے۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسا ر کیاکہ اموات سے متعلق آغاخان اسپتال سے رپورٹ مانگی تھی کیا یہ رپورٹ عدالت جمع کرائی گئی ہے ؟جس پر آغاخان اسپتال کے وکیل نے رپورٹ پڑھ کرسنائی جس میں بتایاگیاکہ مٹھی اسپتال ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی شدید کمی ہے، ادویات کی عدم دستیابی ہے جس کی وجہ سے بروقت علاج میں تاخیرہورہی ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور سیکرٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ایسا کیوں ہے کہ میں جب بھی سندھ آتا ہوں یہاں دیگر صوبوں کی نسبت مجھے وائٹل ڈیفرنس نظر آتا ہے، یہاں گورننس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے سابقہ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجی اسپتال کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی اموات حکومت کی غفلت سے ہوئیں،یہ سب کارکردگی مراد علی شاہ کی ہےجو وہ اپنی سابقہ حکومت میں پیش کرکے گئے کیا وہ اگلا الیکشن بھی لڑرہے ہیں؟ایسی کارکردگی پرمراد علی شاہ دوبارہ الیکشن لڑنے کےلیے کیسے اہل ہوسکتے ہیں؟ سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہاں ہیں؟ وہ کراچی میں ہیں تو انہیں بلاکر کارکردگی کا پوچھیں،جبکہ سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے اپنے آپ کو معصوم بنا کر پیش کیا اور کہاکہ وہ توحکومت کے ایک کارندہ ہیں میری کون سنتا ہے،آپ ہمیشہ مجھ پر ہی برہم ہوتےہیں حالانکہ میں دل سے کام کرتاہوں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ چیف سیکرٹری میری سنیں تو میں کچھ کروں، سارا نظام تباہ ہے، اکیلا کیا کرسکتا ہوں؟چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ آپ سے اوپر کون ہے؟صوبے کے وزیراعلیٰ کے اوپر کون تھا؟ صوبے کے سب سے بڑے سے تو آپ کی رشتہ داری ہے، کیا انہیں صورتحال بتائی؟ غریبوں کے بچے مر گئے ان کا کیا کریں گے؟،سب ذمےداری آپ کی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے سیکر یٹری صحت سے مکالمہ کیا کہ سب ذمےداری آپ کی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔ اس موقع پر بیرسٹرفیصل صدیقی نے بتایا کہ سندھ کو70 فیصد ڈاکٹر اور طبی عملے کی کمی کا سامنا ہے، ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کمی پوری کیے بغیر صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے پوچھا کہ صوبے میں کتنے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کمی ہے؟ اس پر فضل اللہ پیچوہو نے بتایا کہ 6 ہزار ڈاکٹرز اور طبی عملے کی بھرتی کی سفارش کی ہے، مسئلہ یہ ہے کراچی سے کوئی ڈاکٹر تھرپارکر جانے کو تیار نہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیاکہ اب تک کیوں ڈاکٹر ز اور عملے کو بھرتی نہیں کیا؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اب عبوری حکومت کیا کرسکتی ہے؟ بتائیں ڈاکٹرز کی بھرتی میں ہم کیسےمعاونت کر سکتے ہیں؟ جنکے بچے مرے انکی تلافی کون کرے گا؟،چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے مکالمہ کیا کہ آپ 5 ماہ سے کہہ رہے ہیں کام ہو جائیگا ، کام ہورہاہے،کام کررہےہیں ، آخر کب بہتری آئے گی؟ ،عدالت کا تھرپارکر کیلئے ڈاکٹرز اور عملہ فوری بھرتی کرنے کا حکم،عدالت نے صوبائی پبلک سروس کمیشن کو ڈاکٹرز اور عملے کی فوری بھرتی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 2 ماہ میں ضلع تھرپارکر کے طبی عملے کی کمی کو پورا کیا جائے اور پبلک سروس کمیشن تھرپارکر میں ڈاکٹر اور عملے کی فوری بھرتی کے اقدامات کرے ،ساتھ ہی عدالت نے سندھ حکومت کو 2 ماہ میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھی فعال کرنے کا حکم دیادوسری جانب سپریم کورٹ نےایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناءاللہ عباسی پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی ہے جسے محکمہ صحت کے اقدامات کی تحقیقا ت کرنےکاحکم دیا گیا ہے،عدالت نے حکم دیا کہ ثناءاللہ عباسی ذمے داروں کا بھی تعین کریں اور 2 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کریں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں لگژری گاڑ یو ں کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے لگژری گاڑیوں سے متعلق بتایاکہ مجموعی طورپر 149 لگژری گاڑیاں ہیں جو حکومت نے غیر متعلقہ افراد سے اپنی تحویل میں لے لی ہیں اور ان گاڑیوں کو قابل استعمال میںرکھنے کیلئے حکومت نے ایک نوٹی فکیشن جاری کیاہے جسکے مطابق لگژری گاڑیاں وزراء کو فیلڈ ورک کےلیے 25 ہزارروپے فی یوم کے حساب سے دی جائیں گی جبکہ لگژ ر ی گاڑی کے ساتھ ساتھ متعلقہ وزارت کے محکمے کا ڈرا ئیو ر بھی دیاجائے گا،چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ اس کا مطلب ہے سندھ حکومت نے لگژری گاڑ یا ں رینٹ پر دینا شروع کردی ہیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہارکرتےہوئے کہاکہ اب لگژری گاڑیاں وزراء کے پاس گھومتی پھرتی نظرآئیں گی،چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ سندھ میں کوئی کام ٹھیک بھی ہو رہاہے؟یہ سب بد نیتی کی بنیاد پر کام کیا جارہا ہے، عدا لت نے لگژری گاڑیوں کے استعمال کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے لگژری گاڑیوں سے متعلق صوبوں کی درخوا ستیں اسلام آباد میں یکجا کردیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام صوبوں کا معاملہ اسلام آباد میں سنیں گے،بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔دریں اثناءسپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ سے کوئلہ منتقلی پر مکمل پابندی عائد کرتےہوئے کہاہےکہ شہریوں کی زندگیاں عذاب ہورہی ہیں ، اپنے بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی کو ان کی صحت سے کھیلنے دیں گے،6 ہفتوں میں سارا کوئلہ اٹھائیں اور علاقہ صاف کریں کوئلہ ڈمپ کرنے کیلئے پورٹ قاسم استعمال میں لایا جائے اور لیکن وہاں بھی کسی کھلے مقام پر نہیں بلکہ بند مقام پر کوئلہ ڈمپ کیاجائے،کوئی غفلت برداشت نہیں کرینگے، امپورٹرز کچھ خدا کا خوف کریں ،کوئلہ سے منہ ہی کالا نہیں ہورہا پھیپھڑوں کا مرض بھی لاحق ہو رہا ہے۔ کسی قیمت پر بھی کوئلے کا جہاز کراچی پورٹ پر نہیں لگنے دیں ۔تفصیلات کے مطابق بدھ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی لارجربینچ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ سے کوئلے کی منتقلی کے دوران آلودگی کیخلاف کیس کی سماعت کی ، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ سماعت کے موقع پر چیئرمین کے پی ٹی وائس ایڈمرل جمیل اختر پیش ہوئےاور انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایاکہ میں نے کوئلہ ہینڈلنگ پورٹ قاسم منتقل کرنے کی کوشش کی تو الزامات لگ جائینگے،مجھے نیب ریفرنس کی دھمکیاں بھی دی گئیں، نئے ٹرمینل کی تعمیر میں کچھ وقت لگ سکتا ہے،اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں کیس بھی زیرسماعت ہے جس پر چیف جسٹس نے کوئلہ ہینڈ لنگ سے متعلق سندھ ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی فائلیں طلب کرتے ہوئے متعلقہ امپورٹرز کو شام پانچ بجے تک پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ وقفہ کے بعد شام پانچ بجے چیف جسٹس نے دوبارہ سے کیس کی سماعت شروع کی تو ،چیئرمین کے پی ٹی کے ساتھ ساتھ چیئرمین پورٹ قاسم ودیگر اعلی حکام بھی پیش ہوئے،امپورٹرز کی جانب سے کہا گیا کہ کوئلے کی منتقلی کراچی پورٹ سے نہ ہوئی تو ان کیلئے بڑا مسئلہ ہوجائیگا ،بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میںکہاکہ پورٹ قاسم پر پہلے کی نسبت گنجائش بڑھا دی گئی ہے تو اب کیا مسئلہ ہے وہاں پرجہاز کی آمد میں تاخیرہوگی تو معاملات خراب ہونگے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ آپ کا بزنس انسانی جانوں سے آگے نہیں ہے،شہر کے مرکز میں کوئلہ اتار کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے ،انصاف کرنے بیٹھے ہیں اور انصاف کریں گے ,ہوسکتا ہے کوئی فیصلے سے خوش ہو یا ناراض، کوئلہ سےجو آلودگی پھیل ہی ہے سرمایہ کاروں کو اس کی پرواہ نہیں،میں کراچی کے لوگوں کو اس دھول میں نہیں رہنے دوں گا ،کسی کو احساس ہے کوئلہ کی دھول سے کیا بیماریوں جنم لے رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہاکہ کسی بھی قیمت پر کوئلہ کا جہاز کراچی پورٹ پر نہیں اترنے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کراچی پورٹ ٹرسٹ سے کوئلے کی متقلی پر مکمل پابندی عائد کردی اور شہر بھر میں کھلے مقام پر کوئلے کےذرخیرہ کرنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے،چیف جسٹس نے حکم دیاکہ 6 ہفتوں میں تمام کوئلے کے جہاز پورٹ قاسم پر اتارنے کے انتظامات مکمل کیے جائیں۔دریں اثناءسپریم کورٹ نے سندھ پولیس میں غیر قانونی بھرتیاں اور میگا کرپشن کیس میں وفاق کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے وضاحت کیلئے سیکر ٹر ی اسٹیبلشمنٹ کو28 جونکو طلب کرلیا ہے۔ انکوائری کمیٹی نے سابق آئی جی سمیت 70 افسران کیخلاف کارروائی کی سفارش کردی۔بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ،جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل لارجر بنچ نے محکمہ پولیس میں غیر قانونی بھرتیوں اور میگا کرپشن سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کی۔اس موقع ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ غیرقانونی بھرتیوں میں ملوث افسران کیخلاف کارروائی شروع کرد ی گئی ہے اور وفاق کو 21 افسران کیخلاف کارروائی کیلئے نام بھیجے گئے تھے ،6 افسران کو کلیئر قرار دیا گیا جبکہ 8 افسران کیخلاف انکوائری زیر التوا ہے، کچھ افسر ا ن ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اسلئے ان کیخلاف کارروائی نہی ہوسکتی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ریٹائرڈ افسران کیخلاف بھی کارروائی کریں۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے انکوائری رپورٹ پیش کی جس میں سابق آئی جی غلام حیدر جمالی،4 ڈی آئی جیز،25 ایس ایس پیزکیخلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ، انکوائری کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈی آئی جیز میں خادم رند،مظہر شہاب بھلی،شرجیل کریم کھرل،جاوید عالم اوڈھو، ایس ایس پیز میں عبدالوقار ملاح،عبداللہ شیخ، اعتز ا زگورائی، الطاف حسین لغاری، ایس ایس پیز میں ڈاکٹر فاروق احمد ، ڈاکٹر فرخ علی،فاروق احمد جمالی، فدا حسین شاہ، عرفان بلوچ اور دیگر افسران نے 4 ہز ا ر 748 خلاف ضابطہ بھرتیاں کیں۔ بعد ازاں عدالت نے وفاق کی رپو ر ٹ مسترد کرتے ہوئے وضاحت کیلئے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو28 جون کو طلب کرلیا۔