• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’صنفی تفریق‘‘ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ

’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم نے روایتی بندھنوں کو توڑنے کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ اگر آج لڑکیوں میں کوئی رات دیر تک یہ دیکھنے کے لیے جاگ رہی ہے کہ میں اگلی خاتون صدر بن سکتی ہوں تو یقین کریں، میرے بعد آنے والی صدر آپ میں سے کوئی ایک ہو گی‘۔ یہ ہیلری کلنٹن کےوہ الفاظ ہیں، جو انھوں نے جولائی 2016ءمیں امریکی صدر بننے کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد کہے تھے۔ افسوس کہ ہیلری کلنٹن یہ انتخاب تونہ جیت پائیں اور امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کرلیا۔ہیلری کی شکست کے باوجود، ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکی لڑکیاں اور خواتین، جنھوں نے ہیلری کی بات پر یقین کرتے ہوئےمستقبل میں امریکا کی صدر بننے کے خواب بُننا شروع کردیے تھے، ان کے خواب آج بھی باقی ہوں گے، کیوں کہ ایک نہ ایک دن ، امریکا میں بھی صنفی تفریق ختم ہوکر رہے گی۔

ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی نئی تحقیق کے مطابق، موجودہ رفتار کے حساب سے، دنیا میں خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہیں حاصل کرنے اور دفاتر میں برابر کی نمائندگی کے حصول کے لیے 217 برس تک انتظار کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 144 ممالک میں سے آئس لینڈ، ناروے، فن لینڈ، روانڈا اور سویڈن نے تعلیم، صحت، بقاء، معاشی مواقع اور سیاسی طاقت کے شعبوں میں سب سے بہتر کارکردگی دکھائی جبکہ یمن، پاکستان، شام، چاڈ اور ایران سب سے نچلے درجوں پر رہے۔ تعلیم کے مختلف شعبوں میں خواتین نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، تحقیق کے مطابق اگلے 13 برسوں میں وہ اس شعبے سےصنفی تفریق کا خاتمہ کر سکتی ہیں، جبکہ سیاسی طاقت کے حصول میں برابری کے لیے انھیں 99 سال درکار ہوں گے۔ اس تحقیق کے مطابق، خواتین کام کی جگہوں پر مردوں کے مقابلے میں آدھی تنخواہ حاصل کرپاتی ہیں اور ڈبلیو ای ایف کی تحقیق میں کہا گیاہے کہ مردوں اور عورتوں میں اقتصادی فرق 58 فیصد تک ہے، جو کہ گذشتہ 10برسوں میں سب سے بڑا فرق ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی سینیئر اہلکار سعدیہ زاہدی کا کہنا ہے کہ: ’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فرق بڑھتا جائے۔ صنفی برابری قائم ہونا معاشی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ یہ بات چند ممالک میں سمجھی جا چکی ہے اور ہم اس وجہ سے وہاں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح صنفی تفریق کم کی جا رہی ہے‘۔ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے باوجود خواتین کو نوکریاں ملنے اور نوکریوں میں ترقی پانے کے مواقع نہیں مل رہے۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ دونوں جنسوں میں تنخواہوں میں فرق ختم کرنے سے برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار میں 250 ارب ڈالر تک اضافہ ہو سکتا ہے، جبکہ امریکا میں 1750 ارب ڈالر اور چین کی مجموعی قومی پیداوار میں ڈھائی کھرب ڈالر تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

درجہ بندیوں کا طریقہ کار

صنفی تفریق کی درجہ بندی مرتب کرنے کے لیے ورلڈ اکنامک فورم نے ایک درجن سے زیادہ معلومات کا تجزیہ کیا، جن میں اقتصادی طور پر نمائندگی اور اس شعبے میں ملنے والے مواقع، تعلیم کا حصول، صحت اور بقاء اور سیاسی طور پر بااختیار ہونا شامل ہے۔ درجہ بندیاں ہر ملک میں صنف کی بنیاد پر وسائل تک رسائی اور مواقع کی فراہمی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کی گئیں۔ اس کی بنیاد پر غریب اور امیر ممالک کا برابری کی سطح پر جائزہ لینا ممکن ہوتا ہے۔ یہ اس فورم کی 11ویں رپورٹ ہے جس میں 145 ممالک میں صنفی تفریق کا جائزہ لیا گیا ہے۔ صنف کی بنیاد پر معاوضے میں پائے جانے والے فرق کی معلومات آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کی جانب سےدی گئی ہیں۔ اس میں ہر ملک کی دستیاب تازہ ترین معلومات شامل ہیں۔ ’او ای سی ڈی‘ نے صنف کی بنیاد پر اجرت میں فرق کا حساب مردوں اور خواتین کی اوسط آمدن اور صرف مردوں کی اوسط آمدن میں پائے جانے والے فرق کی بنیاد پر لگایا ہے اور اس میں صرف کل وقتی ملازمت کرنے والے افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی سے گریجویٹ کرنے والوں میں خواتین کی تعداد کے اعداد و شمار یونیسکو انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیٹکس کے ہیں۔

یواے ای: مردوں اور عورتوں کی تنخواہ برابر

آئس لینڈ کے بعد، متحدہ

عرب امارات نے خواتین اور مردوں کی

تنخواہ کے اسکیل برابر کر د یے۔ یو اے ای کابینہ نے مساوی تنخواہ کا قانون منظور کر لیا ہے۔ صنفی مساوات سے متعلق عالمی اقتصادی فورم کی سال 2017ءکی درجہ بندی فہرست میں متحدہ عرب امارات 144 ممالک میں 120 ویں نمبر پر ہے۔ دبئی کے شیخ محمد بن راشد المکتوم نے سماجی رابطہ ویب سائٹ پر جاری پیغام میں کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ خواتین اور مردوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے میں کوئی تفریق کی جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ملک کا آئین دونوں صنفوں میں برابرکے حقوق اور فرائض کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ اس نئے قانونی کے ذریعے آئین کو وسیع بنیادوں پر نافذ کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔

تازہ ترین