• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارش، لاہور اور ’سوشل میڈیائی‘ پروپیگنڈہ


پنجاب بھر میں طوفانی بارشوں نے گویا تباہی مچا رکھی ہے۔ گزشتہ رات سے آج دوپہر تک زندہ دلان لاہور طوفانی بارش کے حملے کی زد میں رہے۔مجھے یاد ہے 1996 میں طوفانی بارشوں نے لاہور میں تباہی مچا دی تھی۔ علامہ اقبال ٹاؤن میں گلشن اقبال سارے کا سارا ڈوب گیا تھا۔

ہال روڈ ،بیڈن روڈ ،شاہ علم مارکیٹ سمیت شہر کی تمام بڑی مارکیٹوں میں پانی سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ اور قائد اعظم لائبریری پانی میں ڈوب گیے لیکن آج ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر اور تقریباً دو کروڑ آبادی والے شہر میں اگر کسی ایک سڑک پر تین شگاف پڑ گئے یا ڈھائی سو ملی میٹر ریکارڈ کی گئی طوفانی بارش کے دوران نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہو بھی گیا تو تب بھی ایسی کوئی بڑی بات نہ تھی ایسا تو ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں میں بھی ہو جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر گویا یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم لاہورئیے ڈوب چکے ہیں۔میں علامہ اقبال ٹاؤن میں تھا گھنٹوں کی بارش کے بعد میرے گھر کے سامنے پانی نہ تھا۔پانی کی نکاسی کے لیے تھوڑا وقت لگتا ہے اگر ہم اپنے باتھ روم کو ہی دیکھ لیں کہ پانی زیادہ پھینک دیا جائے تو تھؤڑا وقت لگتا ہے کہ سارا نکل جائے، اگر اس وقت پانی کی ریکارڈنگ کر کے سب کو کہا جائے کہ اس گھر کی تعمیر ٹھیک نہیں ہوئی کہ ذرا سا پانی نہیں نکل سکتا۔

جب ہم گھر بناتے ہیں تو اپنی طرف سے پوری احتیاط کرتے ہیں کہ چھت وغیرہ لیک نہ ہو اس کے باوجود اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شدید بارش کے بعد کہیں سے پانی کی لیکیج ہو جاتی ہے تو کیا ہم اپنے والد کو پکڑ لیتے ہیں کہ آپ نے کیسا ناقص گھر بنوایا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی ہرگر ایسی نیت نہ تھی۔

آج سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہمارے بیمار ذہنی رویے پکار پکار کر اپنی تربیت کی کہانیاں بیان کرتے رہے۔شہباز شریف نے لاہور اور پنجاب کے لیے جو کچھ کر دیا ہے ،پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن آج معاشرے کے چند ذہنی بیمار لوگوں نے جس طرح مذاق بنایا وہ دراصل خود اپنی تربیت کا مزاق اڑا رہے تھے۔

یہ اپنی اپنی سوچ کے زاویے ہیں کیونکہ 12 گھنٹے کی مسلسل بارش نے چین، چاپان، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کا بھی ییہی حال کر دیا تھا جو ہم نے چند سالوں کے دوران ٹی وی پر دیکھا ۔ہم تو ترقی پذیر ملک کے شہری ہیں جہاں سوک سنس کا شدید فقدان ہے۔

ہم کوڑا کرکٹ بھی سڑکوں، گلیوں میں بکھیرنے کے عادی ہیں۔کیلا کھا کر چھلکا دوسرے کے گرنے کے لیے پھینک دیتے ہیں۔شاپنگ بیگز ہر جگہ بکھرے رہتے ہیں اور من پسند مشغلہ دوسروں پر تنقید کرنا ہے اور کچھ نہیں۔

تازہ ترین