• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زہریلی شراب کا کاروبار

عبدالغنی بجیر،اسلام کوٹ

سندھ کے دیہی علاقوں میں منشیات کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے یہ ایک وباء کی شکل اختیار کر چکی ہے۔انتظامی نا اہلی اورسیاسی ملی بھگت کے باعث اس کاروبار میں بااثر افراد ملوث ہوگئے ہیں اور نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں خوف ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ہر شہری و دیہی علاقے میںکچی شراب تیار کرنے والی فیکٹریاں کھل رہی ہیں ۔سندھ کا سرحدی اور پسماندہ ضلع تھرپارکر جہاں کچھ عرصہ قبل تک وہاںگنے چنے لوگ ہی نشہ آور اشیاء استعمال کرتے تھے ۔لیکن اب یہاں منشیات کا استعمال عام ہو تا جا رہا ہے، نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت ایک کاروبار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

جس کی اس سے بڑھ کر اور مثال کیا ہو گی کہ نگرپارکر تحصیل کے ایسے گائوں جہاں نہ تو بجلی ہے نہ کوئی اور سہولت، وہاں تعلیم اور صحت کی سہولتیں ناپید ہونے کے علاوہ پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں لیکن کچی شراب کھلے عام گھروں میں بنتی اور فروخت ہے جس کے نتیجے کم عمر لوگ بھی اس نشے کا شکار ہو رہے ہیں۔اسی طرح تھر کی تحصیلوں مٹھی،اسلام کوٹ،نگرپارکر ،ڈیپلو ،چھاچھرو ،ڈاہلی کے متعدد دیہاتوں میں کچی شراب کی بھٹیاںقائم ہوگئی ہیں،جہاں زہریلے کیمیکلز سے مٹکوں اور پلاسٹک کے ڈرمز میں شراب بنائی جاتی ہے، جو انسانی جانوں کے لیے انتہائی مہلک ہوتی ہے۔

حکومتی رٹ اورقانون کی گرفت نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ دوسرے گاؤں دیہات تک دراز ہوگیاہے۔پولیس جب شہروں میں منشیات پر کنٹرول کرنے سے قاصر ہے تو دیہاتوں میں پہنچنےکے لیے وسائل کی کمی کا بہانہ بھی اس کے پاس موجود ہے۔ ضلعی پولیس افسران یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیںکہ ہر گائوں میں تھانہ قائم نہیں کر سکتے ۔پولیس اور انتظامی اہل کاروں کی چشم پوشی کی وجہ سے مختلف دیہاتوں میں ہر گلی کوچے میں شراب کی بھٹیاں قائم ہوگئی ہیں، جہاں کیمیکل سے جو شراب بنتی ہے وہ انتہائی زہریلی ہوتی ہے لیکن جس طرح پولیس نے اس کاروبار کی طرف سے آنکھیں بند کررکھی ہیں، اسی طرح سول سوسائٹی نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ 

زہریلی شراب کا کاروبار

پولیس چوکیاں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بلا کسی روک ٹوک، گاڑیوں کے ذریعے شہروں میں واقع شراب کی دکانوں پر پہنچایا جاتا ہے۔سستی ہونے کے باعث لوگ اسے باآسانی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ وائن شاپ مالکان کا کہنا ہے کہ ان کی دکانوں سے شراب ہندو یا عیسائی برادری کے ان افراد کو فراہم کی جاتی ہے جن کے پاس لائسنس موجود ہوں، لیکن ان کے بیان کے برعکس مذکورہ شراب بغیر لائسنس فروخت ہوتی ہے۔ گلی ، کوچوں میں لوگ موٹر سائیکلوں پرشربت کی طرح یہ مضر صحت شےلے جارہے ہوتے ہیں۔ پولیس سال میں ایک مرتبہ رسمی طور پر منشیات فروشوںکے ساتھ کے خلاف کارروائی کرتی ہے، جو بعد میں رہا ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ مقدمات کا کمزور ہونااور قانونی سقم ہوتا ہے ۔ 

اسلام کوٹ شہر میں شراب،افیون ،چرس فروخت کرنے والی مافیاکومبینہ طور پر بعض اہم شخصیات اور تھانے کے اہل کاروں کی مبینہ طور سے سرپرستی حاصل ہے ۔اسی طرح سے مٹھی سے مختلف شہروں میں شراب کی ونقل و حمل پولیس کی چوکیوں کے اطراف سے ہوتی ہے، ،جس کا علم پولیس اہل کاروں کو ہوتا ہے۔شہروں اوردیہی علاقوں میں رہنے والے افراد اس صورت حال سے بہت متفکر ہیں۔یہاں کی مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ جب ہم شراب کی بھٹیوں اور فروخت کے مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں تو پولیس اپنے طور پر کارروائی کرنے کی بجائے شکایات کنندہ کو مدعی بننے پر زور دیتی ہے ، جو منشیات فروش افراد سے کھلی دشمنی کے مترادف ہوتا ہے۔

انتظامیہ کی ملی بھگت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مستقل طور پر وہی لوگ منشیات کا کاروبا کر رہے ہیں،جن کے خلاف پہلے سے مقدمات درج ہوتے رہے ہیں اور کیس میں کمزور دفعات کے باعث ان کے خلاف سخت کارروائی نہیں ہوپاتی ہے۔مختلف مقدمات میں برآمد ہونے والی شراب یا چرس کو کم دکھایا جاتا ہے، اورکیس کے آغاز سے ہی مقدمے کو کمزور کر دیا جاتا ہے ۔

اس طرح منشیات فروشوںکے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہو پاتی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ضلعی ہیڈکوارٹر سے دیگر شہروں میں منتقل ہونے والی شراب کو روکا جائے ، ساتھ ہی تھر کے دیہاتوں میں موجود کچی شراب کی بھٹیوں کے خلاف خصوصی آپریشن کر کے انہیں مسمارکیا جائے۔اگر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے میںاسی طرح لاپروائی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا اور بغیر ٹیسٹنگ کے کچی شراب کی فروخت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو زہریلی شراب کی وجہ سے کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین