• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیکنالوجی نے تعلیم و تدریس کے انداز بدل دئیے

ٹیکنالوجی انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہورہی ہے، اس حد تک کہ اس کی گرفت ہمارے ہاتھوں سے بھی باہر آچکی ہے۔اب ہمیں اپنی ہی ایجادکردہ روبوٹ اور کمپیوٹر سے کہیں فزوں تر تخلیقیت کے دور میں جینا ہوگا جس کی نوید علی بابا ڈاٹ کام کے سی ای او جیک ما نے اس تقریر کے دوران دی جب انہیں ایک اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔انہوں نے کہا کہ بہر کیف یہ دور Creativity یعنی تخلیقیت کا ہے جہاں منفرد اذہان ہی اپنا وجود سہار سکیں گے۔اب ہمیں تعلیم و تدریس کے لیے زیادہ اسمارٹ بننا ہوگا ۔ ناخواندگی کا اب کوئی عذر نہیں رہا !آج بات ہے اپنی دلچسپی و ادراک کی۔تو آئیے ٹیکنالوجی کے اس سفر کی تقویم ملاحظہ کرتے ہیں جب ٹیکنالوجی نے اپنے انداز اور خد و خال تبدیل کردئیے

2014

اسٹیلر یونیورسٹیز کی جانب سے آن لائن فری کلاسز کے لیے میسیواوپن آن لائن کورسز متعارف کرائے گئے،جس سے ای لرننگ کی ساکھ اور اہمیت میں اضافہ ہوا،تاہم ایک ساتھ کئی طلبہ و طالبات کی تدریس کا یہ عمل خاصا مشکل رہا جسے اب مصنوعی ذہانت اورہولو گراف ٹیکنالوجی سے حل کرنے کی نوید سنائی جارہی ہے۔اسی برس سیکھنے کے ٹولز کا تجربہ کیا گیا جس کے مثبت اثرات نے اسکولوں میں سیکھنے کے عمل کو تیز کیا۔

2015

کمپیوٹر پر مبنی امتحانات کے تعارف سےتعلیمی قابلیت کا جائزہ لیا گیا۔اس طرح کچھ پائلٹ پروگراموں میںلرننگ اسٹیمولیشنز کو براہ راست تدریس کی جگہ شروع کیا گیا۔تیسری جہت کھیل کھیل میں تعلیم جیسی ایپس کی صورت سامنے آئی جس کے تحت موبائل پر پروجیکٹ یونٹس پر مبنی تعلیم و تدریس کےسلسلے نے جنم لیا۔کچھ جگہ تدریسی کتابوں کو ایپس میں شامل کیا گیا جیسے ہمارے ہاں سندھی کی نصابی کتاب کو کھیل کھیل میں تعلیم کا تفریحی اور مسحور کن حصہ بنایا گیا۔

2018

رواں برس سرمایہ دارممالک کی جانب سے یہ مشترکہ سعی سامنے آئی کہ خواندگی کی ابتدائی عادتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔یہ نئی حکومت کے پروگراموں کی ابتداء ہے،جس کے تحت اسٹارٹ اپس،انٹرپرینوئرز،ایپ ڈیویلپرز اور دیگر نجی شعبے کے اختراع سازوں کی خدمات لیکر خواندگی اور تعلیمی پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔پاکستان بھی انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے اپنی خواندگی و تعلیم کی شرح کو بڑھا سکتا ہے۔کچھ تعلیمی اداروں میں اکیڈمک لٹریسی کی جگہ ڈیجیٹل لٹریسی اپنی جگہ بنا رہی ہےجب کہ تیسری لہر اوپن سورس لرننگ ماڈلز کی صورت اس نعرے تلے ابھر رہی ہے کہ تعلیم پر کسی کی اجارہ داری نہیںہے۔ تعلیم تک رسائی سب کے لیے کھلی ہونی چاہیے۔اس کی نمایاں مثال کورسیرا ہے جس نے بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے تعاون سے آن لائن کورسز کی تدریس میں انقلاب بر پا کردیا ہے۔چوتھی پر زور لہر ریاست ہائے متحدہ امریکا سے ابھری ہے جہاںکامن کور تحریک کے تحت نصاب کو متن اور مواد کے بجائے بین التعامل اور مربوط بحث و تمحیص پر مبنی ہونا چاہیے اور پرانا فرسودہ نظام تبدیل ہوناچاہیے جس میں طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے ماضی کی کہانیوں اور ایجادات تک محدود کیا جاتا ہے۔اب تعلیم کو فلم کے جیتے جاگتے تجربے سے مدغم کرکے تدریس کو عملی تجربے کی صورت دینی ہوگی۔اسی تحریک کے اثرات سے اب امریکی اسکولوں میںاعداد و شمار پر مبنی مواد اور متن کی جگہ تصویری مواد لے رہا ہے تاکہ طالب علموں کی علم تک فوری رسائی ہو۔

2020

اس سال کلاؤڈ پر مبنی تعلیم کی حکمرانی ہو گی جس سے طالب علموںکی تحقیقی مواد کے بارے میں تبادلہ خیال سے راہیں کھلیں گی ۔وہ زیادہ مؤثر انداز میں ڈیٹا شیئر کر سکیں گے۔زیادہ وژوئل اسسمنٹ سے بہترنتائج سامنے آئیں گے۔بغیر کسی تار کے اسکولوں سے روابط پروان چڑھیں گے۔اسکول تھنک ٹینکس کا کردار ادا کرتے ہوئے صاف پانی، براڈ بینڈ تک رسائی،انسانی اسمگلنگ اور مذہبی عدم برداشت جیسےمقامی و عالمی چیلنجز پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔اسی برس خاندانوں کے لیے روایتی تعلیم کے حصول میںخودکار انداز میں کام کرنے والے لرننگ اسٹوڈیوز کا رواج ہوگا۔

2024

اس سال کئی تبدیلیاں در آئیں گی۔ثقافت کسی خطے تک محدود نہ ہوگی بلکہ سماجی تدریسی تجربہ ہوگاجس میں غربت، نسل پرستی ،زبان جیسے مسائل کی تفہیم زیادہ واضح ہوگی ۔کلاس روم میں موبائل لرننگ کا دور دورہ ہوگا اور بالمشافہ ای لرننگ زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود ہوگی۔

2028

اسے آپ بائیومیٹرکس کا سال جانیے جو اساتذہ و طالب علموں کے لیے رئیل ٹائم لرننگ فیڈ بیک ہوگی۔تدریس کی ہمہ گیر اشکال اسکولوں کو ختم کر دیں گی اور سیلف لرننگ عروج پرہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین