• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ 25جولائی کو پاکستان کے کروڑوں غریب ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے چند سو ارب پتی یا کروڑ پتی اراکین منتخب کرکے انہیں آئندہ پانچ سال کے لئے خود پر حکمرانی کا حق دے دیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ غریب یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے چند افراد بھی رکن اسمبلی بننے میں کامیاب ہوجائیں لیکن پاکستان پر حکومت کرنے، قوانین بنانے، حتیٰ کہ آئین میں تبدیلیوں کے اختیارات غریبوں کے مسائل سے بالعموم لاتعلق رہنے والے امیر ترین طبقے کے پاس ہی رہیں گے۔ 1973ء کے آئین میں کئی بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان میں عدلیہ کو اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین پر نظر ثانی اور عوامی مفادات کے معاملات پر از خود نوٹس لینا بھی شامل ہے۔ ان عدالتی اختیارات پر حکمران بالعموم ناخوش اور غیر مطمئن رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو عدالت کی جانب سے نااہل قرار دے دئیے جانے پر نہ صرف مسلم لیگ میں بلکہ کئی دوسری جماعتوں میں بھی بعض سیاست دان سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگانے کی باتیں کررہے ہیں۔ کچھ لوگ احتساب کے وفاقی ادارے قومی احتساب بیورو (NAB) کو ختم کردینا یا اس کے اختیارات کو محدود اور اسے کسی وزارت کے ماتحت کردینا چاہتے ہیں۔ ایسی سوچ کے حامل لوگ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو عدلیہ کے اختیارات اور احتساب کے اداروں کے دائرہ عمل کو محدود یا ختم کرنے کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔
پاکستان کی معیشت مسلسل زوال پذیرہے۔ غیر ملکی قرضوں میں ہر سال کئی ارب ڈالر کا اضافہ ہورہا ہے۔ کھربوں روپے کے اندرونی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔ ملک میں قدرتی وسائل سے بجلی کے حصول اور پانی کی فراہمی کے لئے ڈیم بنانے اور دیگر ذرائع کو ترقی دینے کے بجائے منتخب حکومتوں کا انحصار مہنگی ترین تھرمل بجلی پر رہا۔ اس طرز عمل سے ملکی صنعتوں کو شدید نقصان ہوا اور پاکستان کی ایکسپورٹ کم ہوتی گئی۔ حکومت کے زیر انتظام مختلف پروجیکٹس میں اربوں روپے کرپشن اور بے قاعدگیوں کی باتیں عام ہیں لیکن یہ انتہائی اہم آئینی ، اقتصادی اور انسداد کرپشن کے معاملات انتخابی مہمات میں زیر بحث نہیں آرہے۔
پاکستان کی قومی اور صوبائی بیوروکریسی میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل اور دیانت دار افسران موجود ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے صلاحیت کی قدر نہ ہونے اور اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے سے قابل افسران پر مشتمل قوم کا قیمتی اثاثہ ضائع ہورہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں کامیابیاں حاصل کرنا پاکستانی قوم کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس جدوجہد میں مسلح افواج کے ساتھ ملک کے سول اداروںنے بھی بھرپور خدمات سرانجام دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں کا پرجوش ذکر بھی انتخابی موضوعات میں شامل نہیں۔ پاکستان کی چار بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی گزشتہ کئی برسوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی معاشی حالت میں سدھار نہ لاسکی۔ سیاسی جماعتیں شاید اس نظریے پر یقین رکھتی ہیں کہ عوام کا حافظہ کمزور ہے، عوام کو ان کے پچھلے وعدے، پچھلے بیانات یاد ہی نہیں رہتے، چنانچہ اگلے انتخابات کے لئے وہ چند نئے وعدوں اور کسی نئے پروگرام کے ساتھ میدان میں آجاتے ہیں۔ الیکشن 2018ء میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے تو یہ تکلف بھی گوارا نہ کیا۔ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے بڑی جماعتوں میں سے کسی نے نہ تو اپنے منشور کا اعلان کیا، نہ ہی ملک کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل اور ملک کو دستیاب وسائل سے بہتر طور استفادے کے لئے کسی پالیسی یا لائحہ عمل سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ وفاق یا صوبوں میں برسر اقتدار رہنے والی جماعتوں کی کارکردگی سے عوام میں مایوسی اور بددلی پھیل رہی ہے۔ انتخابی مہم بس شخصیات کے سحر اور طرح طرح کے بیانات کے سراب میں چل رہی ہے۔
کراچی کیا سوچ رہا ہے… ؟ انتخابات میں تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن کراچی میں الیکشن کی روایتی گہماگہمی اور عوامی جوش و جذبہ نظر نہیں آرہا۔ وزارت عظمیٰ کے خواہشمند تین سیاستدان بلاول بھٹو، شہباز شریف اور عمران خان کراچی سے انتخابات لڑرہے ہیں۔ 1985ء کے بعد سے ایم کیو ایم (پہلے مہاجر پھر متحد ہ قومی مومنٹ) قومی اور صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرتی آئی ہے لیکن ایم کیو ایم کے مدمقابل پاک سر زمین پارٹی کی موجودگی میں کراچی میں ووٹنگ کا ٹرینڈ کیا رہے گا یہ ابھی تک واضح نہیں ہورہا۔ اندازوں کے مطابق کراچی کے مختلف حلقوں سے ایم کیو ایم، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کو نشستیں مل سکتی ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی طرف کتنے ووٹرز مائل ہیں اس کا اندازہ شاید آئندہ دس بارہ دنوں میں ہوسکے۔ اندازہ ہو رہاہے کہ کراچی کے کئی حلقوں میں اٹھارہ تا پینتیس سال کے افراد کے ووٹ اور چالیس سال سے زائد عمر کےافراد کے ووٹ الگ الگ جماعتوں کو جائیں گے اور اس طرح کراچی کے ووٹ تین چار سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوجانے کا امکان ہے ۔
تاریخی طور پر کراچی سندھی اور بلوچ اکثریتی شہر رہا ہے، خاصی بڑی تعداد میں گجراتی مسلمان بھی کراچی میں قیام پاکستان سے پہلے سے آباد تھے۔ اس شہر میں اگست 1947ء (رمضان المبارک 1366ھ ) کے بعد ہجرت کرکے آنے والے مسلمان اور ان کی اولاد کی اکثریت ہے۔ پاکستان کا ساحلی، صنعتی اور تجارتی مرکزہونے کی وجہ سے 1950ء کے عشرے بعد سے پاکستان بھر سے لوگ روزگار کی تلاش اور بہتر معیار زندگی کے لئے یہاںآکر آباد ہوتے رہے۔ کراچی اب منی پاکستان کہلاتا ہے۔ اندازوں کے مطابق کراچی میں آباد پختونوں کی تعداد کسی بھی دوسرے شہر میں آباد پختونوں سے زیادہ ہے۔ کراچی دنیا بھر میں پختونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں پنجابی ، سرائیکی اور ہندکو بولنے والے بھی لاکھوں کی تعداد میں مستقل آباد ہیں۔ پچھلے بیس برسوں میں اندرونِ سندھ سے کراچی مستقل آباد ہونے والے سندھیوں کی تعداد میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ اگلے پندرہ سے بیس برسوں میں کراچی میں آباد سندھیوں کی تعداد دیگر کسی بھی شہر میں آباد سندھیوں سے زیادہ ہوگی۔ اس طرح کراچی بیک وقت اردو، سندھی اور پشتو بولنے والوں کے سب سے بڑے شہر کا اعزاز پالے گا۔ یہ صورتحال کراچی میں آباد سب لوگوں سے باہمی احترام اور بھائی چارے پر مبنی رویّوں کا تقاضاکرتی ہے۔ کراچی کی ترقی اور یہاں بسنے والوں کی فلاح کے لئے ضروری ہے کہ اس شہر کا نظام اس طرح چلایا جائے جس کے ذریعے ہر طبقے کو اپنی شرکت محسوس ہو اور شہر کے مسائل حل کرنے کے لئے کراچی میں آباد سب باشندے مل کر کوششیں کریں۔ اہلِ کراچی کو خواہ وہ کوئی بھی زبان بولنے والے ہوں بجا طور پر یہ شکایت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی کو کئی بار نظر انداز کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ وفاق یا صوبے میں خواہ ایک پارٹی کی حکومت ہو یا الگ الگ جماعتوں کی، کراچی کی ترقی کے لئے سب کو خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ کراچی سے منتخب ہونے والے سیاست دانوں کو کسی پولیٹکل میوزیکل چیئر گیم کا حصہ بننے سے بھی انکار کرنا چاہیے۔ کراچی میں رہنے والے سب لوگوں کی بھلائی کے لئے ضروری ہے کہ یہ شہر اپوزیشن مائنڈ سیٹ سے چھٹکارا پائے۔ دیکھیں …! 25جولائی کو کراچی کے ووٹرز اس شہر کے لئے کیا رُخ متعین کرتے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین