• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کا مقدمہ نا انصافی، امتیازی سلوک اور تعصب عبارت ہے۔ حیران ہوں کہ ایک قوم اپنے ہی اقتصادی اور تجارتی مرکز کو تباہ و برباد کرکے کس طرح ترقی کرسکتی ہے؟ بدترین حالات میں بھی کراچی نے ملک کو 70؍ فیصد ریونیو دیا جواب میں اسے محض ٹکوں پر ٹرخا دیا گیا۔ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ شہر کی ملکیت کا نہ ہونا ہے ۔ اسے منظم طریقے سے تباہ کیا گیا۔ کراچی آپریشن کے نتیجے میں امن بڑی حد تک بحال ہوا لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں قبرستانوںمیں جگہ تک نہیں لوگوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے ہزاروں روپے دینے پڑتے ہیں۔ ایدھی ٹرسٹ کے ایک انکشاف کے مطابق اس شہر میں نامعلوم افراد کے لئے بھی قبرستان موجود ہے۔ کراچی خوش قسمت ہے کہ اسے عبدالستار ایدھی مرحوم اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والے ملے جنہوں نے لاکھوں انسانی زندگیاں بچائیں۔ 25؍ جولائی کوعام انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز سے ہر قسم کے وعدے کررہی ہیں لیکن مردم شماری کے نام پر کی گئی نا انصافی پر یہ تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ جس میں شہر کی تقریباً نصف آبادی کو دانستہ نظرانداز کیاگیا۔ انتخابات میں جو کوئی بھی اس شہر سے منتخب ہو کر آئے گاوہ اللہ کرے ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے اس شہر کی اہمیت کو سمجھے۔ قطعی آبادی جانے بغیر آپ ترقی کے لئے منصوبہ بندی کیونکر کرسکتے ہیں؟ کراچی کے اطراف 8؍ ہزار کچی آبادیوںمیں شہر کی 40؍ فیصد آبادی رہتی ہے جس سے بدتر شہری منصوبہ بندی کی نشاندہی ہوتی ہے ان کے علاوہ کراچی میں 40؍ لاکھ غیر مقامی افراد آباد ہیں۔ بوجوہ مردم شماری میں ان کا شمار نہ ہوا۔ 1981ء کے بعد سے اب تک مردم شماری میں یہ ایک سنگین نا انصافی ہے اگر مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم کرنا کوئی دشوار نہ ہوگاکس طرح کراچی ماس ٹرانزٹ اور لیاری ایکسپریس وے جیسے منصوبوں پر دہائیاں لگ گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے ہو یا کے ٹی سی، کس طرح سے ٹرانسپورٹ نظام تباہ کیاگیا۔ کراچی کامقدمہ ان سب کاہے جو کسی مذہبی، لسانی اور نسلی امتیاز کےبغیر اس شہر کےباسی ہیں۔کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر کی حیثیت سے سلوک کا مستحق ہے۔ جہاں میٹرو پولیٹن پولیس اور نظام ہونا چاہئے۔ بدقستمی سے مسلسل حکومتوں نے کراچی کےحوالے سے اپنی مخصوص ذہنیت کے باعث شہر کو اس کے اپنے استحقاق کے مطابق درجہ نہیں دیا۔ یہ مخصوص ذہنیت اس وقت سے کام کررہی ہے جب وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہواتھا۔ کراچی کو اس کے سیاسی کردار کی سزا دی گئی۔ اسے ہمیشہ اپوزیشن کا شہر سمجھاگیا۔ برسراقتدار آنے والی کوئی بھی جماعت کراچی سے اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ جو کراچی سے جیتے انہوں نے بھی کوئی حق ادا نہ کیا۔ کراچی سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ کس طرح سے شہر کو تمام اقسام کی مافیاز کے سپرد کردیا گیا۔ کراچی کی افتاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس لمحہ فکریہ ہیں کہ شہر کو بلند عمارتوں اور کچی آبادیوں کے جنگل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کراچی دو سے ڈھائی کروڑ کی آبادی کا شہر ہے جسے عملی طور پر مافیاز کو پٹے پر دےدیا گیا ہے۔ ان میں سرفہرست کردار لینڈ مافیا کا ہے جس کا سیاست دانوں اور بیورو کریسی سے گٹھ جوڑ ہے۔ کراچی آپریشن بھی اس گٹھ جوڑ کو توڑ نہ سکا۔ اس کے لئے نہ صرف بڑے جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے بلکہ ان پر سختی سے عمل درآمد بھی ہونا چاہئے لیکن یہاں جوعملدرآمد کرانے والے ہیں وہ خود عدم عمل درآمد کے ذمہ دار ہیں۔ وہ مسائل حل کرنے کے بجائے الٹا ان ہی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔کے ایم سی، کے ڈی اے، سندھ بورڈ آف ریونیو، لینڈ یوٹیلائزیشن، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹرانسپورٹ اور دیگر اداروںمیں کرپشن نیچے سے اوپر تک عروج پر ہے۔ اگر انتظام مناسب ہو تو پانی، بجلی اور سڑکیں اسے حقیقی بین الاقوامی شہر بنانے کے لئے کافی ہیں لیکن جب لا قانونیت اور بے قاعدگیاں ہوں تو پھر یہ سب کچھ تباہی کا باعث ہیں جس کامشاہدہ عام ہے۔ کراچی میں تو سڑکیں، فٹ پاتھ اور چوراہے تک بیچ دیئے جاتے ہیں۔ شہر کو دلیر، جرات مند اور پرخلوص قیادت کی ضرورت ہے جواس کے اقتصادی اورتجارتی مفادات کا تحفظ کرے۔کراچی ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی ہے کراچی سرکلر ریلوے نظام متروک ہوا، اس کی قیمتی اراضی بندربانٹ کرلی گئی۔ 40؍ سال کے اندر کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن تباہ اور ٹرانسپورٹ کا نظام مافیا کے حوالے کردیا گیا۔اس کے نتیجے میں جو بس ٹرمنلز تھے وہ فروخت کردیئے گئے۔ زمینوں پر لینڈ مافیا کے قبضے کس طرح ہوئے یہ ہوشربا اور چشم کشا بھی ہے لیکن آج سب سے بڑا مسئلہ بندوبالا عمارتوں کی بھرمار، کمرشل پلازے اوررہائشی علاقوں کا کمرشل علاقوں میں تبدیل ہونا ہے۔ کراچی میں کبھی انفرا اسٹرکچر مناسب تھا ٹرانسپورٹ مسائل زیادہ سنگین نہیں تھے، سڑکیں چوڑی اور کشادہ تھیں، سنیما کلچر بھی مضبوط تھا۔ یہ ایک روشن خیال، لبرل اور میٹرو پولیٹن شہر تھا اچانک ہی 1960ء کی دہائی میں حکمرانوں نے وفاقی دارالحکومت نئے شہر اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اس فیصلے پر احتجاج بھی ہوا ۔ہم سب کو کراچی کا کھلے دل و دماغ سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ابتدا دیہی و شہری سمیت پورے سندھ کا کیس بلاامتیاز لڑ کر کی جاسکتی ہے۔ آگے بڑھنا ہے تو ذہنیت بدلنی ہوگی کراچی سندھیوں، مہاجروں، پٹھانوں، بلوچوں، پنجابیوں، گجراتیوں اور میمنوں سب کاہے، مسلم اور غیر مسلم سب ہی کا حق ہے کراچی سے اے ٹی ایم مشین جیسا سلوک بند کیا جائے۔ کراچی میں بدترین لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ اور سیاسی فسادات میں 50؍ ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔یہ القاعدہ سے طالبان تک دہشت گردوں کا گڑھ بنا، گینگ وار کی بھی یہ آماجگاہ رہا۔ انڈرورلڈ بھی سرگرم ہے۔ جرائم پیشہ عناصر دندناتے رہے، اسلحے اور منشیات کا کلچر بھی پروان چڑھا اب وقت ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ کراچی کے بغیر ملک کی اقتصادیات مفلوج ہے۔ کراچی کا قرض چکانے کی ضرورت ہے اس کی حقیقی حیثیت بحال کی جائے یہ ڈھائی کروڑ بنام وفاق پاکستان کراچی کامقدمہ ہے۔ 

تازہ ترین