تحریر:ٹام ہیرس
برطانوی وزیرخارجہ کو کچھ عرصے کے لئے اپنی کابینہ کی پالیسیوں کی ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے۔
مجھے پہلے شبہ ہوا کہ برطانیہ کے یورپی یونین کی رکنیت کو برقراررکھنے کے لئے میری حمایت اتوار 21 فروری 2016 کے بعددوپہر ممکنہ طور پرایک انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دوچارہوگی۔یہ وہ دن تھا جب بورس جانس،ٹوری پارٹی کے کوئی وزارت یا پارٹی عہدہ نہ رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اورلندن کے سبکدوش ہونے والے میئر،نے اپنے گھر کے باہر پرجوش اخباری نمائندوں کے مجمع میں اعلان کیا کہ وہ آنے والے ریفرنڈم میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے ووٹ دینے کی مہم چلائیں گے۔
میں جانتا تھا کہ جانسن کا یہ فیصلہ،خواہ انہوں نے اس کیلئے جس اندازسے بھی جست لگائی ہو،اہم ہوگا، کیونکہ انہوں نے حمایت کے حصول کے لئے جس کسی مہم کا فیصلہ کیا ہے،وہ اس کابوجھ اٹھاسکتے ہوں گے ۔برطانوی میڈیا کو بھی یہ معلوم تھا اور اسی طرح حکومت برطانیہ بھی یہ بات جانتی تھی۔اوروہ حقیقت جس سے میں بذات خود خفیہ طورپرخوشی سے سرشارہوا ان کا وہ اعلان تھا جس نے مجھے اپنے ابتدائی موقف کا دوبارہ جائزہ لینے پر مجبورکیا۔
اس ریفرنڈم کے بعد،مجھ سے ایک سے زیادہ بارمیری یورپی یونین کے ستائیس ممالک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے میری پیشگوئی کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔میں جواب دیا،بلاشبہ،یہاں شورشرابہ ،دھینگا مشتی،ہنگامے ہونگے،واک آؤٹس(ناراضی کے باعث ملاقات اورکام چھوڑنے کے واقعات)ہونگے،استعفے دیئے جائینگے،عمومی افراتفری کا ماحول ہوگا،اوراس کے بعد۔یہ تمام یورپی یونین کے مذاکرات کا طریقہ کارہے،نصف شب سے ایک منٹ (یا اس کے لگ بھگ)پہلے ایک معاہدہ طے پاجائے گا۔
مزید برآں یہ اس سے زیادہ کیا ہے،یہ معاہدہ زیادہ ترلوگوں کو ناراض کرے گا،اگرچہ انہوں نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔یہی وہ طریقہ کارہے جس میں مذاکرات انجام کارکو پہنچتے ہیں:آپ مذاکرات کرتے ہیں،آپ سمجھوتے کرتے ہیں،آپ معاملہ حل کرتے ہیں۔
بہرحال،سوال یہ پیداہوتا ہے کہ،(یورپ سے )وابستہ رہنے یا چھوڑدینے،میں سے کس جانب حتمی معاہدہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوش(یا ناراض)کرے گا۔
قدامت پسند پارٹی کے سابق رہنما،لارڈہاورڈ،جو بریگزٹ کے کھلم کھلا حمایتی ہیں،سے ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا ایک ایسے معاہدے کو ابتدائی مقام پر تمام ترکوششوں کے ساتھ اس قابل بنایا گیا تھا کہ جو برطانیہ کو یورپی یونین کے ساتھ مستقل طورپر اپنی صف بندی برقراررکھنے کا پابندبناتا ہے۔
انہوں نے جواب دینے سے انکارکردیا،لیکن اس سوال سے مجھے دھچکا لگا کیونکہ غالباًاب تک اس ضمن میں پوچھے جانے والے اہم ترین سوالوں میں سے یہ ایک تھا۔
اگرتھریسا مے،جنہوں نے بالآخریورپی یونین سے وابستہ رہنے کے حق میں ووٹ دیااورایسالگ رہا ہے کہ اس کے بعدسے انہوں نے اپنا ذہن تبدیل نہیں کیا ہے،’’ہوٹل کیلیفورنیا‘‘کے ایک معاہدے پر مذاکرات کرتی ہیں(’’آپ جب چاہیں کسی بھی وقت اس کی سچائی کو معلوم کرسکتے ہیں،لیکن آپ اسے چھوڑنہیں کرسکتے‘‘)،وہ ممکنہ طورپر برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ جڑے رہنے کے کٹرحمایتیوں کیلئے کسی حدتک تسکین کا ساماں مہیا کرسکتی ہیں۔لیکن ایسا کرنے سے وہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے خوفناک ترین حمایتیوں کی ہمیشہ کی دشمنی مول لیں گے،جو خود ان کی کابینہ میں کچھ کم نہیں ہیں۔
ابھی تک یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی چاہنے والوں کا غصہ خودبخود کیسے ظاہر ہوگا؟ ان مذاکرات کی مخصوص سمت کے بارے میں اعلیٰ سطح پر پھوٹ اورعدم اتفاق کی رپورٹس جو کچھ بھی ہوں، برطانیہ کی قدامت پسند پارٹی نے ایک متفقہ مقصد کا کسی قدر تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ایک مخصوص سطح پر پائی جانے والی عداوت ونفرت کے باوجود جو یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے بارے میں گمان کرتے ہیں،موجودہ برطانوی حکومت خود کو متحددکھائی دینے میں کامیابی کا دعویٰ کررہی ہے جیسا کہ حالیہ انتخابات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
بورس جانسن کے بقول:
آپ تصورکریں ٹرمپ(امریکی صدر)بریگزٹ معاملے سے نمٹتے ہیں۔وہ بہت خونریزی پھیلائیں گے،وہاں ہرطرف تباہی اورہرکسی کی افراتفری کا ماحول ہوگا۔ہر کوئی یہی سوچے گا کہ یہ تو پاگل ہوچکا۔لیکن درحقیقت آپ پیشرفت یا کا میابی حاصل کرسکتے تھے۔یہ بہت زیادہ اچھا خیال ہے۔
برطانیہ بھر میں یورپی یونین سے علیحدگی چاہنے والے بے قرارشہریوں کے لئے سوال یہ ہے:یہ ’’اتحاد‘‘کب تک برقراررہے گا،خاص طورپر تقریباًروزانہ کی ایسی رپورٹس کی موجودگی میں جس میں برائے نام بریگزٹ کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے؟اورکس طرح ایسا اتحاد دوام پاسکتا ہے جس کے بارے میں بہت سے لوگ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ہراس شے کو فروخت کردیا جائے گا جس کی یورپی یونین سے علیحدگی چاہنے والوں کی اس مہم کے ذریعے حمایت کی جاتی ہے۔
اورجیسا کہ ہم جانتے ہیں،’’بے وفائی ‘‘یعنی معاہدے سے انحراف کے ایسے خدشات عوام کے عام ارکان تک محدود نہیں ہیں۔جانسن نے کنزرویٹو وے فارورڈ(برطانوی پریشرگروپ)پر گزشتہ جمعرات کی رات واضح کردیا تھا کہ وہ خوف محسوس کرتے ہیں کہ بریگزٹ ،حتیٰ کہ ایک ایسا بریگزٹ جوواپس ہونے والا نہیں ،’’یہ وہ والا نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں۔‘‘
بزفیڈ،امریکی انٹرنیٹ میڈیا کمپنی،جس نے بظاہر ایک خفیہ خطاب پر مبنی ایک آڈیو ریکارڈنگ حاصل کی ہے،کے مطابق،جانسن نے اس بات پر اصرارکیا کہ وہ برطانیہ کے مستقبل کے معاشی تعلقات کے حتمی شرائط پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،لیکن انہوں نے کہا کہ بریگزٹ کی حمایت کرنے والے شہری ایک ایسے انتہائی بدترین معاہدے کے طے پانے کے خطرے سے دوچارہیں جس کی انہیں کبھی امیدبھی نہیں تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ برطانوی حکومت مختصر مدت کے معاشی افراتفری سے اس قدردہشت زد ہ ہے کہ بریگزٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مواقع کو بھی یونہی ضائع کرنے کے خطرے سے دوچارہے۔‘‘
ایک طرف ،یہ ان پرعزم علیحدگی پسندوں کے لئے کچھ سکون کا ساماں فراہم کرے گا،جو یورپی یونین سے حتمی طورپر علیحدگی،اوربرطانیہ کی ایک آزادتجارتی اورامیگریشن پالیسی کو فروغ دینے،جو برسلزکے حکم پر تیارنہ کی گئی ہو، کے ابھی تک آرزومند ہیں ۔
دوسری جانب ،اگریہ واقعی بورس جانسن کا نقطہ نظرہے ،تو وہ کتناعرصہ اپنی اس پوزیشن (موقف)پرقائم رہ سکتے ہیں؟شایدانہوں نے عوامی حلقہ اثر میں اپنا راہ عمل بنانے کیلئے بلاقصد وارادہ ذاتی رائے کا اظہار نہ کیا ہو(اگرچہ یہ ایک بڑا’’امکان‘‘ہے)،لیکن وہاں وہ ،مختلف اورتمام ترحوالوں سے گہری سوچ بچارکے بعد،اس خاتون جنہوں نے انہیں جولائی 2016میں مقررکیا تھا ،کے ساتھ دوریاں اور اختلافات موجود ہیں،جوبے ہودہ اندازسے بے نقاب ہوگئے ہیں۔
کیا جانسن جو کہتے ہیں وہ ان کے معنی ومطلب سمجھتے ہیں؟وہ کس نکتے پر اصرارکریں گے کہ ان کا بریگزٹ سے متعلق اپنا موقف جو منظرعام پر آچکا ہے،کہ وہ موجودہ( برطانوی)وزیراعظم کے موقف کے برعکس یعنی اس کے خلاف ہے؟
یا وہ صرف ایک شاطرانہ کھیل کھیل رہے ہیں ،اپنی پارٹی کے سرگرم کارکنوں کے سامنے پکے یا کٹرعلیحدگی پسندوں(بریگزیٹئر)کو پیش کرتے ہوئے جو،کسی وقت ،تھریسا مے کے جانشین کو منتخب کریں گے،جبکہ اس عرصے میں وزیرخاجہ کے کردارسے لطف اندوزہوتے ہوئے یہ بہت ہی بڑھیا ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے دورچلے جاتے اپنے اس اصول کے اس ایک نقطہ پر جو وہ اپنے دعوؤں کے برعکس کسی کے ساتھ بالکل اس پر تبادلہ خیال ( شیئر)نہیں کرتے ہیں۔
یہ موجودہ افراتفری جس کا میں نے اندازہ لگایا،ایک طویل سفر جس میں کسی کمی یاتخفیف کے کوئی واضح اثار دکھائی نہیں دیتے۔اوراس کے وقوع پذیر ہونے سے قبل،جانسن اوردیگر کابینہ میں شامل بریگزٹ کے حمایتیوں کو ان توقعات کا سامنا کرنا پڑرہاہے جو انہوں نے خود ملک بھر میں اپنے سپورٹرزکے اندرپیداکی ہیں۔
اب ہم ایک ایسی صورتحال کے قریب ہیں جہاں چاتھم ہاؤس رولز(یعنی کسی اجلاس یااس کے کسی ایک حصے میں خفیہ گفتگو کو ذاتی حیثیت میں یوں بیان کرنا کہ جس میں نہ تو بیان کرنے والے کا ذکر ہو اورنہ ہی ان کی سیاسی وابستگی کو ظاہر کیا جاتا ہے)اب مناسب یا موزوں نہیں ہیں،جہاں آف دی ریکارڈ یعنی خفیہ بریفنگز کی کانٹ چھانٹ نہیں ہوگی،جب ہمیں درست سطح پر جاننے کی ضرورت ہوگی جس کی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پسندوں کی جانب سے بطوربریگزٹ ابھی تک منطقی طورپر کہلائے جاسکنے والے مقصد کوحاصل کرنے کے لئے سمجھوتہ کرنے کی توقع کی جائے گی۔
کسی بھی شخص کے دس نمبرمیز کے گردبیٹھ جانے کے باعث کابینہ کی مجموعی ذمہ داری سے نہیں بچاجاسکتا،کم ازکم غیر معینہ مدت کے لئے ایسا ممکن نہیں۔کیا2020 یا 2021 تک،وہ سوال لارڈ ہاورڈ جس کا جواب دینے میں ناکام رہے،کیا بریگزٹ کی قدرواہمیت برقرارہے؟لازمی طورپر اس کا جواب نفی میں دینا چاہئے،اس کے بعدجو لوگ ابھی تک حکومت میں موجود ہیں انہیں اس کے لئے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا