• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارسطوکی مختصر کہانی

مشہور فاتح سکندرِ اعظم نے اپنے استاد ارسطو کی تعریف میں کہا تھا، ’’ارسطو زندہ رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے مگر ہزاروں سکندر مل کربھی ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے۔‘‘ وہ مزید کہتا تھا، ’’میر اباپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر میرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘ سکندرِ اعظم کا باپ فیلقوس مقدونیہ کا بادشاہ اور اس کی ماں اولمپیا س وہاں کی ملکہ تھی۔ بادشاہ خاک نشین ہوا تو اس کی عمر 47برس تھی ۔سکندرِ اعظم جب تخت نشین ہو اتو وہ اس وقت محض 20سال کا تھا۔ سکندر نوجوان تھا اور حکمرانی کے تجربات سے نابلد،جس کی وجہ سےاس کی جہاں دیدہ ماں نے ارسطو جیسے استاد کو محل میں طلب کر لیا۔ ارسطو نےسکندرِ اعظم کو سبق دیاکہ’’ہر انسان خدا کا بندہ ہے اورہر کسی کو باعزت زندگی گزارنے کا پیدائشی حق حاصل ہے۔‘‘ ارسطو نےسکندرِ اعظم کو بہترین قیادت اور فن تقریر کے گُر سے بھی روشناس کروایااور اس نے استاد کے سنہری اصولوں کو کبھی فراموش نہ کیا۔

مختصر سوانح

ارسطو384 قبل مسیح میں مقدونیہ کے علاقے استاگرہ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ شاہی دربار میں طبیب تھا۔ ارسطو نے ابتدائی (طب، حکمت اور حیاتیات کی) تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ وہ بچپن ہی میں اپنی والدہ کے سائے سے محروم ہو گیا۔ دس برس کا ہوا تو باپ کا بھی انتقال ہو گیا۔ 18 سال کی عمر میں وہ ایتھنز چلا گیا جو اس وقت علم و حکمت کا مرکزتھا۔ یہاں وہ37 سال کی عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اسے اپنے استاد افلاطون کے خیالات میں تضاد اور طریق تدریس میں کجی نظر آئی، جسے اس نے اپنی تحریروں میں بھی موضوع بنایا ہے۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے مدینۃ الحکمت کی بنیاد ڈالی جہاں اس نے نظری و کلاسیکی طریقہء علم کے بجائے عملی اور عقلی مکتبِ فکر کو فروغ دیا۔ عمرکے آخری حصے میں ارسطو کےاپنے شاگرد سکندرِ اعظم کے ساتھ اختلافات اور پھر اس کی موت کے بعد سورشوں نےاسے یونان بدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ یوں ارسطو کا خالکس میں 7 مارچ 322 قبل مسیح میں انتقال ہوا۔

بعد ازافلاطون

بارہویں صدی عیسوی سے قبل افلاطون دنیا کا بہت بڑا فلسفی اور معلم تسلیم کیا جاتا تھالیکن بعد میں فکر کے ہر دائرے میں ارسطو آخری سند تسلیم کیا گیا۔ ارسطو کے باپ کو تشریح اعضاء اور علمِ حیوانات سے بے حدشغف تھا، بیٹے نے بھی ابتدا سے انہی علوم میں دلچسپی لی۔ بڑے بڑے فلسفیوں کی طرح وہ اپنی علمی تحقیقات میں بہت زیادہ باریک بین اور محقق تھا۔ ارسطو اگرچہ شاہ امینتاس کے پوتے سکندرِ اعظم کا اتالیق مقرر ہوگیا تھا لیکن حکیم اور عالم ہونے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ نامور رہا۔17 سال کی عمر میں ارسطو، افلاطون کا شاگردبنا اور بیس برس تک (یعنی افلاطون کے انتقال تک) اس کے علم سے فیضیاب ہوتا رہا۔ اس کے بعد ارسطو12 سال تک یونان میں گھومتا پھرتا اور تعلیم دیتا رہا۔ جب سکندرِاعظم مقدونیہ کا بادشاہ بنا تو ارسطو ایتھنز واپس آگیا اور یہاں اس نے فلسفہ کا وہ مدرسہ قائم کیا جسے مشائیوں یعنی ٹہلنے والوں کا مدرسہ کہا جاتاہے۔ اس مدرسے میں استاد اور شاگرد ایک طویل راستے پر ٹہلتے ہوئے تعلیم دیتے اور تعلیم حاصل کرتے تھے، اس لیے اس کومکتبِ مشائین کہا جاتا تھا۔اگرچہ ارسطو نے ایک مثالیت پسند استاد یعنی افلاطون سے تعلیم حاصل کررکھی تھی مگروہ خود حقیقت پسند فلسفی تھا۔ اس نے حیاتیات اور نفسیات کے متعلق ایسی بنیادی معلومات مہیا کیں جو دو ہزار سال کے سائنسی امتحانات کے بعد بھی صحیح ثابت ہوئیں۔ حکومت و ریاست کے متعلق ارسطو کا شغف اس قدر زیادہ تھا کہ اس نے ریاستوں اور شہروں کے آئین پر کم سے کم 157 رسالے لکھے۔ افسوس کہ یہ رسالے گزشتہ صدیوں میں کہیں ضائع ہوگئے۔ صرف دستورِ ایتھنز کا رسالہ افتادِ زمانہ سے محفوظ رہا۔

علمی کاوشیں

ارسطو کو عملی طبیعیات، ہیئت اور حیاتیات میں ملکہ حاصل تھا اور یہی چیز اسے سابق فلسفیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ پہلا عالم تھا جس نے علمی اصطلاحات وضع کیں، منطق کو باقاعدہ علم کا درجہ دیا اور سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔ اس کی قائم کردہ اکیڈمی عرصہ دراز تک مرکز علم و فن رہی۔

ارسطو کے بنیادی نظریات

ارسطو قدیم یونان کا عظیم فلسفی، سائنسدان، ریاضی دان، استاد،محقق اور مصنف تھا۔ اس کی تحریروں کے موضوعات فزکس، ما بعد الطبیعات (Metaphysics)، شاعری، تھیٹر، موسیقی، منطق، فن بلاغت، فن لسانیات، سیاسیات، حکومت، اخلاقیات، حیاتیات اور حیوانیات تھے۔اس کے چند اقوال پیش خد مت ہیں:

خدا ایک نادیدہ مقناطیسی قوت ہے جو ہر شے کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ حرکت دراصل اسی کشش کا نتیجہ ہے جو زندگی کا مؤجب ہے۔

خدا بے نیاز ہے، وہ اپنی نمود و نمائش سے مبرا ہے۔

انسان کا شرف و اختصاص، اس کی قوت،عقل اور فکر میں مضمر ہے۔

کامل انسان اشرف المخلوقات بن جاتا ہے اور منتشر و شریر ہو تو ارزل المخلوق۔

اعتدال بہترین راستہ ہے۔

تازہ ترین