• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24جون 2018کو ترکی میں صدارتی اور قومی اسمبلی کے انتخابات بیک وقت ہو رہے ہیں ۔ صدارتی انتخابات میں ’’ری پبلکن پیپلز پارٹی‘‘ کے ’’محرم اِنجے‘‘، ’’گڈ پارٹی‘‘ کی چیئرپرسن ’’میرال آقشینر‘‘، ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ کے چیئرمین ’’رجب طیب ایردوان‘‘ ’’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کے زیر حراست چیئرمین ’’صلاح الدین دیمیر تاش‘‘، ’’سعادت پارٹی‘‘ کے چئیرمین ’’تے میَل قارا مولا اولو‘‘ اور ’’وطن پارٹی‘‘ کے چیئرمین ’’دعو پریِنچیک‘‘ حصہ لے رہے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں ’’اتحادِ جمہور‘‘ اور ’’اتحادِ ملت‘‘ کے نام سے دو بڑے اتحاد ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اتحادِ جمہور میں برسراقتدار اتحاد یعنی ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ (آق پارٹی) اور ’’نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی‘‘ شامل ہیں اور صدر ایردوان اس اتحاد کے واحد صدارتی امیدوار ہیں جبکہ اس اتحاد کے مدمقابل ’’اتحادِ ملت‘‘ میں شامل ری پبلکن پیپلز پارٹی، گڈپارٹی، سعادت پارٹی نے اپنا الگ الگ اور اسی اتحاد میں شامل ڈیمو کریٹ پارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے تاہم اتحادِ ملت میں ’’محرم اِنجے‘‘ ہی صدر ایردوان کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں اتحاد سے باہر آزادانہ طور پر ’’خدا پار پارٹی‘‘ اور ’’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ بھی حصہ لے رہی ہیں جبکہ ’’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کے شریک چیئرمین ’’صلاح الدین دیمر تاش‘‘ جیل سے صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کو آئین کی رو سے عائد دس فیصد شرحِ حد Thrashold کو عبور کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں جیتی ہوئی نشستیں بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے اور علاقے میں دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کو جو کہ دس فیصد کی قانونی شرحِ حد کو عبور کرچکی ہوگی، کو مل جائیں گی۔ یعنی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی جیتی ہوئی نشستیں آق پارٹی کی جھولی میں آن گریں گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی اور دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے آق پارٹی کو بڑے پیمانے پر اور خاص طور پر جنوب مشرقی اناطولیہ میں نشستیں جیتنے سے روکنے کے لئے اپنے ووٹروں سے پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (جس کے دس فیصد کی شرحِ حد عبور نہ کرنے سے متعلق سروے پیش کیے جا رہے تھے) کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی اور یوں پیپلزپارٹی پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ اس بار بھی ان تمام جماعتوں نے اپنے اپنے ووٹروں سے جنوب مشرقی اناطولیہ میں پیپلز ڈیموکریٹک ہی کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کی تاکہ اس بار بھی آق پارٹی کو پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے سے روکا جاسکے اور ایردوان کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی کے ذریعے چیک اینڈ بیلنس قائم رکھا جاسکے۔
اب آتے ہیں صدارتی انتخابات کے نتائج کی جانب۔ گزشتہ سولہ سالوں سے ترکی کے انتخابات کی کوریج کرتا چلا آرہا ہوں اور پاکستان میں سب سے پہلے جیو ٹی وی اور روزنامہ جنگ کے توسط سے ان نتائج کو پاکستانی قارئین اور ناظرین تک پہنچایا۔ راقم دو بار ان نتائج کو سو فیصد تک درست پیش کرنے کی بنا پر ترک حکام سے ایوارڈ بھی حاصل کرچکا ہے۔ اس بار صدر ایردوان کو اپنے حریفوں سے پہلے سے بھی زیادہ سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے خاص طور پر ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار محرم اِنجے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ملک کی اقتصادی صورتِ حال کی بدولت دوسرے راؤنڈ میں صدر ایردوان کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ محرم اِنجے نے اس بار مذہبی حلقوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر بالکل مختلف پالیسی اپنائی۔ مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے، تمام فرقوں کے درمیان تفریق نہ کرنے، سب کو گلے لگانے، ہیڈ اسکارف کے معاملے کو پھر سے نہ اٹھانے بلکہ اس پر جوں کا توں عمل درآمد کرنے، امام خطیب اسکول بند نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے مذہبی حلقوں کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ محرم اِنجے کے پوسٹرز، بینرز اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نماز پڑھتے ہوئے تصاویر سے متعلق صدر ایردوان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج تک مسجد کا رخ نہ کرنے والے محرم اِنجے کو انتخابات کے وقت مسجد کیسے یاد آگئی ہے؟‘‘ محرم اِنجے نے انتخابی مہم کے دوران اپنے آپ کو صرف مسجد تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ہمیشہ سے ہیڈ اسکارف کی مخالفت کرنے والی ری پبلکن پیپلز پارٹی سے180درجے مختلف راہ اختیار کرتے ہوئے اپنی والدہ اور ہمشیرہ کو ہیڈ اسکارف پہنے ہوئے جلسوں اور ریلیوں میں اسٹیج پر لا کر مذہبی حلقوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن صدرایردوان نے محرم اِنجے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آپ مذہبی لبادہ اوڑھ کر ووٹروں کو بیوقوف نہیں بناسکتے کیونکہ عوام ری پبلکن کے دور میں مذہبی حلقوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں؟‘‘ اگرچہ اس وقت تک کے تمام سرویز میں صد ر ایردوان کو پہلے اور محرم اِنجے کو دوسرے نمبر پر جگہ دی گئی ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ابھی بھی بیس فیصد کے لگ بھگ گیپ موجود ہے اوراگر پہلے راؤنڈ میں صدر ایردوان پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکے تو پھر آٹھ جولائی 2018ء کو پہلی دو پوزیشنز حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور اگلے راؤنڈ میں ’’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کے ووٹرز صدارتی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں بڑا اہم کردار ادا کریں گے۔ اس وقت تک تمام ہی سرویز صدر ایردوان کے 45سے48فیصد تک ووٹ حاصل کرنے کا ذکر کر رہے ہیں لیکن وہ یہاں پر غیر ممالک اور خاص طور پر یورپ میں آباد ترک ووٹروں کو نظر انداز کررہے ہیں حالانکہ غیر ممالک سے صدر ایردوان کو ملنے والے دو سے تین فیصد ووٹ اور صدارتی انتخابات میں سعادت پارٹی (بے شک وہ ایردوان کے مخالف اتحاد میں شامل ہے کے ووٹر اپنے صدارتی امیدوار ’’تے میَل قارا مولا اولو‘‘ کی جگہ) سے ملنے والے ایک فیصد ووٹ صدر ایردوان کو پہلے ہی راؤنڈ میں 53فیصد کے لگ بھگ ووٹ دلوا کر کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ تمام سرویز کا جائزہ لینے اور ایردوان کے استنبول میں ڈیڑھ ملین افراد سے خطاب کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایردوان پہلے ہی راؤنڈ میں اکیاون سے باون فیصد تک ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ ترکی کے صدارتی اور قومی اسمبلی کے انتخابات سے ایک روز قبل جیو ٹی وی اور روزنامہ جنگ کے توسط سے تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کروں گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین