• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹرول پر ٹیکس کس قانون کے تحت لگارہے ہیں، لوگوں کو پاگل کردیا، چیف جسٹس، چیئرمین ایف بی آر اور متعلقہ سیکریٹریز آج طلب

پٹرول پر ٹیکس کس قانون کے تحت لگارہے ہیں، لوگوںکو پاگل کردیا، چیف جسٹس، چیئرمین ایف بی آر اور متعلقہ سیکریٹریز آج طلب

کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرول پر ٹیکس کس قانون کے تحت لگا یا جارہا ہے، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کردیا ہے،کس قانون کے تحت قیمتو ں کا تعین کیا گیا، حساب دینا ہوگا، ٹینکرز مافیا سے کراچی کے عوام کی جان چھڑائیں گے، روزانہ 450ملین گیلن سیوریج سمندر میں جارہا، حکومت نے کیا کچھ کام کیا؟ شہریوں کو ہر حال میں صاف پانی دینا ہے، سڑکوں پر دیواریں بنا کر اشتہارات کی اجازت نہیں دینگے، کوئی اشتہاری دیوار نظر نہ آئے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو نتائج بھگتنا پڑینگے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری پٹرولیم، سیکرٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر آج (جمعہ کو) طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے سیکرٹری پی ایم ڈی سی کو میڈیکل کالجز سے متعلق کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ چیف سیکرٹری سے سندھ تھر کول کرپشن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار یہ ریمارکس اور ہدایت جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت کے موقع پر دیئے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں فراہمی ونکاسی آب سے متعلق سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت لارجر بینچ نے کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے واٹرکمیشن کی کاکردگی پر اطمینان کا اظہارکیا ہے جبکہ گزشتہ حکومت کی کارکردگی کی کارکردگی پر ایک بار پھر سوالیہ نشان اٹھا تے ہوئےریمارکس میں کہا ہے کہ دس سال تک صوبے میں حکومت کرنےوالوں نے کیا کام کیا؟اب سپریم کورٹ خود نگرانی کریگی اور کراچی کے عوام کو ٹینکر مافیاسے جان چھڑائیں گے۔ اس موقع پرنگراں چیف سیکرٹری پیش ہوئے جبکہ منچھر جھیل کی صفائی نہ ہونے اور گندے پانی کے اخراج پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت کے استفسارپر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ منچھر جھیل سے یومیہ 300 ملین کیوسک پانی ملتا ہے۔ چیف جسٹس کا نے کہاکہ حکومت نے 14.5ارب روپے میں ایک روپیہ خرچ نہیں کیا میں خود منچھر جیل کا دورہ کروں گا ،سمندر کا حال جو حال دیکھا ہے افسوسناک ہے، بوتلو ںپلاسٹک اور غلاظت کا ڈھیر ہے ،روزانہ 450ملین گیلن سیورج سمندر میں جارہا ہے ،دس سال سے اس حکومت نے کیا کام کیا ؟ اب سپریم کورٹ خود نگرانی کریگی۔ عدالت میں واٹڑ کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی پی ون اور ٹی پی تھری سمیت مختلف منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نےا پنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کا کمیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کمیشن کو ماہانہ کارکردگی رپورٹس دینے کا حکم دیا ۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیٹرولیم مصنوعات میں اضا فے سے متعلق سماعت کی۔دوران سماعت عدالت نے قیمتوں کے تعین پر ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او کی بریفنگ پر عدم اطمنان کا اظہار کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کردیا ہے،کس بات کا ٹیکس سارا حساب دینا ہوگا۔ عدالت نے سیکرٹری پیٹرولیم ، سیکرٹری وزارت توانائی ،چیئرمین ایف بی آر ، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم دیا۔عدالت نے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات گزشتہ چھہ ماہ کے آکشنز اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے، بتایاجائےکس قانون اور طریقہ کر کے ذریعے 62.8 روپے فی لیٹر کا تعین کیا گیا۔ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او یعقوب ستار نے بتایا گزشتہ ماہ 266.6ملین لیٹر گیسولین برآمد کیا گیا سب سے کم بولی دینے والی کمپنی سے 62.38روپے فی لیٹر گیسولین حاصل کیا گیا۔ گیسولین پر 9.8فیصد لیوی عائد کیا گیا،3.83 فیصد آئی ایف ای ایم عائد کیا گیا آئل مارکیٹنگ کمپنیز کا شیئر 2.55فیصد، ڈیلرز کا کمیشن 3.35فیصد ہوتا ہے، یکم مئی کو 15فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ، یکم جون کو قیمتیں نہیں بڑھی، 12 جون کو قیمتوں میں اضافہ ہوا پیٹرول کی موجودہ قیمت 91.96 روپے فی لیٹر ہے، ہمارے مختلف اداروں پر تین سو ارب روپے واجب الادا ہیں،، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اخراجات کیلئے بینک سے قرض لیتے ہیں؟ کتنا سود ادا کرتے ہیں، ڈپٹی ایم ڈی نے بتایا کہ بینکوں سے 95ارب روپے قرضہ لے رکھا ہے ، سالانہ سات ارب روپے سود ادا کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوگوں کی شکایت ہے پی ایس او اور اوگرا ملکر قیمت بڑھا دیتے ہیں گھر بیٹھے بیٹھے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں سارا حساب دینا ہوگا۔ چیئرمین ایف بی آر ہر حال میں کل پیش ہوں پٹرولیم مصنوعات کیس میںمیئرکراچی وسیم اختر بھی پیش ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایاکہ جس ریٹ پر پشاورکو تیل دیاجارہا ہے اس ریٹ پرکراچی کو بھی تیل دیا جارہا ہے حالانکہ کراچی بندرگاہ کے قریب ہےلیکن اسکے باوجود کراچی کے عوام سے ٹرانسپورٹیشن جارچرکیوں وصول کیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم لوگوں کو حق دینے بیٹھے ہیں،ملک کی عوام کو ریلیف دینے کے لیے بیٹھے ہیں،پہلے معاملے جائزہ لیں گے پھر حکم جاری کرینگے۔ عدالت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کیلئے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا کہ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ اوگرا کے ساتھ مل معاملے کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے سندھ تھر کول اتھارٹی کرپشن سے کیس میں چیف سیکرٹری سے سندھ تھر کول کرپشن تحقیقات سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے۔سندھ تھر کول سے متعلق کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو عدالت میں پیش ہوئے جہاں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ سابقہ حکومت میں رہے اخلاقی طور پر آپ کو بھی جانا چاہیے تھا، اٹارنی جنرل نے بھی استعفے دے دیاآپ پرانی کابینہ کا حصہ تھے اب تو نئی کابینہ آ چکی،اگر قانون رکاوٹ نہیں تب بھی اخلاقی معاملہ ہے،عدالت نے چیف سیکرٹری سے سندھ تھر کول کریشن تحقیقات سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شاہراہوں پر اشتہاری دیواروں کی تعمیر کے معاملہ کی سماعت ہوئی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سائن بورڈز سے متعلق قانون پر مکمل عمل درآمد کا حکم دیتےہوئے آبزرویشن میں کہا ہےکہ کسی ایسے کاروبار کو تحفظ نہیں دینگے جسکے نتیجے میں شہر کا ماحول بگڑ جائے ہم عوام کے حقوق کے تحفظ کےلیے ہیں، سڑکوں پر دیواریں بنا کر اشتہارات کی اجازت نہیں دینگے، کوئی اشتہاری دیوار نظر نہ آئے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کنٹونمنٹس سربراہان کو مخاطب کرتےہوئے کہاکہ بورڈ اور کھمبے لگا کگا کر کراچی کو تباہ کردیا گیا ، سائن بورڈ کے بھرمار نے شہر کی شکل بگاڑ دی ، کراچی کو اجاڑنے کی اجازت نہیں دیں گے ، کوئی اشتہاری دیوار نظر نہ آے ، جو خلاف ورزی کرے گا وہ بھگتے گا۔ عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی کنٹونمنٹ کی حدود میں 13 دیواریں قائم کی گئی تھیں ، اشتہاری دیواریں گرادی گئی ہیں، تعمیرات کیلئے 6 دیواروں کی اونچائی کم کردی گئی ہے، کراچی کنٹونمنٹ کے سی ای او کا کہنا تھا کہ 28 فٹ کی دیواروں کو کم کرکے 15 فٹ کردیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ اس کیس کے درخواست گزار ہم خود ہیں شہر میں دیواریں بناکر اشتہارات کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا میڈیکل کالجز میں داخلے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری پی ایم ڈی سی کو میڈیکل کالجز سے متعلق کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی ہے۔ سیکرٹری پی ایم ڈی سی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے سیکرٹری پی ایم ڈی سی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے 194 میں سے 169 طلبہ کو داخلے مل چکے، ہیلتھ سائنس یونیورسٹی لاہور نے بلوچستان کے طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کیا، سیکرٹری پی ایم ڈی سی کی رپورٹ پر بلوچستان کے طلبہ کو داخلہ نہ دینے پر چیف جسٹس نے یونیورسٹی انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ یونیورسٹی کو فوری داخلہ دینے کا حکم جاری کیا چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے بچوں کے حقوق کا دفاع کریں گے۔ عدالتی حکم نہ ماننے والے کالجز کے خلاف سخت کارروائی کرینگے۔

تازہ ترین