• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت نے سزا سنادی یعنی میاں نواز شریف تو پہلے ہی نا اہل ہوچکے تھے، آنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، ان کے ہاتھوں سے تو ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ نون کی صدارت بھی چھین لی گئی۔ اب انہیں دس سال اور ایک سال مزید قید با مشقت کے ساتھ ایک بڑی رقم بطور جرمانہ کی سزا دے دی گئی ہے۔ مریم صفدر کو بھی سات سال اور ایک سال مزید کی سزا بمع جرمانہ قید با مشقت سنادی گئی ہے۔ جب کہ کیپٹن صفدر کو صرف ایک سال وہ بھی بغیر جرمانہ کے قید با مشقت کی سزا سنادی گئی ہے بظاہر پاکستان مسلم لیگ نون کے ارکان اور ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی ہی امید تھی کیونکہ عدالتیں غیر جانبداری سے فیصلہ نہیں کر رہیں۔ دوسری طرف نون لیگ کی مخالف جماعت تحریک انصاف میاں صاحب کو سزا ملنے پر خوشی کاا ظہار کر رہی ہے۔ مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں کیونکہ ان کے تمام امیدواروں کو محسوس ہو رہا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کے میدان سے ہٹا دئیے جانے سے نون لیگ کا دھڑن تختہ ہوجائے گا اور اب ووٹر مسلم لیگ نون یا میاں نواز شریف سے مایوس ہوکر تحریک انصاف کو کامیاب کرائے گا، ان کا خیال ہے کہ ان کے سب سے بڑے اور مضبوط حریف کو نادیدہ قوت، جس کا شکوہ میاں نواز شریف بار بار کر رہے تھے نے میدان سے ہٹادیا ہے۔ اب میدان تحریک انصاف کے لئے صاف ہوچکا ہے اب عمران خان کو وزیر اعظم پاکستان بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
جانے کیوں عمران خان اور ان کے حواریوں کو یہ گمان ہے کہ عمران خان وزیر اعظم پاکستان بنے ہی بنے جب کہ سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا ایسا خیال بالکل نہیں ہے وہ دیکھ رہے ہیں سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کو اول تا آخر استعمال کیا جا رہا ہے۔ چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا اور عمران خان سوتے جاگتے وزارت عظمی کی مسند پر خود کو براجمان دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ مفکرین سیاست اس سارے تماشے کو بغور دیکھ اور سمجھ رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں اقتدار منتقل کرنے اور ملک چلانے والی قوت بڑے اہتمام سے اس ساری کارروائی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ اپنی بساط پر بچھائے سجائے مہروں کو بہت احتیاط سے آگے بڑھا رہی ہے۔ اہل فکر کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات سے قبل کبھی بھی آزاد امیدواروں کا ایسا ہجوم نہیں ہوا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں وہ بھی مقتدر سیاسی جماعتوں کے مضبوط ارکان کا اچانک پہلو بدلنا اپنی برسوں پرانی رفاقت کو توڑ کر دوسری حریف جماعت میں شامل ہونا جس پر میاں صاحب بار بار نادیدہ قوتوں کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے۔
گزشتہ کئی روز سے نواز شریف کے قریب ترین ساتھی چوہدری نثار جواب برملا اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ چوہدری نثار خان کا یہی کہنا ہے کہ میں میاں نواز شریف کو ہمیشہ یہی سمجھاتا رہتا تھا کہ وہ عدلیہ اور فوج سے نہ الجھیں ان کے خلاف بیان بازی نہ کریں لیکن میاں صاحب کی جب سوئی اٹک جاتی ہے تو وہ پھر کسی کی نہیں سنتے۔ اس بار بھی ان سے یہی اختلاف کی وجہ بنی میں بار بار انہیں سمجھاتا رہا انہیں روکتا رہا کہ عدلیہ اور فوج کے خلاف کچھ نہ کہیں وہ اتنا ہی زیادہ ان اداروں کے خلاف بیان دیتے رہے۔ آخر مجبوراً مجھے خاموش ہونا پڑا اور اب ان سے اپنی 35 برس کی رفاقت کو ختم کرنا پڑا۔
اس بار 25جولائی کو ہونے والے انتخاب میں چوہدری نثار آزاد حیثیت سے میدان انتخابات میں اترے ہیں۔ اہل فکر کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار یونہی تنہا میدان میں نہیں آرہے کیونکہ مسلم لیگ نون میں ان کی پوزیشن کافی مضبوط تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی علیحدگی کے لئے کسی قسم کا شور شرابہ نہیں کیا، نہ ہی اپنے ہمدردوں کو ساتھ لے کر نکلے، کہنے کو تو وہ تنہا ہی میدان میں اترے لیکن اب خود بخود یا ان کے پس پشت ہمدردوں نے سارا انتظام سنبھال لیا ہے۔ اب ان کے انتخابی نشان کے حامل افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اب چوہدری نثار ایک مضبوط اور خاموش امیدوار بن کر ابھرے ہیں۔ اہل فکر کا خیال ہے کہ میاں صاحب کو ملنے والی سیاسی کامیابیوں میں بھی چوہدری نثار ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے میاں صاحب ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے غضب سے بچے رہے، لیکن میاں صاحب کا مزاج چونکہ انتقامی ہےوہ اپنے مخالف کو بھولتے نہیں، موقع ملتے ہی بدلہ لینے لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چوہدری نثار جن کے اسٹیبلشمنٹ میں ہمیشہ سے گہرے روابط رہے ہیں، کیونکہ ان کے خاندان کے کئی افراد فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں، چوہدری نثار خود بھی افواج پاکستان کی بے پناہ عزت کرتے ہیں ان کی ہمدردیاں ہمیشہ افواج پاکستان اور دیگر قومی اداروں کے ساتھ رہی ہیں۔ اس بار سوچ سمجھ کر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی بساط بچھائی ہے۔
مدبران سیاست کا گمان ہے کہ جب عدلیہ نے میاں نواز شریف کو نا اہل کیا تھا اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ چوہدری نثار جو سینئر اور تجربہ کار سیاست دان ہیں کو نواز شریف کے نائب کے طور پر عارضی دور کے لئے وزیر اعظم بنادیا جائے، لیکن میاں نواز شریف کے حلق سے غالباً یہ تجویز نہیں اتری اور انہوں نے شاہد خاقان عباسی کو مسند وزارت عظمیٰ پر جلوہ گر کردیا تو چوہدری نثار نہ صرف بد دل ہوگئے بلکہ نواز شریف سے ناراض ہوکر علیحدگی اختیار کرلی اور نواز شریف دن بدن چوہدری نثار سے دور ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب مسلم لیگ نون کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف نے اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر چوہدری نثار کے مقابل مسلم لیگ نون کے امیدوار نہ کھڑا کرنے کا اعلان کیا تو دوسرے ہی دن میاں نواز شریف کی طرف سے نہ صرف ان کی سرزنش کی گئی بلکہ چوہدری نثار کے مقابلے میں تمام جگہوں سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ بردار امیدوار کھڑے کردئیے گئے۔ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار میں جتنی قربت تھی اب اتنی ہی دوری ہوگئی ہے بلکہ لمحہ لمحہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ مدبران سیاست کا گمان ہی نہیں بلکہ ان کو یقین ہے کہ اس بار الیکشن کے ڈرامے میں چوہدری نثار کا بہت اہم رول ہوگا، کیونکہ وہ بظاہر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے اترے ہیں لیکن ان کے پس پشت اسٹیبلشمنٹ ہے جو ہر قیمت پر چوہدری نثار کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ انہیں دراصل اپنا وفادار ہمدرد سیاسی لیڈر چاہیے جو عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر مسند اقتدار پر براجمان ہو اور عوام اور ملک کی فلاح و بہبود میں اصل حکمرانوں کے نمائندے کی حیثیت سے کام کرسکے اور ایسا امیدوار فی الحال چوہدری نثار کے علاوہ کوئی اور منظر پر نظر نہیں آرہا۔
بیشتر اہل سیاست اور صاحب نظر تجزیہ کاروں کو ایسا ہوتا اس لئے نظر نہیں آرہا کہ چوہدری نثار کے ساتھ کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں ہے نہ ہی ان کا رابطہ فی الحال کسی دوسری سیاسی جماعت سے ہے۔ لیکن ان کے ہمدردوں کے لئے کیا مشکل ہے کہ فاٹا اور آزاد امیدواروں کو مشروط طور پر کامیابی دلائی جائے اور کامیابی کے بعد چوہدری نثار سے اشتراک عمل کردیا جائے۔ ویسے بھی جیپ کے نشان سے الیکشن لڑنے والوں کی بھی کافی تعداد ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ موجودہ حالت میں اہل پاکستان کو صبر و استقلال کی قوت سے نوازے اور آنے والے وقت میں ہر قسم کے خطرات و خدشات سے وطن عزیز کو اور اہل پاکستان کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین