• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں راول ڈیم کی رونگٹے کھڑے کردینے والی تازہ تصاویرمنظرعام پر آئی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جڑواں شہروں میں بسنے والوں کی پیاس بجھانے والا راول ڈیم آج خود پانی سے محروم ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق پانی کی سطح ڈیڈ لیول سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے، جہاں کبھی نیلگوں پانی کا دلکش نظارہ ہوا کرتا تھا آج وہاں حد نگاہ خشکی اور پتھر وں کا راج ہے، خشک زمین پر کھڑی کشتیاں گزرے ہوئے اچھے زمانے کی یاد میں نوحہ کناں ہیں تو سیروتفریح کی غرض سے آنے والے سیاح حیران وپریشان نظر آتے ہیں۔ راول ڈیم خشک ہونے سے ہندو مقدس کتاب رامائین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، روایت ہے کہ صحرائے تھرکسی زمانے میں ایک سمندر ہواکرتا تھا جسکا قدیمی نام لاوان ساگر (نمک کا سمندر)تھا، رامائین کے مطابق جب رام لنکا پر حملہ کرنے اپنے لشکر کے ہمراہ جارہے تھے تو انہوں نے اپنے آتشی ہتھیار سے ساگر کو خشک کردیا تھا، اسی طرح شہرقائد میں بھی پانی کی شدید قلت کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں،باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کیلئے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ حب ڈیم تیزی سے خشک ہورہا ہے ، واٹر بورڈ کے مطابق ڈیم میں پانی کی سطح صرف نو انچ رہ گئی ہے اور ڈیڈ لائن تک پہنچنے کی وجہ سے کراچی کے ضلع غربی اور وسطی کیلئے پانی کا ذخیرہ صرف دس روز تک کا ہے،انتظامیہ پانی ڈیڈ لیول پر پہنچنے کے خدشے کے پیش نظر پمپس لگا کر پانی کی فراہمی یقینی بنانےکی کوششیں کررہی ہے لیکن آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پمپس کے ذریعے بھی تین ہفتوں سے زیادہ پانی فراہم نہیں کیاجاسکے گا،ماہرین کے مطابق اگر بروقت بارشیں نہ ہوئیں تو جولائی کے آخری ہفتے میں شہریوں کو پانی کی فراہمی مکمل بند ہوسکتی ہے، حب ڈیم سے بلوچستان کو بھی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔پانی کا شمار انسان کی بنیادی ضروریات میںہوتا ہے، زمانہ قدیم سے انسان پانی کی تلاش میں دربدر بھٹکتا آرہا ہے، دنیا کے تمام بڑے قدیمی شہرسینکڑوں سال سے سمندروں کے کنارے آبادہیں، دور جدید میں بھی کوئی نئی بستی بساتے وقت پانی کی فراہمی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ بدقسمت ممالک میں کیا ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے، رپورٹ کے مطابق سال1951 ء میں پاکستان میں ہرشخص کوسالانہ 5260 کیوبک میٹرپانی کے دستیاب تھا جو حالیہ برسوں میں کم ہوتے ہوتے محض900 کیوبک میٹر فی شخص تک رہ گیا ہے، خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے پانی کے ذخائرپر بروقت توجہ نہ دی توآئندہ چند برسوں میں خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کی مجموعی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کم از کم 120 دن کاپانی ذخیرہ ہونا ضروری ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی اوسط ضروریات پوراکرنے کیلئے حکومتی حکمت عملی محض 30 دن کیلئے پانی ذخیرہ کرنے تک محدود ہے، دوسری طرف ہمسایہ ملک بھارت کے پاس اوسط ضرویات پوراکرنے کیلئے 220 دنوں کا پانی ذخیرہ ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو آزادی کے وقت سے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجہ میں کافی مسائل سے دوچار ہونا پڑا، دونوں ممالک کے مابین 1960ء میں ورلڈ بینک کو ثالث مقرر کر کے سندھ طاس کا معاہدہ طے پایا جس کے نتیجہ میں تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کاحق تسلیم کیا گیا جبکہ جموں وکشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کے زیادہ پانی کو پاکستان کے کنٹرول میں دے دیا گیا،گو کہ یہ معاہدہ آج بھی اپنے تمام تر خدشات کے ساتھ قائم ہے لیکن بھارت کی جانب سے دھڑادھڑ ڈیمز کی تعمیر پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت نے آبی وسائل پر قبضہ مستحکم رکھنے کیلئے کم و بیش 3200 ڈیم تعمیر کئے ہیں لیکن پاکستان نے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے 15میٹر تک بلند صرف 150ڈیم تعمیر کئے ہیں جنکی تعداد مطلوبہ ضرورت سے بہت کم ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو نئے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑاہے ،ملکی تاریخ میں جنرل ایوب نے 1961 ء میں پاکستان کے پہلے منگلا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا اور چھ سال کی قلیل مدت میں تعمیر مکمل کرلی گئی، بعدازاں تربیلاسمیت کئی دیگر چھوٹے ڈیمزاور چشمہ بیراج کا کام بھی شروع کر دیا گیا ، تربیلا ڈیم کو دنیا کے سب سے بڑے ارتھ فِلڈ ڈیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے، بلاشبہ ان ڈیمز کی بدولت پاکستان میں بڑی حد تک زرعی اور معاشی استحکام پیدا ہوا ،پانی ذخیرہ کرنے کا نظام قائم ہوا اور عوام کو سستی بجلی فراہم کی گئی۔کالاباغ ڈیم کا ایشو ہر دورِ حکومت میں وقفے وقفے سے اٹھتا آرہا ہے، کہا جاتا ہے کہ اسکا تعمیری منصوبہ جنرل ایوب کے دورحکومت میں تیار ہوا اور کام جنرل ضیا نے شروع کرایا، جہاں کچھ طبقات اس منصوبے کی افادیت بیان کرتے نہیں تھکتے وہیں مخالفین کالاباغ ڈیم کے حوالے سے سخت تنقید کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پانی کا مسئلہ کسی ایک علاقے تک محدود نہیں اور مستقبل میں پانی بحران کے گھمبیر نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑیں گے، ہمیں اس نازک موقع پر آپس کے اختلافات بھلا کر وطن عزیز کی خاطر مل بیٹھ کرمتبادل ذرائع تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ہمسایہ دوست ملک چین نے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے چھوٹے بڑے 87ہزار سے زائد ڈیم تعمیر کئے ہیں، چین نے پاکستان کوبھی متنازع منصوبے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے دریائے سندھ پر40 ماحول دوست گریوٹی ڈیم بنانے کی تجویز دے دی ہے جن سے بجلی کی پیداواربھی کالاباغ ڈیم کے مجوزہ منصوبے سے 14 گنا زیادہ یعنی پچاس ہزار میگا واٹ ہو سکتی ہے، اسی طرح داسو، دیامیر بھاشا اور منڈا ڈیمز کی تعمیر و توسیع کے حوالے سے قومی اتفاق موجود ہے۔ہمیں سمجھنا چاہئے کہ نئے ڈیمز کی تعمیر نہ ہونے سے پاکستان بہت تیزی سے آبی بحران کا شکار ہو رہا ہے اور راول ڈیم خشک ہونے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام، سول سوسائٹی اور میڈیا مشترکہ طور پر آئندہ تشکیل ہونے والی حکومت کو باور کروائے کہ خوابِ غفلت سے جاگ کر ہنگامی بنیادوں پر پانی کے وسائل کے تحفظ کیلئے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے، اگر اتنے اہم اور سنجیدہ معاملے پرارباب اختیار آنکھیں نہیں کھولتے اور ہمارے ڈیم ایک ایک کرکے خشک ہوتے چلے جاتے ہیں تو خدانخواستہ وہ دن دور نہیں جب ہم سب پاکستان میں بسنے والے پانی کی ایک ایک بوند کو ترسیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین