میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
جاپان، چین اور کوریا نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹا کر برآمدات اور جی ڈی پی کی شرحِ نمو میں نہایت تیزی سے اضافہ کیا، لیکن پاکستان نے کبھی یہ ماڈل نہیں اپنایا اور ہمیشہ اپنی کرنسی کی قدر کو زیادہ رکھا، 2013ء میں ہماری برآمدات کا حجم 25ارب ڈالرز تھا، جس میں ہر سال کمی آئی،اس وقت ہماری معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے،
آج ہماری جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.8فیصد ہے، جو گزشتہ 10برس میں سب سے زیادہ ہے،اگر پاکستان میں افراطِ زر اور غربت کم کرنی ہے، تو پھر شرحِ نمو کو 8سے9فیصد تک لے جانا ہوگا، پچھلے چند ماہ سے ہماری ایکسپورٹ میں 20سے 25فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے،روپے کی قدر گھٹنے سے اشیائے خورونوش صرف2فیصد مہنگی ہوں گی، البتہ درآمدی مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوگا،اگر مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہوئی، تو کراچی میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگائوں گا، ہماری حکومت پہلے 6ماہ میں کراچی سے سارا کچرا صاف کر دےگی،چار نئی بس سروسز شروع کرے گی، تین برس میں کراچی سے پانی کی قلت کا خاتمہ ہو جائے گا،نئی حکومت ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہے یا نہیں
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل
روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہو رہا ہے، اب ایکسپورٹ میں بھی بہتری آنا شروع ہوئی ہے اور 30جون تک یہ اندازاً 24ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی، آج سے دو، ڈھائی برس قبل ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالرز سے زاید تھے، جو کم ہو کر 10ارب ڈالرز رہ گئے ہیں اور اسی لیے موڈیز نے ہماری ریٹنگ
مستحکم سے منفی کردی ،پاکستان کو آیندہ 18ماہ کے دوران قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات پیش آئیں گی،نئی حکومت کومعیشت کے میدان میں چیلنجزکا سامنا ہو گا، تاہم آیندہ حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو گی اور سارے مسائل حل کر لے گی،روپے کی قدر میں کمی سے افراطِ زرمیں اضافہ ہوگا، البتہ برآمدات کے حجم میں 25سے 30فیصد اضافہ ممکن ہو جائے گا اور یہ 28سے 30ارب ڈالرز تک بھی پہنچ سکتاہے
زبیر طفیل
عام انتخابات میں کم و بیش ایک ماہ باقی رہ گیا ہے اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ ہماری ملکی معیشت کن مشکلات سے دوچار ہے اور اسے کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے، ایک امریکی ڈالر 125روپے کے مساوی ہو چکا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ ابھی جاری ہے،
ہماری برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، تو ملکی معیشت کس طرح پائیدار ہو گی، جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار نہیں مل رہا اور وہ بے روزگار پھر رہے ہیں، جب تک ہماری صنعتیں نہیں چلیں گی، نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا، اس وقت ہماری انڈسٹری بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر مشکلات کا شکار ہے اور ہر شے چین سے درآمد ہو رہی ہے، تو مستقبل میں ہماری جامعہ کے طلبہ کے لیے بھی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں
خالد امین
گزشتہ دنوں انڈس یونیورسٹی میں ’’ پاکستانی معیشت کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، وزیرِ اعظم کے سابق معاونِ خصوصی اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کے سابق چیئرمین، ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل، ایف پی سی سی آئی (فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کے سابق صدر، زبیر طفیل اور انڈس یونیورسٹی کے چانسلر، خالد امین نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
جنگ:آپ کی جامعہ سے فارغ التحصیل طلبہ کو بہ آسانی ملازمتیں مل جاتی ہیں یا وہ بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح روزگار کے لیے دھکے کھاتے پھررہے ہیں؟
خالد امین:عام انتخابات میں کم و بیش ایک ماہ باقی رہ گیا ہے۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ ہماری ملکی معیشت کن مشکلات سے دوچار ہے اور اسے کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک امریکی ڈالر 125روپے کے مساوی ہو چکا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اسی طرح ہماری برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس میں اضافہ کیسے ممکن ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، تو ملکی معیشت کس طرح پائیدار ہو گی۔ جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے ہمارے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا۔ وہ بے روزگار پھر رہے ہیں۔ جب تک ہماری صنعتیں نہیں چلیں گی، نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا۔ البتہ ہماری جامعہ سے فارغ التحصیل طلبہ کو ملازمت بہ آسانی مل جاتی ہے، کیونکہ انجینئرنگ کی تعلیم کے معیار کے اعتبار سے ہماری جامعہ صوبہ سندھ میں تیسرے اور کراچی میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن چونکہ اس وقت ہماری انڈسٹری بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر مشکلات کا شکار ہے اور ہر شے چین سے درآمد ہو رہی ہے، تو مستقبل میں ہمارے طلبہ کے لیے پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
جنگ:لیکن اعلیٰ تعلیم کے اعتبار سے پاکستان بھر کی جامعات کا دنیا میں کیا مقام ہے؟
خالد امین:دنیا بھر کی جامعات کے مقابلے میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا معیار خاصا کم زور ہے، لیکن اس میں بہ تدریج بہتر آ رہی ہے۔ بالخصوص پنجاب میں اعلیٰ تعلیم پر خاصی توجہ دی جا رہی ہے۔ تاہم، سندھ میں ابھی تک اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ کے پی کے میں بھی تعلیم کے میدان میں خاصی بہتری آئی ہے۔
جنگ:چوں کہ آپ کا تعلق انڈسٹری سے ہے، تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی طالب علم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پاکستان میں انڈسٹری لگانا چاہتا ہے، تو کیا وہ لگا سکتا ہے اور کیا اس مستقبل تابناک ہو گا؟
زبیر طفیل:ملک میں نئی صنعتوں کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں، لیکن لوگ یہاں سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ پہلے اس کا سبب امن و امان کی ناقص صورتِ حال تھی۔ اب ملک میں کافی حد تک امن قائم ہو چکا ہے۔ بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال خاصی بہتر ہے۔ اب یہاں غیر ملکی باشندے بھی آ رہے ہیں، لیکن ملک میں صنعتوں کا مستقبل بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ میں بھی بہ تدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ ملک میں نئے پاور پلانٹس لگ رہے ہیں اور ایل این جی بھی درآمد کی جا رہی ہے، تو جب یہ بجلی سسٹم میں شامل ہو گی، تو لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔
جنگ:ان دنوں ٹیکسٹائل انڈسٹری شدید بحران سے دوچار ہے اور ٹیکسٹائل ملز بند ہوتی جارہی ہیں؟
زیبر طفیل:ٹیکسٹائل انڈسٹری ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ 60فیصد ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ سیکٹر توانائی اور خام مال کی قلت کی وجہ سے بحران کا شکار تھا، لیکن اب اس میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے اور کافی ٹیکسٹائل انڈسٹریز دوبارہ چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس وقت 80سے 85فیصد انڈسٹریز چل رہی ہیں اور باقی بھی جلد ہی چلنا شروع ہو جائیں گی۔ ایک بہتری یہ بھی آئی ہے کہ آج سے کم و بیش ایک برس قبل بجلی کی قیمت 65سینٹ فی پائونڈ تھی، جواب بڑھ کر 85سینٹ فی پائونڈ ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری برآمدات پر خاصا دبائو تھا، جو 25ارب ڈالرز سے کم ہو کر20ارب ڈالرزتک پہنچ گئی تھیں، لیکن اب ایکسپورٹ میں بھی بہتری آنا شروع ہوئی ہے اور 30جون تک یہ اندازاً 24ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔ جوں جوں صنعتیں چلیں گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ حالات میں بہتری کو دیکھتے ہوئے ہم اپنی برآمدات میں اگلے برس مزید 25سے 30فیصد اضافہ کر سکتے ہیں۔ روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہماری برآمدات میں مزید بہتری واقع ہو گی۔ جب انڈسٹریز چلنا شروع ہوں گی، تو جامعات سے فارغ ہونے والے طلبہ کو بھی روزگار کے مواقع ملیں گے۔ بالخصوص کراچی کے طلبہ کا زیادہ فائدہ ہو گا۔ پھر ملک میں نئے صنعتی زونز بھی قائم ہو رہے ہیں، جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
جنگ:نئی حکومت کو معیشت کے میدان میں کن چیلنجز کا سامنا ہوگا؟
زبیر طفیل:جی بالکل۔ نئی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو گا۔ ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آج سے دو، ڈھائی برس قبل زرِ مبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالرز سے زاید تھے، جو کم ہو کر 10ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ اسی لیے موڈیز نے ہماری ریٹنگ مستحکم سے منفی کردی ہے۔ موڈیز کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں آیندہ 18ماہ کے دوران مشکلات پیش آئیں گی اور اس کا بنیادی سبب زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے، جو دو ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ پھر رواں خسارہ بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا، لیکن مجھے اپنے ملک کی افرادی قوت پر پورا پھروسہ ہے اور مستقبل میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔ پہلے توانائی کی قلت کا مسئلہ تھا، جو اب حل ہو گیا ہے۔ البتہ بجلی کی ترسیل کے نظام میں خامیاں پائی جاتی ہیں، لیکن جونہی یہ دور ہوں گی، تو عوام اور صنعتوں کو بلا تعطل بجلی بھی ملنے لگے گی۔
جنگ:موڈیز نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ شاید پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے؟
زبیر طفیل:جی بالکل۔ میں نے موڈیز کی رپورٹ پڑھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آیندہ 18ماہ کے دوران قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات پیش آئیں گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری زرِ مبادلہ کے ذخائر گھٹ گئے ہیں اور پھر ہمارے ملک میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی نہیں آ رہی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نئی حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو گی اور سارے مسائل حل کر لے گی۔
جنگ: روپے کی قدر میں کمی سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
زیبر طفیل:اس کی وجہ سے افراطِ زر پیدا ہو گا اور درآمدی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی۔ ایسے میں ہمیں غیر ضروری درآمدات پر پابندی عاید کرنا ہو گی۔ مثلاً ان دنوں ہم پھل بھی درآمد کرنے لگے ہیں۔ حکومت کو ان پر پابندی عاید کرنی چاہیے اور ملک میں دستیاب پھلوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کرنا ہو گا۔ البتہ روپے کی قدر میں کمی سے ہماری برآمدات کے حجم میں 25سے 30فیصد اضافہ ممکن ہوگا اور یہ 28سے 30ارب ڈالرز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
جنگ:نگراں حکومت اور آیندہ حکومت کو معیشت کے کس حصے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 2008ء سے 2013ء تک ہماری جی ڈی پی 2.8فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھی۔ اس عرصے میں پاکستان کی آبادی میں سالانہ2.4فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا تھا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری فی کس آمدنی 0.4فیصد سے بھی کم شرح سے بڑھ رہی تھی، جبکہ بنگلا دیش سمیت خطے کے دوسرے ممالک کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی اور آبادی میں اضافے کی شرح کم تھی۔ جاپان، چین اور کوریا نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹا کر اپنی برآمدات اور جی ڈی پی کی شرحِ نمو میں نہایت تیزی سے اضافہ کیا، لیکن پاکستان نے کبھی بھی یہ ماڈل نہیں اپنایا اور ہمیشہ اپنی کرنسی کی قدر کو زیادہ رکھا۔ پی پی کی حکومت نے اپنے پانچ سال ضایع کیے اور اس دور میں معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ جب ہماری حکومت آئی، تو اس وقت بجٹ خسارہ 8.2فیصد تھا۔ ہم نے فوری طور پر بجٹ خسارہ کم کیا اور آئی ایم ایف سے ڈالرز کے لیے رجوع کیا۔ پھر چونکہ ہماری حکومت اہلیت رکھتی تھی، اس لیے دنیا ہمیں قرض دینے پر آمادہ ہو گئی۔ پھر چین سی پیک لے آیا، جس کی ہمیں اشد ضرورت تھی۔ چین نے کہا کہ وہ پاکستان میں سڑکیں اور پاور پلانٹس تعمیر کرے گا اور یوں ملک میں سرمایہ آنا شروع ہوا۔ تاہم، ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر برقرار رکھا۔ 2013ء میں ہماری برآمدات کا حجم 25ارب ڈالرز تھا، جس میں ہر سال کمی آتی گئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ہم نے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی نہیں کی۔ چونکہ پاکستانی مصنوعات کا معیار زیادہ بہتر نہیں تھا۔ لہٰذا ،دنیا نے بھارتی اور بنگلا دیشی مصنوعات خریدنے کو ترجیح دی، جن کی قیمتیں کم تھیں، لیکن ہم نے اس کے باوجود اپنی مصنوعات کی قیمتیں کم نہیں کیں۔ ہم نے تین برس تک روپے کی قدر 20فیصد زیادہ رکھی۔ پھر درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی ہونے کی وجہ سے ہمارا تجارتی خسارہ بڑھتا گیا، جو 5ارب ڈالرز سے بڑھتے بڑھتے 20ارب ڈالرز تک جا پہنچا، جو ہماری جی ڈی پی کے6فیصد کے برابر تھا، جبکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالرز رہ گئے۔ اس صورتحال میں لوگوں نے ڈالرز خرید کر جمع کرنا شروع کر دیے، کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ کسی بھی وقت ڈالر مہنگا ہو سکتا ہے۔یاد رہے، معیشت کا یہ اصول ہے کہ جب کسی ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو جائیں، تو وہ مارکیٹ کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔
جنگ: لیکن روپے کی قدر مستحکم رکھنے کی پالیسی تو آپ ہی کے وزیرِ خزانہ، اسحٰق ڈار کی تھی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:جی بالکل۔ پھر میں نے وزیرِ اعظم صاحب کو سمجھایا کہ ہم نے مصنوعی طور پر روپے کی قدر کو مستحکم کر رکھا ہے اور یہ معیشت کے اصولوں کے برخلاف ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کرتے اور ہماری برآمدات اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا رہتا، تو روپے پر ایک دم اتنا دبائو نہ آتا۔ اس وقت ہماری معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ آج ہماری جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.8فیصد ہے، جو گزشتہ 10برس میں سب سے زیادہ ہے۔ ہم پچھلے برس برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں 158ویں نمبر پر تھے، جبکہ اس سال ہم 49ویں نمبر پر آ گئے ہیں، کیونکہ پچھلے چند ماہ سے ہماری ایکسپورٹ میں 20سے 25فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ روپے کی قدر کم کرنے سے یہ فائدہ ہوا ہے۔ اب ہماری درآمدی بل بھی کم ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی تو بڑھے گی، لیکن صرف درآمدی مصنوعات مہنگی ہوں گی۔ یعنی غیر ملکی اسمارٹ فونز، کیمرے اور گھڑیاں مہنگی ہو جائیں گی۔ البتہ اشیائے خور و نوش میں افراطِ زر صرف 2فیصد ہے، کیونکہ اجناس میں خود کفیل ہیں۔ یعنی غریب افراد پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ اس ملک کی ایکسپورٹ انڈسٹری ترقی کرے۔ جب برآمدات میں اضافہ ہو گا، تو ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا اور لوگوں کی آمدنی بڑھے گی۔ اسی طرح صنعتوں کا پہیہ چلنے سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے، لیکن اگر پاکستان میں افراطِ زر اور غربت کم کرنی ہے، تو پھر شرحِ نمو میں 8سے9فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔ پھر جب ملک میں خوشحالی آئے گی، تو عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی دست یاب ہوں گی اور جمہوریت بھی مستحکم ہو گی۔ معاشی ترقی سے ملک میں دنگے فسادات بھی ختم ہو جائیں گے۔ اگر ہم آیندہ 20برس تک اسی تناسب سے اپنی برآمدات، جی ڈی پی اور فی کس آمدنی کی شرح میں اضافہ کرتے رہیں، تو اس ملک کے بیش تر مسائل خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ میں آخر میں یہ بتاناچاہتا ہوں کہ میں نے لاہور اور اسلام آباد میں چند برس گزارے ہیں۔ اس دوران میں نے اندازہ لگایا کہ پنجاب کے مقابلے میں کراچی اور اندرون سندھ تعلیم کا معیار خاصا کم زور ہے۔ اس ضمن میں ایک آزاد اور غیر جانب دار تنظیم الف اعلان نے بھی اپنی ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں تعلیم کے شعبے میں بہتری آئی ہے، لیکن سندھ حکومت کا کوئی حال نہیں۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ یہاں نجی ادارے تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ تعلیم ہی سب سے بہترین سرمایہ کاری ہے۔ یہ میں نہیں کہتا کہ بلکہ یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ بہترین سرمایہ کاری وہ ہے، جو آپ کسی بچے کی تعلیم پر کرتے ہیں۔ اب مسلم لیگ (ن) کراچی پر سنجیدگی سے توجہ دے رہی ہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ماضی میں ہم نے کراچی پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ اب شہباز شریف بھی کراچی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جنگ:آپ اپنے منشور میں کراچی کے لیے کون سا معاشی ایجنڈا شامل کریں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:کراچی سے شہباز شریف اور میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور انشاء اللہ ہم جیتیں گے اور اگلا وزیرِ خزانہ بھی انشاء اللہ کراچی ہی سے ہو گا۔ جب میں وزیرِ خزانہ تھا، تو میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ کراچی میں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگائوں گا۔ اگر ہماری جماعت کراچی سے قومی اسمبلی کی 4سے5نشستیں حاصل کر لیتی ہے، تو چاہے صوبائی حکومت ہمارا ساتھ دے یا نہ دے، ہم صرف پہلے 6ماہ میں کراچی کا سارا کچرا صاف کر دیں گے۔ اس کے علاوہ کراچی میں دو برس کے اندر اندر ماسٹر پلان کے ساتھ چار نئی بس لائنز شروع کریں گے۔ ملک کے دوسرے شہروں میں صوبائی حکومتوں نے اپنے فنڈز سے بس لائنز شروع کیں، جبکہ ہماری وفاقی حکومت نے اپنے فنڈز سے کراچی میں گرین بس لائن تعمیر کی اور صوبائی حکومت سے ایک پیسہ تک نہیں لیا۔ تین برس کے اندر فراہمیٔ آب کی نئی لائنیں بچھا کر کراچی سے پانی کی قلت کا خاتمہ کر دیں گے۔ دنیا بھر میں حکومتیں میٹرو پولیٹن شہروں کےمسائل ختم کر کے انہیں سہولتیں فراہم کرتی ہیں، لیکن اگر ہم یہ بھی نہ کر سکے، تو یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ میں دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ اگر خلوصِ نیت اور عقل سے کام لیا جائے، تو کراچی کے تمام مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت قائم ہوتی ہے، تو ہماری کوشش ہے کہ تین برس میں معیشت کی شرحِ نمو کو 10فیصد تک لے کر جائیں اور روپے کی قدر حقیقی رکھیں گے، تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو۔ ہم پچھلے ادوار میں کراچی پر توجہ نہیں دے سکے اور اگر چہ تعلیم و صحت کے شعبے صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں، لیکن اگر میں وفاقی وزیر داخلہ بن گیا، تو جامعہ کراچی اور این ای ڈی سمیت کراچی کی دیگر جامعات میں ایسے شعبہ جات قائم کروں گا کہ جہاں سے سائنسدان نکلیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت میں ایک ارب روپے کی لاگت سے این ای ڈی میں آئی ٹی سینٹر قائم کیا۔ ہمارے ملک کے سائنسدان بھی نوبیل پرائز حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی نوبیل پرائز حاصل کیا تھا۔ ہم کم وسائل میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے وسائل مسائل سے زیادہ ہیں، لیکن کوئی حسنِ نیت کا مظاہرہ نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے ہم پستی کا شکار ہیں۔
انجینئر عبدالستارخان:میرا سوال یہ ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں ہمارے ملک کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس منصوبے سے ہماری صنعتوں پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں، تو ان کے تدار ک کے لیے نئی حکومت کیا لائحہ عمل اپنائے گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اب تک سی پیک کے تحت 23ارب ڈالرز مالیت کے منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے تحت کراچی اور ساہیوال میں 1320میگاواٹ کے پاور پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ اب حب میں بھی ایک پلانٹ لگایا جا رہا ہے اور تھر میں کول مائننگ جاری ہے۔ سی پیک کے تحت 9انڈسٹریل زونز بنائے جائیں گے اور ہماری کوشش ہو گی کہ یہاں چین اپنی صنعتیں قائم کرے۔ اس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ میں یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم جو مراعات مقامی انڈسٹری کو دے رہے ہیں، اس سے زیادہ مراعات چینی صنعتوں کو نہیں دی جائیں گی۔ لہٰذا اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ چینی صنعتیں لگنے سے پاکستانی انڈسٹری متاثر ہو گی، تو یہ نہایت غلط سوچ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں چین سے 25برس کے لیے قرضہ ملا ہے اور اس کی شرحِ سود 1.4فیصد ہے۔ ہمیں 2022ء تک چین کو ایک ڈالر کی بھی ادائیگی نہیں کرنی۔ چین دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی ادارے سی پیک کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے جغرافیے کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر ادائیگیاں رکتی ہیں، تو چین ہماری مدد کرے گا۔
شبینہ اویس:کیا چینی باشندوں سمیت دوسرے غیر ملکیوں کو پاکستان میں اراضی خریدنے اور کاروبار کی اجازت دینے سے پاکستانی عوام کا نقصان نہیں ہو گا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:ہمارے ملک میں ہر سال 50ارب ڈالرز سے زاید کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ چین نے 5برس میں پاکستان میں 23ارب ڈالرز کی سرمایہ کی ۔ یعنی ایک سال میں 5ارب ڈالرز۔ سو، پاکستان میں ہر سال ہونے والی سرمایہ کاری کے مقابلے میں یہ خاصی چھوٹی رقم ہے۔ پاکستان ایک پیچیدہ ملک ہے اور یہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے کڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں تقریباً ایک سال لگ جاتا ہے۔ لہٰذا، آپ کو چائنیز کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
ڈاکٹر عباس:ڈاکٹر اشفاق کا کہنا ہے کہ پاکستان اگلے دو ماہ میں دیوالیہ ہو جائے گا اور ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس کی ذمہ داری گزشتہ حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:میں آپ کی دوسری بات سے اتفاق کرتا ہوں اور ہماری حکومت اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی، لیکن جہاں تک ڈاکٹر اشفاق کے پاکستان کے آیندہ دو ماہ میں دیوالیہ ہونے کے خدشے کی بات ہے، تو وہ تو گزشتہ کئی برسوں سے یہی کہتے چلے آ رہے ہیں۔
قمر علی زیدی:آپ کی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ اب ہمیں آئی ایم ایف سے مدد لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ دعویٰ کس بنیاد پر کیا گیا، کیونکہ اب دوبارہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:دراصل، ہماری حکومت کو کم و بیش دو ممالک سے مالی امداد ملنے کی امید تھی، جس پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا، لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ نگراں حکومت کے پاس یہ مینڈیٹ نہیں اور نئی حکومت ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ تاہم، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ روپے کی قدر میں کمی سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہے اور مستقبل میں ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔
محمد اکبر:پی آئی اے سمیت خسارے میں چلنے والے دیگر سرکاری اداروں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:اس وقت پی آئی اے کا سالانہ ریونیو 90سے100ارب روپے ہے، جبکہ یہ ادارہ سالانہ 45ارب روپے کا نقصان کرتا ہے۔ ان 45ارب سے روپے سے کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، لیکن یہ پی آئی اے کی نذر ہو رہے ہیں۔ حالانکہ پی آئی اے کے اسٹاف کی تنخواہیں بھی کچھ اچھی نہیں ہیں۔ قوم کا دوسرا اثاثہ پاکستان اسٹیل ملز ہے۔ اس ادارے کی گزشتہ 5برس سے کوئی پروڈکشن نہیں ہے اور ملازمین کو گھر بیٹھے تنخواہیں مل رہی ہیں۔ جس مہینے اسٹیل ملز بند ہوئی تھی، اس ماہ 45کروڑ روپے کی سیل ہوئی تھی، جبکہ 50کروڑ روپے کی گیس استعمال کی گئی ۔ یہ گیس ایس ایس جی سی کی تھی، جو ہمارا قومی ادارہ ہے۔ اگر یہی گیس صنعت کاروں کو فروخت کی جاتی، تو لوگوں کو روزگار بھی ملتا۔ اسی طرح50سے100کروڑ وپے کا خام مال حکومت سے قرضہ لے کر خریدا گیا۔ 2ارب روپے خرچ ہونے پر 50کروڑ روپے کی آمدنی ہو رہی تھی۔ یعنی ہر سال 1.5ارب روپے کا خسارہ ہورہا تھا۔ یہ رقم سالانہ 18ارب روپے بنتی ہے، جبکہ انٹرسٹ کی مد میں ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ علاوہ ازیں، اسٹیل ملز کی 19ہزار ایکڑ میں 2ہزار ایکڑ اراضی چوری کرلی گئی ہے، حالانکہ اسٹیل ملز کی اپنی پولیس اور سیکورٹی نظام ہے۔ اسی طرح پاکستانی عوام اپنے ٹیکس سے سالانہ 80ارب روپے پاکستان ریلویز کو دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم ان اداروں کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ اس ملک میں بہت زیادہ غربت ہے۔ کراچی ہی کو دیکھ لیں کہ جہاں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور نالے بہہ رہے ہیں۔ ایسے میں ہم اس خسارے کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے پی آئی اے کی نج کاری کی بات کی جا رہی ہے۔ جن بینکوں کی نج کاری کی گئی ہے، وہاں ملازمین کی تنخواہیں چار گنا تک بڑھ گئی ہیں۔ اگر ان خسارے میں چلنے والے اداروں کی بھی نج کاری ہو جائے، تو ان کے ملازمین کی تنخواہیں بھی کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ ہمیں یہ رقم تعلیم اور صحت کے شعبے میں خرچ کرنی چاہیے۔