تعلیم کے روشن مستقبل،ہنر مند افرادی قوت اور تعلیم کی جانب مائل کرنے کے سہہ جہتی مقاصد کو یقینی بنانے کے لیے آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ(OECD (نے تعلیم و تدریس کا ایک فریم ورک پیش کیا ہے جس کے تحت والدین،اساتذہ اور طلبہ کے مابین تعاون و اشتراک قائم کرتے ہوئےعلم، ہنر ،برتاؤ اور اقدار کو پروان چڑھاتے ہوئے ایک ایسے عالمی معاشرے کو تشکیل دیا جائے گاجس کے رہنے والے تعلیم یافتہ،ہنر مند اور باکردار ہوں۔اس نسل کو ان تین طلسمی خوبیوں سے آراستہ کرنے کے لیے2030 ءکا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور او ای سی ڈی کے رکن ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے اس روشن مستقبل کے حصول کے لیے مل کر جدوجہد کرکے دنیا کے عوام کو تعلیم یافتہ، ہنرمند اورباکردار بنانے میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔پوری دنیا میں موجود آزاد ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے،جوسرکاری و نجی سطح پر پابند ہے کہ اس عالمی ہدف کے حصول کے لیےــ’’تعلیم یافتہ،ہنرمند ،باکردار پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرےگا۔
پاکستان اس عالمگیریت اور آزاد تجارت کا حصہ ہے جس کی زد میں ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کے عوام ہیں، ساتھ ہی ٹیکنالوجی کی تیز رفتار لہر کے باعث ہمیں کئی سماجی،معاشی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔نیز وہ قوتیں بھی موجود ہیں جو ہمیں انسانی ترقی کی جانب مائل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کےاپنے عزائم لیے ہوئے ہیں۔اس صورتحال میں ہمیں غیریقینی مستقبل کا سامنا ہے اور ہم پیش بینی نہیں کرسکتے کہ اگلا لمحہ کیا ہوگا۔تاہم ان خدشات و امکانات کو دیکھتے ہوئے ہم قبل از وقت منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔2018ء میں جو بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیےداخلہ لےرہے ہیں وہ2030ءمیں نوجوان بالغ خواتین و حضرات میں شمار ہوں گے۔اسکول جو تعلیم دے رہے ہیں وہ ہمیں ملازمت کی ضمانت فراہم نہیں کرتے۔ٹیکنالوجی کے بطن سے نکلنے والی ایجادات ہمارے بڑھتے مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ایسے میں یہ ہماری مشترک ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم سے روشناس کرائیں جو انہیں علم کے ساتھ ہنرمند بناکر روزگار کی ضمانت دے اور ان کےرویوں اور اقدار کو پروان چڑھاکر انہیں خوشگوار،سلیقہ مند، مہذب اور باکردار فرد کی صورت میں اجاگر کرتے ہوئےمل جل کر کام کرنے کا ماحول مرتب کرے۔ان اہداف کے حصول کے لیے آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ(OECD) نے’’دی فیوچر آف ایجوکیشن اینڈ اسکلز2030ء پروجیکٹ ‘‘ شروع کیا ہے،جس کے بنیادی اہداف میںبین الاقوامی نصاب کو تبدیل کرکے اسے معلومات کے بوجھ کے بجائےاہم نکات پر مرتب کرتے ہوئےدوستانہ ماحول میں معیاری تدریس کے وقت کو بڑھایا جائے۔معلومات کو اس انداز سے ترتیب دیا جائے کہ فیصلہ سازی، تنقیدی سوچ اور تخلیقی ذہانت کو بڑھانے میں مدد ملے۔یہ تعلیم عملی مظاہرے یعنی اورینٹیشن پر مبنی ہے، نہ کہ نسخہ جات اور تصورات پیش کرکے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم نے اپنا کام مکمل کردیا۔
مستقبل کی اس تعلیم کا نصاب بنیادی طور پر ہمیں درپیش ماحولیاتی،سماجی اور معاشی چیلنجز کا ادراک کرنے کے لیے مرتب کیا گیا ہے،جس کی تیاری میں تمام ممالک کی حکومتوں کے نمائندوں،شراکت داروں بشمول ادراک و تخیل پیش کرنے والے رہنماؤں،ماہرین، اسکول نیٹ ورکس،اسکول لیڈرز، اساتذہ،اسٹوڈنٹس،یوتھ گروپس،والدین، یونیورسٹیز،مقامی تنظیموں اورسماجی شراکت داروں کا تعاون اور مشترکہ تجاویز شامل ہیں۔تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں ہمارے سامنے پہلا چیلنج ماحولیات ہے،جس کے تحت ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اوربدلتے موسم کا شعور اجاگر کرنے کے لیےہمیں طالب علموں کو فوری اقدام کی جانب گامزن کرنا ہوگا۔ دوسرا چیلنج معاشی ہے، جس کے تحت ہمیںسائنسی معلومات کو نئے مواقع سے منسلک کرتے ہوئے معیشت پر مبنی علم کو فروغ دینا ہوگا تاکہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جاسکیں۔
بڑھتی مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی کے بے پناہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں بہتر اور محفوظ زندگی کے لیےسماجی، معاشی اور ادارہ جاتی ماڈلز بنانے ہوں گے۔مقامی و بین الاقوامی طور پر معاشی انحصار کو کم کرنے کے لیے ہمیںگلوبل ویلیو چین اور شیئرڈ اکانومی کو مرتب کرتے ہوئے خسارے کے امکانات کو کم کرنا ہوگا۔تیسرا چیلنج سماجی ہے کہ دنیابھر میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ساتھ ہی نقل مکانی اورشہریت نے ممالک کی ثقافتوں اور سماجی روابط کو تبدیل کردیا ہے۔دنیا کے بڑے حصے میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔اس لیے مساوی مواقع کی تخلیق کے لیے ہمیں قوم پرستی و نسل پرستی اور علاقائیت کو مسترد کرتے ہوئے ایسی عالمی کمیونٹی کو وضع کرنا ہوگا جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساجھے دار ہوں،اس ضمن میں مذہبی رواداری، بھائی چارے اور ہم آہنگی کی فضا کو بڑھانے کے لیے ہمیں طالب علموں کے درمیان رویوں، برتاؤ،سلوک اور اقدار کو بہتر بناتے ہوئے ان کی اخلاقی تربیت کو فوقیت دینا ہوگا۔انفرادی و اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرنا ہوگا۔پاکستان میں اسکلز ڈیولپمنٹ پروگرامز اور ووکیشنل ٹیکنیکل ایجوکیشن کو اس ہمہ گیر پروگرام سے منسلک کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کیےجاسکتے ہیں۔