• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مونٹیسوری طریقہ تعلیم

آج ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے بچوں کو مونٹیسوری طریقے کے تحت تعلیم دلوائےلیکن اکثریت نہیں جانتی کہ یہ طریقہء تعلیم کب اورکہاں سے رائج ہوا، اسی لئےآج ہم ڈاکٹر ماریہ مونٹیسوری کی کہانی بیان کرتے ہیںجن کے نام پر یہ طریقہ ءتعلیم دنیا بھر میں رائج ہے۔

ماریہ مونٹیسوری 31 اگست 1870ءکو اٹلی میں پیدا ہوئیں، ان کے والد ایک اکائونٹنٹ جبکہ والدہ تعلیم یافتہ ہونے کےساتھ مطالعہ کی دلدادہ تھیں۔ ماریہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں- جس ملک میں عورت کو گھر کی زینت یا استانی کے علاوہ کسی اور روپ میں ڈھلنے کی اجازت نہیں تھی، وہاں انھوںنے اپنے وقت کے ماحول، نظام، روایات اور سب سے بڑھ کر اپنے والد کی سوچ کے خلاف سب سے بڑا جہاد کیا ۔ انھوں نے 26سال کی عمر میں اٹلی کی پہلی خاتوں ڈاکٹر بن کر دکھایا۔ انھیں ہر قدم پرصنفی بنیادوں پر تعصب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی انہوں نے ہار نہ مانی۔ ڈاکٹر بننے کے بعد انھیں ذہنی طور پرمعذور بچوں کے ادارے میں ملازمت دے دی گئی- جہاں انکی فطرت میں چھپے انسانیت کے جذبے نے انھیں ان معذور بچوں پر تحقیق کی راہ دکھائی- انھوں نے اس وقت تک کے مشہور نفسیاتی معالجوں کی تحقیقات کا مطالعہ کیا اور ان میں سے دو فرانسیسی نفسیات دان، ڈاکٹر ژان اٹارڈ اور ایڈورڈ سیگن کے کام سے بہت متاثر ہوئیں-

ڈاکٹر ژان اٹارڈ ذہنی طور پر معذور ، گونگے اور بہرے بچوں کے معالج تھے، جنھوں نے ایوران (Averon) نامی بچے کے علاج سے شہرت پائی- یہ بچہ کئی سال اکیلا جنگلات میں زندگی گزارتا پایا گیاتھا، اٹارڈ نے اسے انسانی ماحول اور طرز زندگی سکھانے پر کئی سال صرف کیے- ایڈورڈ سیگن نابینا لوگوں اور ذہنی معذور بچوں کے معالج تھے- انہوں نے بچوں کو 11 سے 19اور21 سے 99 تک گنتی سکھانے کے لئے دو بورڈ تخلیق کیے جنھیں ماریہ مونٹیسوری نے اپنے مونٹیسوری مٹیریل میں شامل کر لیا اور جسے آج ایک سو پینتیس سال بعد بھی اسی طریقے سے مونٹیسوری کے تعلیمی نظام میں استعمال کیا جاتا ہے- ڈاکٹر مونٹیسوری کی انتھک اور مسلسل محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذہنی طور پر معذور، نابینا اور گونگے بہرے بچوں کا رزلٹ نارمل بچوں کے برابر آیا، جس سے ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر معذور بچوں کا ذہنی معیار یہ ہے تو پھر نارمل بچے اس سے بھی زیادہ بہترین نتائج دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ان منفی عوامل پر تحقیق شروع کی جو نارمل بچوں کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہو رہے تھے- ان کی تحقیق سے اس وقت بہت اختلاف کیا گیااور با لآخر انھیںاکیلے ہی تحقیق پر کام کرنا پڑا- ماریہ مونٹیسوری دنیا کی واحد خاتون ہیں جنہوں نے بچوں کی سوچ اور مزاج کے مطابق انکی الگ دنیا بنانے کا خیال پیش کیااور اس پر عمل بھی کیا۔ 1907ءمیں37سال کی عمر میں دنیا کے پہلے’’بچوں کے گھر‘‘کی بنیاد رکھی- انہوں نے اٹلی کے ایک بہت ہی پسماندہ علاقے میں، غریب اور مفلوک الحال گھرانوں کے بچوں کے لئے(جن کے ماں باپ دو وقت کی روٹی کے لئے ملازمتیں کرتے اور بچوں کو اکیلا چھوڑ جاتے تھے) بہترین صفائی ستھرائی اور تہذیب یافتہ ماحول فراہم کیا- وہاں بچوں کے نہانے، بال بنانے، صاف کپڑے پہننے اور میز پر ادب سے بیٹھ کر امراء کے بچوں کی طرح کھانا کھانے کے تمام انتظامات موجود تھے- بچوں کو ہر قسم کی آزادی تھی اور کوئی روک ٹوک نہ تھی- انکی قدرتی یا فطرت کے مطابق تعلیم کے لئے ڈاکٹرماریہ مونٹیسوری نے مختلف مٹیریل بھی ترتیب دیے-

مونٹیسوری طریقہء تعلیم کیا ہے ؟

مونٹیسوری طریقہء تعلیم میں ٹیچر بچوں کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھانے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر اور ان میں شامل ہوکر انھیں ایک مرتب کردہ طریقے کے مطابق کھیل اور دیگر مشاغل میں مصروف رکھتا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ بچوں کو خود حرکت و عمل(ایکٹیویٹی) کا موقع دیا جائے اور انھیں ان کے اپنے ماحول کے مطابق کھیل، کھلونوں اور دیگر معاون اشیاء سے’’سیکھنے‘‘ کا موقع فراہم کیا جائے۔ مونٹیسوری طریقہء تعلیم کے مطابق بچوں کو رٹا نہیں لگوایا جاتابلکہ ان کو ہر چیز ذہن نشین کروائی جاتی ہے۔ ہر چیز کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتاہے۔

پہلا سبق: چیز، فعل یا صفت کا نام بتانا اور یاداشت کو قائم کرنا

دوسرا سبق: یاداشت کو دہرانا

تیسرا سبق: یاداشت کو جانچنا

اس طریقۂ کار کی خصوصیات یا احتیاط ذیل میں درج ہیں

1۔ چھوٹے بچے کا ذہن متضاد اشیاء کو جلدی جذب کرتا ہے- اسے جو بھی چیزیں یا صفت متعارف کرائی جائے وہ ایک دوسرے کے برعکس یا متضاد ہوں- مثال کے طور پر سرخ رنگ کے ساتھ گلابی یا نارنجی رنگ سکھانے سے بہتر ہے کہ نیلا یا پیلا رنگ سکھایا جائے- مثال کے طور پر بنگلہ دیش اور جاپان کا جھنڈا ایک جیسے ڈیزائن کا ہے جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے جھنڈوں کے رنگ ایک جیسے ہیں، توبچے کے لئے پاکستان اور جاپان کے جھنڈے کے بارے میں سیکھنا آسان ہوگا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے رنگ اور ڈیزائن میں فرق رکھتے ہیں-

2۔ شروع میں صرف دو یا تین چیزیں یا خصوصیات متعارف کرائی جائیں-

3۔ ایک وقت میں کسی بھی چیز کی بس ایک ہی معلومات فراہم کی جائے مثلاً چھوٹا اور بڑا، ہلکا اور بھاری، وغیرہ-

4۔ اس طریقۂ کار کے دوسرے سبق کو وہاں سے شروع کریں جہاں پہ پہلا سبق ختم ہوا تھا اور تیسرے سبق کو وہاں سے شروع کریں جہاں دوسرا سبق ختم ہوا تھا- یہ بالکل اسی طرح کا عمل ہے جیسے اگر کوئی چیز کھو جائے تو ڈھونڈنے کا سلسلہ آخری یادداشت سے ہی شروع کیا جاتا ہے-

5۔ ٹیچر اپنے لہجے کو سکھانے کےانداز میں ڈھالے-

6۔ٹیچر کو ضرورت کے مطابق الفاظ اور حرکات کا چناؤ کرنا چاہیے-

7۔ ہر تعارف اورسوال کے بعد دو سےتین سیکنڈ کا انتظار کرنا چاہئے۔ 

تازہ ترین