میں آجکل قومی الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں تھرپارکر کے دورے پر ہوں، گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں صوبہ سندھ کے سیاسی منظرنامے میںایک نمایاں تبدیلی میں نےمحسوس کی ہے، کسی بھی جمہوری معاشرے کے استحکام کیلئے الیکشن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، عوام الیکشن ہی کے ذریعے اپنے نمائندے پارلیمان میں بھیجتے ہیں جہاں ان کے مسائل کے حل کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے، عرصہ طویل سے عوام کی نمائندگی کے نام پر بعض ایسے نمائندے اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں جنکی سیاست کا مقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ تھا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف نے ایک طویل جدوجہد کے بعد عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا، گزشتہ انتخابات کے موقع پر کم وبیش تمام سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے متحرک نوجوان کارکنوں نے رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا وسیع پیمانے پر بھرپور استعمال کیا۔ پی ٹی آئی کی سائبر میدان میں پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کیلئے دوسری سیاسی جماعتوں کوبھی سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا ایک ایسی دو دھاری تلوار کی مانند خطرناک ہے کہ اگر اسکا استعمال سمجھداری سے نہ کیا جائے تو خود اپنے آپ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے، موجودہ سیاسی صورتحال میں اسکی مثال سابق حکمراں جماعت (ن) لیگ کی جانب سے سرکاری وسائل کے بل بوتے پر سوشل میڈیا سیل کھولنا تھا، آج تمام مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ ملک کو محاذ آرائی کی طرف دھکیلنے، قومی اداروں میں ٹکراؤ، غیریقینی کی فضا پیدا کرنے اور سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنے میں غیرذمہ دارانہ اور متنازعہ ٹوئیٹس کا بڑا کردار ہے۔ دوسری طرف دیگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنماء بشمول عمران خان، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، شیخ رشید احمد، فاروق ستار وغیرہ بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے نظر آتے ہیں جنکی ٹوئیٹس نہ صرف لمحوں میں وائرل ہوجاتی ہیں بلکہ ٹی وی اسکرینز پر بریکنگ نیوز کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کی بات کی جائے تو سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا استعمال دنیا بھر میں ریاستوں، سفارت کاروں اور سیاسی رہنماؤں کے مابین موثر اور تیز رفتار رابطہ کاری کیلئے کیا جارہا ہے، عالمی سطح کے تمام لیڈران کا سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر آفیشل اکاؤنٹ موجود ہے جہاں مختلف ایشوز پر اپنی رائے کا اظہار، قومی موقف کا اعادہ، دوست ممالک کو حمایت کی یقین دہانی اور مخالف ممالک کو خبردار کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی سیاسی افادیت کا اندازہ لگانے کیلئے یہ خبر کافی ہے کہ 2016ء میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا مہم پر 44 ملین ڈالر اور مخالف ہیلری کلنٹن نے 28 ملین ڈالر خرچ کئے، دو سال قبل امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد بہت سی ایسی رپورٹس میڈیا کی زینت بنیں جن میں روس کو سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی انتخابات میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سماجی ویب سائٹ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے امریکی سینیٹرز کے روبرو روس کی طرف سے امریکی انتخابات کا اعتراف کرلیا ہے، فیس بک انتظامیہ اپنے صارفین کا ڈیٹا غلط ہاتھوں میں جانے کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی خبر کے منظرعام پر آنے کے بعد سے فیس بک کوکم از کم 60 ارب امریکی ڈالرز کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے، اسی طرح ایک انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا اسٹرٹیجک مقصد امریکی سیاسی نظام میں ناچاقی پیدا کرنا تھا، مذکورہ کمپنی سے سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے طریقہ کار پر تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ووٹرز کو اپنے زیراثر لانے کیلئے سیاسی مخالفین کے خلاف پروپیگنڈہ، مخالف امیدواران کے اسکینڈل سامنے لاکر عوام کی نظروں میں گرانا اورووٹرز کو کسی خاص پارٹی یا شخص کی طرف مائل کیا جاتا ہے، غیرملکی میڈیا کے مطابق سب سے زیادہ الزامات امریکہ کے دو سال قبل منعقد کردہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے ہیں جہاں اس کمپنی نے کم از کم تین امریکی ریاستوں کے 40 ہزار ووٹرز کو کامیابی سے ٹارگٹ کرکے نتائج کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں بدل دیا، اسی طرح برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی پر عوامی ریفرنڈم سے متعلق کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے علیحدگی کے حق میں مہم کامیاب بنائی، انٹرنیٹ کمپنی کو مبینہ طور پر کینیا، نائجیریا، برازیل، میکسیکو، ملائشیا سمیت مختلف ممالک کے انتخابی نتائج میں مشکوک کردار ادا کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ خیر، پاکستان میں نوبت یہاں تک تو فی الحال نہیں پہنچی لیکن سوشل میڈیا نے انتخابی مہم میں اپنی افادیت ضرور ثابت کردی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی منشور عوام تک پہنچانے کیلئے سوشل میڈیا استعمال کررہی ہیں، ایک طرف امیدوار اپنے ووٹ پکے کرنے کیلئے ڈور ٹو ڈور مہم چلا رہے ہیں تو اسکی تشہیر زور و شور سے سوشل میڈیا پر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، پوسٹرز اور بینرز گلی محلے میں لگانے سے کہیں زیادہ توجہ واٹس ایپ گروپس میں شیئر کرنے پر مرکوز ہے، دور جدید کے تقاضے سمجھنے والے تمام سیاسی امیدواران نے اپنا فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پیشہ ورانہ انداز میں چلانے کیلئے سوشل میڈیا ٹیمز تشکیل دے رکھی ہیں جن کا ایک نکاتی مقصد زیادہ سے زیادہ ووٹوں کا حصول یقینی بنانا ہے، اسی طرح ووٹرز کا بھی مختلف امیدواران سے سوشل میڈیا پر سوال و جواب اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اس امر میں کوئی مبالغہ نہیں کہ موجودہ دور میں نیوز پیپر سے زیادہ ای پیپرز اور بلاگس عوام میں مقبول ہیں، لوگ ٹی وی اسکرین پر خبر آنے سے قبل ہی انٹرنیٹ سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ موجودہ انتخابی سیاست کے تناظر میں ایسی بے شمار مثالیں سامنے آئی ہیں کہ سوشل میڈیا اب سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے فیصلوں اور حکمت عملیوں پر بھی اثرانداز ہونے کی صلاحیت کا حامل ہوگیاہے مثلاً جب آصف علی زرداری نے عرفان اللہ مروت کا پاکستان پیپلز پارٹی میں خیرمقدم کیا تو ان کی دونوں صاحبزادیوں بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو کی فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے والی ٹوئیٹس عرفان اللہ مروت کو پاکستان پیپلز پارٹی سے نکلوانے کا سبب بنی، اسی طرح تحریک انصاف میں فاروق بندیال کی شمولیت پر سوشل میڈیا کا احتجاج رنگ لے آیا۔میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا معلومات کا سمندر تو ضرور ہے لیکن سمای رابطوں کی ویب سائٹس پر موصول ہونے والی ہر خبر پر بغیر تحقیق کے فوری یقین کرلینا دانشمندی نہیں، ہمیں ملکی سرحدوں سے بے نیاز سوشل میڈیا پر کسی بھی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو نہایت منظم انداز میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے پروپیگنڈہ اور رائے عامہ جاننے کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے، آخر وہ کونسے نادیدہ عناصر ہیں جو معاشرے میں انتشار برپا کرنے کیلئے ایسی بے شمار فوٹو شاپ تصاویر، جعلی ویڈیو کلپس اور فیک نیوز آناً فاناً وائرل کردیتے ہیں جن سے روایتی میڈیا بھی بعض اوقات دھوکا کھا جاتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ پر کئے جانے والے بیشتر سروے رپورٹس کے نتائج میں ہیر پھیر کرنے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ میری نظر میں پاکستان میں سوشل میڈیا کو جہاں منظم انداز میں ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے وہیں انٹرنیٹ صارفین کو مخالفین کی کردار کشی، نازیبا زبان کے استعمال اورغلط بیانی کے فروغ سے باز رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے یہ حقیقت کسی صورت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ الیکشن میں ہار جیت تو وقتی عمل ہے لیکن جھوٹ اور دھوکا ہمیشہ کیلئے نقصان دہ ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ رواں ماہ الیکشن میں سوشل میڈیا کی موجودگی وطن عزیز میں استحکام جمہوریت اور دھاندلی کی روک تھام کیلئے نہایت معاون ثابت ہوگی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)