• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید چند ہفتے بھی نہیں گزرے جب اسی کالم میں سیاستدانوں کو بطور برادری یہ مشورہ دیا تھا کہ پلیز! اپنی ترجیحات اور دیگر رویوں پر غور کرو اور یہ بھی سوچو کہ بطور ایک کمیونٹی آپ لوگ سب سے ناپسندیدہ کیوں ہو۔ انہوں نے تو خاک سوچنا تھا البتہ عوام نے ضرور طے کرلیا کہ اس ’’برادری‘‘ کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے، انہیں کون سے سبق سکھانے ہیں۔ کاش عوام چند سال پہلے سمجھ گئے ہوتے کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے نہیں سمجھیں گے لیکن ہر کام کا ایک وقت معین ہوتا ہے۔ دیر آید درست آید۔ عوام ان ’’ڈبل رول‘‘ ادا کرنے والے اداکار ٹائپ سیاستدانوں کو جگہ جگہ جو سبق سکھا رہے ہیں وہ قابل داد بھی ہے اور قابل دید و شنید بھی۔ شنید اس لئے کہ یہ کالم سپرد قلم کرتے وقت بھی میرے کانوں میں وہ تھپڑ گونج رہے ہیں جو عوام نے نثار کھوڑو کے جمہوری گالوں پر رسید فرمائے، وہ نعرے گونج رہے ہیں جن سے قصبہ قصبہ حلقہ حلقہ ان سیاسی نہلوں کا استقبال ہورہا ہے جو 5سال میں ایک بار ووٹ خریدنے، چھیننے، ٹھگنے آتے اور پھر غائب ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں عوام غریب تر کمزور تر اور یہ امیر تر اور مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اوپر ان کے ’’ڈبل رول‘‘ کا حوالہ دیا جس کا مطلب یہ کہ یہ لوگ بیک وقت ’’راہنما‘‘ اور ’’راہزن‘‘ کے دونوں رول اس خوبی سے نبھاتے ہیں کہ بڑے سے بڑا ایکٹر بھی اش اش کر اٹھے۔ پہلی ایک دو وارداتوں کے بعد میں نے دعا کی تھی یا بددعادی تھی کہ اللہ کرے یہ وبا ہر طرف پھیل جائے۔ یقیناً شبھ گھڑی ہوگی کہ قبول ہوئی اور بیچارے بلاول کو بھی پتھروں اور خالی گھڑوں کا سامنا کرنا اور سوچنا پڑا کہ سمندر کا پانی بھی میٹھا کر کے کراچی کربلا کے پیاسوں کی پیاس بجھائی جاسکتی ہے۔ عوام اسی ’’غیوری‘‘ اور ’’باشعوری‘‘ کے ساتھ یہ ’’جمہوری پریکٹس‘‘ جار ی رکھیں تو ’’جینوئین جمہوریت‘‘ کو کسی کا باپ نہیں روک سکتا اور یہ اس لئے ضروری ہے کہ جیسے غلیظ پانی سے وضو نہیں ہوسکتا، ان سیاستدنوں کو ’’سیدھا‘‘ کئے بغیر سچی جمہوریت ناممکن ہے۔’’ٹیڑھا ہے پر میرا ہے‘‘ والی سوچ ستر برس سے بھگت رہے ہیں۔ اب اوپر سے عدلیہ اور ’’نیب‘‘ اور نیچے سے عوام ان کی دھلائی، ٹھکائی اور ڈینٹنگ پینٹنگ کریں تو یہی کھوٹے سکے کھرے ہو سکتے ہیں کیونکہ سیانے کہتے ہیں ’’ڈنڈا پیر ہے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘۔ اسمبلیوں کیلئے ’’امیدوار‘‘ سکینڈے نیویا سے تو لا نہیں سکتے تو بھائی! انہی گندے مندے میلے کچیلے عوامی نمائندوں کو ہی دھو دھلا کر گرم استری پھیر کے ان کی شکنیں دور کرلو۔ ٹرینر اچھا ہو تو ہاتھی، گھوڑے، شیر، زیبرے، بندر بھی تربیت کے بعد ’’بندے‘‘ بن جاتے ہیں، یہ تو پھر بنے بنائے ’’بندے‘‘ ہیں جو ہماری حماقتوں اور لاپرواہیوں نے ہی بگاڑے ہیں یعنی ’’جنہوں نے درد دیا ہے وہی دوا دیں گے‘‘ تو جمہوریت شفا پائے گی۔ عوام کے ردعمل نے ہی مجھے یہ ملین ڈالر آئیڈیا دیا ہے کہ جس جس نے ’’منتخب‘‘ ہو کر عوام کو منہ نہیں لگایا اور حرام کھایا ہے اس کا وہ حشر کریں کہ سیاست چھوڑدے یا خباثت ترک کردے تو دیکھو بیمار مرغی کی طرح بیٹھا ہوا تمہارا پاکستان جنگلی ہرن کی طرح کیسے قلانچیں اور چوکڑیاں بھرتا ہے۔ جس جس نے عوام کا حق نمک ادا نہیں کیا، اسے طلال چوہدری، رانا افضل، جمال لغاری، زاہد حامد، خورشید شاہ، نوید قمر، سکندر بوسن، سہیل انور سیال بنا کر رکھ دو کہ انہوں نے ووٹ اور ووٹر کو مذاق بنایا ہوا ہے۔پہلی بار پاکستانی ووٹر پر پیار آرہا ہے، سمجھ نہیں آرہی کہ اس تبدیلی کو کیا نام دوں؟ اس صورت حال کو کیا عنوان دوں۔ آپ بتائیں مندرجہ ذیل چند عنوانات میں سے کون سا بہتر رہے گا۔’’جیو عوام‘‘’’عوام کو سلام‘‘’’جمہوریت کا حسن‘‘’’جینوئین جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘’’جمہوریت کا عوامی استحکام‘‘’’جمہوریت جاگ اٹھی‘‘’’شاباش عوام شاباش‘‘’’غیور بھی باشعوربھی‘‘’’زندہ ہے ووٹر زندہ ہے‘‘’’قدم بڑھائو جمہوریت عوام تمہارےساتھ ہیں‘‘’’پنگا نہیں لینے کا‘‘’’ساڈے حق ایتھے رکھ‘‘’’لیڈری نہیں چاکری‘‘’’درندے نہیں نمائندے‘‘’’انتخاب سے پہلے احتساب‘‘’’ووٹر ہی اب لیڈر ہوگا‘‘’’اب راج کرے گی خلق خدا‘‘’’حلقہ حلقہ پھرے مسافر‘‘’’جیسا منہ ویسا تھپڑ‘‘

تازہ ترین