• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنا اور بقا کا مسئلہ ہمیشہ انسانی تحقیق اور غور وفکر کا اہم موضوع رہا ہے۔ بقول آئن اسٹائن انسان کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتا، اس حوالے سے ہمارا عقیدہ واضح ہے۔ ابہام صرف انہیں ہے جن کا ایمان متزلزل ہے۔ اس بات سے قطع نظر ذرا سوچئے کہ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کےنام ان کی زندگی ہی میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ ہوتے ہیں جو اپنے قدموں کے نشان تاریخ کے صفحات پر ثبت کر جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ زندہ رہنا اور موت کے بعد بھی زندہ رہنا ہر انسان کا خواب اور خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ دراصل فنا اور بقا اس کائنات کے دو رنگ اور دو متضاد پہلو ہیں۔ فنا انسان کا مقدر ہے اور رب کائنات نے اس سارے نظام کی بنیاد ہی فنا پر رکھی ہے۔ لیکن اس فنا میں ایک پہلو بقا کا بھی ہے۔ وہ بقا تھوڑے عرصے کے لئے ہو یا طویل عرصے کے لئے بہرحال اسے بھی ایک دن فنا ہونا ہے۔ آپ غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جس روز بقا فنا ہوگی دراصل وہ دن یوم حساب ہوگا اور یوم حساب تک فنا و بقا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ بھی ایک دلچسپ اور قابل غور معمہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے کا مقدر فنا رکھا ہے اور انسان کو شعور کی آنکھ کھولتے ہی علم ہوتا ہے کہ اسے بہرحال فنا ہونا ہے اور یہ کہ زندگی فانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان کی فطرت میں ایک جذبہ ہمہ وقت شمع بن کر روشن رہتا ہے بلکہ یوں کہئے کہ انسان کو مضطرب رکھتا ہے اور وہ جذبہ ہے بقا کا یعنی خالق حقیقی نے انسان میں خیر و شر کے ساتھ ساتھ بقا کی خواہش بھی رکھ دی ہے۔انسان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح فنا کو شکست دے لیکن وہ فنا کو شکست نہیں دے سکتا کیونکہ یہ امر ربی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بقا کے ذریعے امر ربی کی فنا کو شکست دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان یہ جانتے ہوئے کہ اسے ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے، دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی زندہ رہنے کی خواہش اور تدبیر کرتا ہے۔ یہی خواہش یا تدبیر انسان سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دلواتی ہے جو اسے مرنے کے بعد بھی لوگوں کی یادداشت یا تاریخ کے صفحات میں زندہ رکھتی ہے۔ چنانچہ انسان مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ غائب ہو کر بھی حاضر رہتا ہے اور اس کا ذکر یا اس کے کارنامے کا ذکر زندہ لوگوں کو گرماتا ہے۔ ان کی یادوں میں رشک کا گلاب بن کر خوشبو بکھیرتا رہتا ہےاور کبھی کبھی نشان منزل بذات خود منزل بھی بن جاتا ہے۔ میں جب انسانی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے دنیا کی عظیم ایجادات، تخلیقات، انسانی خدمت کی عظیم خدمات، قوموں کے مقدر اور حیات، عبادات ومجاہدات اور انسانی زندگی کی حیران کن کرامات کے پس پردہ بقا کا ہی جذبہ نظر آتا ہے، جسے قدرت پیدائش کے وقت انسان کی فطرت میں ودیعت کردیتی ہے۔ گویا جو لوگ اس جذبے یا انسانی فطرت کو دبا کر عام سطح پر زندگی گزارتے ہیںوہ گویا اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اشرف نہیں ہوتے۔ کیونکہ اشرف المخلوقات کی فطرت ہے فنا کوشکست دینا اور یہ شکست صرف بقا کے ذریعے ہی دی جاسکتی ہے۔
مختصر یہ کہ بقا انسانی جبلت کا جزو ہے لیکن بذات خود اس بقا کے دو حصے ہیں۔ ایک دنیاوی اور دوسرا روحانی۔ دنیاوی بقا کی تحریک سائنسی ایجادات، ذہنی، ادبی و غیر ادبی تخلیقات اور انسانی خدمات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور ہر تخلیقی سرگرمی کے لاشعور میں سرگرم نظر آتی ہے جبکہ روحانی بقا قرب الٰہی کے حصول کی خواہش کوجنم دیتی ہے اور عبادات و مجاہدات کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ دنیاوی بقا غورو فکر، گہرے مطالعے، تحقیق اور حد درجہ محنت کی متقاضی ہوتی ہے، جبکہ روحانی بقا ’’عشق‘‘ کی دین ہوتی ہے اور عشق کے ذریعے ہی سلوک کی منزلیں طے کر کے نصیب ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ عبادات و مجاہدات سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ کامل مرشد کی نگاہ کا تحفہ ہوتی ہے، لیکن اس میں دو شرطیں روحانی راہ کا سنگ میل ہیں۔ اول مرشد کا کامل ہونا، دوم دل و دماغ میں سچی خواہش کا روشن ہونا، کامل مرشد وہ ہوتا ہے جو اپنے محبی، طالب یا دنیاوی اصطلاح کے مطابق ’’مرید‘‘ کے احوال پر نگاہ رکھنے کا اہل ہو۔ اس کے معاملات سے باخبر رہے اور سچی خواہش وہ ہوتی ہے جس کی لگن انسان کو ہمہ وقت بیتاب رکھے۔ ہر وقت آنکھوں میں بسی رہے اور ذہن پر چھائی رہے۔ جب خواہش سچی بن جائے تو مرشد اس کی آبیاری کرتا، اس میں بیج بوتا اور فصل اگاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ساری منازل فقط ’’نظر‘‘ کی تابع ہوتی ہیں اور نظر ہی سے طے ہوتی ہیں۔ یہی نظر کا یا پلٹتی اور تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دیتی ہے اور ہاں یہ ساری باتیں کتابی نہیں بلکہ کتاب زیست کی حقیقت ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ان کو ملتی ہے جو سچی لگن سے اسے تلاش کرتے ہیں۔ ایک مرشد کامل کے پاس درجن دو درجن یا اس سے بھی زیادہ چاہنے والے حلقہ بگوش رہتے ہیں، لیکن مرشد کی ’’نظر‘‘ اسے ملتی ہے جس کا قلب سچی خواہش اور اخلاص سے منور ہوتا ہے یا جس کےقلب کی زمین بیج کے لئے تیار ہوتی ہے۔ باقی محروم رہتے ہیں اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر رحم آتا ہے جو روحانی بقا کو جھوٹ کہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اجالا دیکھا ہی نہیں اور وہ کیا جانیں روشنی کیا شے ہوتی ہے۔
میں کہہ رہا تھا فنا اور بقا قدرت نے انسانی فطرت میں ودیعت کردی ہیں اور یہ دونوں تحریکیں پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی میں سرگرم اور متحرک رہتی ہیں۔ دنیاوی بقا کے حوالے سے بڑے بڑے سائنس دان، بلب کی ایجاد سے لے کر ایٹمی قوت تک، ملیریا اور تپ دق سے لے کر کینسر کے علاج تک، بڑے بڑے شاعر، ادیب، فلاسفر، عالمی رہنما، قوموں کا مقدر بدلنے والے اور انسانوں کو پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں پر لے جانے والے وغیرہ وغیرہ اپنے شعبوں میں خدمات کے سبب تاریخ میں بھی زندہ ہیں، انسانی حافظے میں بھی موجود ہیں اور بڑے بڑے انعامات سے بھی فیض یاب ہو چکے ہیں۔ ان کے نام ان کے کام کی پہچان بن جاتے ہیں۔ ان میں کچھ ضرب المثل تو کچھ خود مثال بن جاتے ہیں۔ زندہ تھے تو لوگوں نے عقیدت کے پھول نچھاور کئے، حکمرانوں نے اعزازات بخشے، لکھنے والوں نے قصیدے لکھے اور مرگئے تو تاریخ کا حصہ بن گئے۔
روحانی بقا کے مسافر عام طور پر زندگی میں گمنام یا گوشہ نشین یا عوامی نظروں سے اوجھل رہے۔ عسرت اور غربت کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ہر لمحہ شکر و صبر کا عملی نمونہ بنے رہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہاتھوں سختیاں بھی برداشت کیں لیکن دنیا سے پردہ کیا تو حاکم بن کر لوگوں کے دلوں اور روحوں پر حکمرانی کرنے لگے۔ ان میں بہت کم تھے جنہیں زندگی میں پذیرائی ملی اور بہت بڑی اکثریت دنیاوی پذیرائی سے کنارہ کش رہی۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ منصف اور انصاف کرنے والا اور اجر دینے والا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو بندے اس کی راہ میں اور عشق میں زندگی گزار دیں اور عشق الٰہی میں اپنے آپ کو فنا کردیں، وہ انہیں اجر نہ دے اور کئی گنا زیادہ انعام نہ دے۔
یہاں تک لکھ چکا ہوں تو ایک واقعہ میرے ذہن پر زور زور سے دستک دے رہا ہے۔ کئی برس گزرے میں نے یہ واقعہ اولیاء کرام کے تذکروں کے حوالے سے لکھی گئی ایک کتاب میں پڑھا تھا پھر ایک ولی اللہ کی زبانی سنا تو تصدیق ہوگئی۔ حضرت صابرؒ کلیر شریف ایک عظیم روحانی ہستی تھے۔ کلیر شریف دہلی سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ آپ حضرت بابا فریدؒ گنج شکر کے بھانجے اور کامل ولی اللہ تھے۔ انتقال کا وقت قریب آیا تو وصیت کی کہ میری میت دفنانے کے لئے تیار کر کے جنازگاہ میں رکھ دینا۔ ایک گھڑ سوار آئے گا اور وہ میری نماز جنازہ پڑھائے گا۔ ان کی میت نہلا کر کفن پہنا کر رکھ دی گئی اورحاضرین انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں انہیں دور سے ایک گھڑ سوار نظر آیا۔ نزدیک آیا تو ان کے چہرے کو کپڑے نے اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ وہ گھوڑے سے اترے، نماز جنازہ پڑھائی اور پھر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے۔ جب وہ گھوڑے پر سوار ہورہے تھے تو چہرے سے کپڑا ایک طرف سرکا اور قریب کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ یہ خود حضرت صابرؒ تھے، ایسا ہی واقعہ حضرت باقی باللہؒ اور میاں شیر محمد شرق پوریؒ کے جنازے کا بھی ہے۔ وہ ان کی فنا تھی اور یہ ان کی بقا تھی۔ گویا سچی بقا عشق الٰہی میں فنا ہو کر نصیب ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں اور اسی طرح کھاتے پیتے ہیں۔

تازہ ترین