اب یہ بات تو یقینی لگتی ہے کہ 25 جولائی کو انتخابات ہو جائیں گے لیکن اس پہلو کے حوالے سے بے یقینی بڑھ رہی ہے کہ کیا انتخابات واقعی غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور آزادانہ ہونگے؟ کیا انکے نتائج پر تمام جماعتیں یقین کر لیں گی؟ کیا انکی ساکھ پر کوئی سوال نہیں اٹھے گا؟ اور کیا انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کے بجائے ہم بے یقینی اورانتشار کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے؟ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بڑے یقین اور وثوق کیساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ انتخابات میں دو یا تین ماہ کا التوا طے پا چکا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عمران خان التواکی منظوری دے چکے ہیں۔جبکہ آصف زرداری نے جواب کیلئے کچھ وقت مانگا ہے۔ ممکن ہے کہیں پر ایسی اسکیم بن رہی ہو لیکن ان قیاس آرائیوں کی تصدیق بہت مشکل ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کی سیاست ہمیشہ بے یقینی کی گرفت میں رہتی ہے اسلئے یہاں اس طرح کی افواہ یا پیش گوئی پر یقین کرنے والے بھی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ التواکی بات کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ چونکہ یہ طے پا چکا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سے دور رکھا جائے اس لئے انتخابات کو دو تین ماہ تک ملتوی کر کے مزید ایسے" انتظامات" کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی مشکل بنا دی جائے۔ اب تک کئے گئے اقدامات زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے ، جس کی وجہ سے 25 جولائی کے انتخابی نتائج "غیر تسلی بخش" بھی ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف کو ایک معمولی الزام پر وزارت عظمیٰ سے نکالا گیا۔ انہیں تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔ پھر پارلیمنٹ کے قانون کو کا لعدم قرار دیتے ہوئے پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا۔ پھر ایسے ریفرنسز میں الجھا دیا گیا کہ شاید اب تک وہ سو پیشیاں بھگت کر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بننے کیلئے اہل ہو چکے ہیں۔ ان ریفرنسز کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ انہیں سزا دے کر جیل بھیج دیا جائے گا۔ ادھر مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کا قافیہ تنگ کر دیا گیا ہے۔درجنوں مسلم لیگیوں کو نیب مقدمات میں الجھایا جا چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے بغاوت کرنے والے سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان نے تین دہائیوں پر مشتمل سیاست کے دوران اپنے موروثی حلقے سے کسی کو سر نہیں اٹھانے دیا۔ غالباََچوہدری صاحب کے اندازوں کے بر عکس انہیں نہ صرف ٹکٹ نہیں دیا گیا بلکہ انکے خلاف دونوں حلقوں میں امیدوار بھی اتار دئیے گئے۔ چوہدری صاحب کے آبائی حلقے سے 2013 کے انتخابات میں منتخب ہونے والے ایم۔پی۔اے انجینئر قمر الاسلام راجہ کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔ ابھی چند گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ نیب نے انہیں گرفتار کر کے پندرہ دن کا ریمانڈ لے لیا۔ پھر یکے بعد دیگرے دانیال عزیز اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف دو فیصلے آئے۔ اسی طرح کے فیصلے طلال چوہدری اور احسن اقبال کے بارے میں بھی متوقع ہیں۔ ادھر بیگم کلثوم نواز کی شدید علالت کی وجہ سے میاں نواز شریف اور مریم نواز دونوں ملک سے باہر ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم جمود کا شکار ہے۔
جو لوگ (یا قوتیں) مسلم لیگ(ن) کا راستہ روکنا چاہتی ہیں انکے لئے یہ صورتحال خاصی اطمینان بخش ہونی چاہیے ۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام چھوٹی بڑی جماعتیں نیب، مقدمات اور سزاوں کے خوف سے آزاد ہو کر پورے اطمینان کیساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) ہر طرف سے شدید دبائو کا شکار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی عوامی حمایت میں کمی آجاتی، اسکے حامی مایوس ہو جاتے اور انکے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے۔ لیکن ایسا ہو ا نہیں۔ رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ کم از کم پنجاب میں آج بھی مسلم لیگ (ن) کو واضح برتری حاصل ہے اور نتائج کم و بیش 2013 کے لگ بھگ ہی رہیں گے۔ "ووٹ کو عزت دو " کا نعرہ اب مبہم نہیں رہا۔ دور دراز کے دیہات میں بھی اب اس نعرے کی گو نج سنائی دینے لگی ہے۔ نواز شریف اور مریم کی دوری یقیناََ نفسیاتی اثرات ڈال رہی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور اسکے ارکان کے خلاف ہونے والے اقدامات نے لیگی ووٹر کو مزیدپختہ کر دیا ہے۔ اسکے اثرات ان ووٹرز پر بھی پڑنے لگے ہیں جنہیں فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ اگر وطن واپسی پر نواز شریف اور مریم نواز کو سزائیں بھی سنا دی جاتی ہیں تو ہمارے مخصوص کلچر کے باعث اسکا فائدہ بھی مسلم لیگ (ن) ہی کو پہنچے گا۔
غالباََ یہ ہیں وہ مشکلات جو بظاہر یقینی نظر آنے والے انتخابات پر بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف، مریم، مسلم لیگ (ن) اور اسکے امیدواروں کیخلاف ہونے والے تمام اقدامات نے مسلم لیگ (ن)کو نقصان نہیں پہنچایا۔ تاہم اب ان انتخابات کے حوالے سے بعض انتہائی تشویشناک سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے ہاں پریس پر لگی تازہ ترین قدغنوں کے باعث ان سوالات کی شدت محسوس نہ ہو رہی ہو، لیکن اب تو عالمی میڈیا بھی بہت کچھ کہنے لگا ہے۔ ایشیا ٹائمز کا تازہ آرٹیکل انتخابات کی ساکھ کو ابھی سے مشکوک بنا رہا ہے۔ ممکن ہے یہ تاثر غلط ہو لیکن محسوس یہی ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کو انتخابات کی ساکھ کی کوئی زیادہ فکر نہیں۔ 2013 میں پی ۔ٹی۔آئی کے خلاف ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا لیکن عمران خان نے دھاندلی کی بنیاد پر ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) ، نواز شریف اور مسلم لیگی امیدواروں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی یا کسی اور جماعت کے خلاف ہوتا تو اب تک ایک قیامت بپا ہو چکی ہوتی۔ مسلم لیگ (ن) شاید اسلئے زیادہ واویلا نہیں کرپا رہی کہ مہم کی قیادت کرنے والی شخصیات پاکستان سے باہر ہیں اور اندر بیٹھے ہوئوں کو اپنے اپنے حلقے کی پڑی ہے۔
افواہوں اور قیاس آرائیوں کے با وجود اب الیکشن کا التوا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ نگران حکومتیں،اعلیٰ ترین عدلیہ، الیکشن کمیشن اور آرمی چیف مسلسل یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ انتخابات میں ایک دن التوابھی قبول نہیں ہو گا۔ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وہ 25 جولائی کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دینگے۔ لیکن جس طرح انتخابات کے انعقا د کا یقین بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی طرح انتخابات کے بے لاگ ہونے سے متعلق خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ تاثر اندرون ملک ہی نہیں ، بیرون ملک بھی پختہ ہو رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت ، اسکی قیادت اور اس سے وابستہ امیدواروں کو ہر طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے اسے بطور ایک ایشو کے اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تو الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور اٹھے نہ اٹھے، الیکشن سے پہلے ہی انتخابی عمل داغ دار ہو جائے گا۔ ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟ اسکا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)