• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فارمیسی‘‘ علم طب کی منفرد اور اہم شاخ

’’فارمیسی‘‘   علم طب کی منفرد اور اہم شاخ

کہا جاتا ہے کہ خدا کے بعد ڈاکٹر ہی ہےجو روئے زمین پر مریض کی جان بچاتا ہے۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ڈاکٹر کسی انسان کی جان بچانے میں سب سےاہم کردار ادا کرتا ہے لیکن کیا کوئی ڈاکٹر کسی مریض کی جان صرف چیک اپ کرکےبچا سکتا ہے ؟ نہیں نا! کیونکہ کوئی بھی ڈاکٹر کسی بھی مریض کے علاج کے لیے دوائیں تجویز کرتا ہے اور دواؤں کی تیاری کا عمل علم طب کی ایک اہم اور منفرد شاخ سے جڑاہےجسے علم الادویات یا فارمیسی کہا جاتا ہے ۔

جس طرح ایک ماہر ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرتا ہے،اسی طرح ایک ماہر دواساز ( فارماسسٹ) مریض کے لیے دوا تیارکرتا ہے۔ دوا کی تیاری کے لیےاجزا ءکا انتخاب، خواص و اثرات،ان کی تحقیق، مرکب دوا کی صورت میں مختلف اجزا ء کا تناسب، مرض کی نوعیت کے پیش نظر دواؤں کی دستیابی، دواؤں کی تقسیم، اسپتالوں، شفا خانوںیا ذخیرہ گاہوں میں انھیں ذخیرہ کرنے کا علم یہ تمام طب کے منفرد ترین شعبے فارمیسی کے زمرے میں آتے ہیں ۔پاکستانی طلباء کی ایک بڑی تعداد ایم بی بی ایس کے علاوہ فارمیسی کی ڈگری حاصل کرنے میں بھی دلچسپی لینے لگی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال اوسطاً600 امیدوار بی فارمیسی کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ ملک میں کئی ہزاررجسٹرڈ فارماسسٹ موجود ہیںاورایک ماہر فارماسسٹ بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا کہ ایک ڈاکٹر۔اگرچہ ہمارے یہاںکچھ عرصہ قبل فارماسسٹ کے کردار کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا تاہم اب اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔

ہم عام طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک طالب علم میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد فارمیسی کے شعبے میں داخلہ لیتا ہے لیکن ہم یہ کیوں نہیںمانتے کہ دواساز (فارماسیوٹیکل) اداروں کے بنا کوئی بھی معاشرہ ایک صحت مند معاشرہ نہیں کہلاسکتا ۔کوئی بھی ڈاکٹر فارماسیوٹیکل اداروں کے بغیر مریض کا علاج شروع نہیں کرسکتا ۔فارمیسی کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے بیمارانسانیت کی خدمت کرنا اور صحت مند معاشرے کےقیام میں اپنا کردار ادا کرناطب کے اس مفید، عام اور باوقار پیشے کا اہم حصہ ہے۔مغربی ممالک میں ایک فارماسسٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر مریض کے چیک اپ کے بعد مرض کی تشخیص کرتا ہے،مگر اس کی دوا ایک فارماسسٹ تجویز کرتا ہے کہ متعدد دوائیوں میں سے کون سی دوا مریض کے لیے زیادہ مؤ ثر ثابت ہوگی۔ دوسری جانب ادویات کی روزبروزبڑھتی اہمیت کے باعث دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک کے ساتھ کئی چھوٹے ملکوں نے بھی اپنے نظام میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔ سری لنکا ، بنگلہ دیش ، کوریا، ساؤ تھ افریقہ، میکسیکو، بوٹسوانا اور کیوبا تک نے اپنی قوم کو محفوظ بنانے کے لئے ادویات کو WHOکی تجاویز کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

اگر بات کی جائے فارمیسی کی تعلیم کی تو ملک بھر کی مختلف جامعات ایم بی بی ایس کی طرح طلبہ کو فارمیسی کی تعلیم بھی فراہم کرتی ہیں، جہاں بی فارمیسی میں داخلے کے خواہش مند طلبہ پری میڈیکل میں انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد بیچلر آف فارمیسی میں داخلے کے اہل ہوجاتے ہیں ۔طلبہ کی سابقہ ڈویژن کے پیش نظر اے، بی اور سی کیٹیگری میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ بیچلر آف فارمیسی کا نصاب چار سال میں مکمل ہوتا ہے، اس چار سال کے عرصے میں طلبہ کو علم الادویہ، خواص الادویہ ،حیاتی کیمیا، شماریات،سماجیات، علم دوا سازی، ریاضی، فعلیات، ادویاتی کیمیادواشناسی یا خواص الادویہ اور دیگرروایتی مضامین پڑھائےجاتے ہیں۔بی فارمیسی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس شعبے میں مزید تعلیم (ماسٹرز ان فارمیسی ، پی ایچ ڈی اِن فارمیسی) حاصل کرنے کےلیے بیرون ملک بھی اپلائی کیا جاسکتا ہے۔

آپ نے فارمیسی میں داخلہ شوق و جذبے کے ساتھ لیا ہو یا پھرمیڈیکل انٹری ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد، اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں،اگر کوئی بات اہمیت رکھتی ہے تو بس یہ کہ فارمیسی کی ڈگری حاصل کرنے والا ایک فارماسسٹ مختلف شعبوں میں کیسے کام کرسکتا ہے۔ فارمیسی کی ڈگری لینےکے بعد جن شعبوں میں آپ اپنے کیریئر کا آغاز کرسکتے ہیں ان میں کمیونٹی فارماسسٹ، اسپتال فارماسسٹ، انڈسٹریل اینڈ ریسرچ فارماسسٹ، ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ،کوالٹی کنٹرول ،پروڈکشن مارکیٹنگ وغیرہ شامل ہیں ۔یہی نہیں آپ کے پاس ذاتی کاروبارکرنے کے بھی کئی مواقع موجود ہیں۔اگر ایک فارماسسٹ چاہے تو ادویات کااسٹو ر(فارمیسی)قائم کرسکتا ہے۔

چونکہ دوا ساز ادارے اپنی مصنوعات پر اچھا کمیشن دیتے ہیں اس لیے اس شعبے میں کامیابی اورمنافع بخش آمدنی حاصل کرنےکے امکانات بھی وسیع ہوتے ہیں۔ یہ شعبہ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کا ضامن ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے مسائل ،آلودگی اور بیماریوں نے جہاں دنیا بھر میں داکٹروں کی ڈیمانڈ میں اضافہ کیا ہے، وہیں فارماسسٹ کی ڈیمانڈ بھی بہت بڑھ گئی ہے۔

تازہ ترین