• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکوں کی ترقی و خوشحالی میں بڑا کردار اندرون ملک موجود سرمائے کے معاشی سرگرمیوں میں مثبت و متحرک کردار اور باہر سے آئے ہوئے سرمائے کے قومی ضرورتوں سے ہم آہنگ دھارے میں شامل ہونے پر ہے۔ اس لئے ترقی پذیر ہی نہیں، ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے ہاں سے سرمائے کے فرار کو روکنے اور بیرونی سرمائے کو اپنے ہاں راغب کرنے کی تدابیر بروئے کار لاتے ہیں۔ وطن عزیز میں پچھلے کئی عشروں سے مختلف حکومتوں کی جانب سے ایسے اعلانات اور دعوے سامنے آئے جن کا مقصد ملکی صنعت کاروں اور تاجروں کو معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے کام میں زیادہ کردار اور آسانیاں فراہم کرنا بتایا گیا مگر قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے رجحان کے برعکس ان عشروں کے دوران جامد اور چھپایا گیا سرمایہ گردش میں آکر ملکی ترقی و خوشحالی میں وہ اضافہ کرتا نظر نہیں آیا جس کی توقع کی جاتی تھی۔ اس کے برعکس سرکاری محکموں میں جاری سرخ فیتے، معاملات کو لٹکانے اور ہر فائل کو آگے بڑھانے کے لئے رشوت، کک بیکس، کمیشن، تحائف کے کلچر نے بعض حکومتی رویوں اور امن و امان کی صورتحال کیساتھ مل کر ایسی کیفیت پیدا کی کہ ملکی سرمایہ قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں سے باہر منتقل ہوتا نظر آیا۔ ہمارے متعدد سرمایہ کاروں نے اندرون ملک اپنی صنعتیں بند کرکے بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشیا اور دوسرے ملکوں کی تجارت و صنعت کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔ اس کے لئے سرمایہ قانونی طریقوں سے بھی منتقل ہوا اور غیر قانونی طریقوں کے امکانات بھی مسترد نہیں کئے جاسکتے۔ اس کے علاوہ جو سرمایہ سرکاری اہلکاروں یا بااثر شخصیات نے غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیا اس کے لئے اسمگلنگ، ہنڈی، آف شور کمپنیوں، بے نامی کھاتوں اور بے نامی جائیدادوں سمیت جانے کیسے کیسے طریقے اختیار کئے گئے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے ضمن میں اگر سی پیک منصوبہ شروع نہ ہوتا تو خدا جانے کیا صورت نظر آتی کیونکہ کئی غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں سے کئے گئے معاہدوں میں دانستہ یا غیر دانستہ ایسی شقیں رکھی گئیں جن سے متنازع معاملات میں انصاف اور ثالثی کے بین الاقوامی اداروں میں ملکی ساکھ اور مالی مفادات کو نقصان پہنچا۔ اس منظر نامے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز پاکستانیوں کی بیرون ملک غیر قانونی جائیدادوں اور بینک اکائونٹس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں جو نکات اٹھائے وہ فوری اور سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ مشکلات سے دوچار ملکی معیشت مزید اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ان امور سے کسی طور بھی غفلت برتی جائے۔ جسٹس اعجاز احمد کے ہمراہ دو رکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ لُوٹے ہوئے اربوں روپے سوئٹزر لینڈ، دبئی وغیرہ سے واپس لانا ہوں گے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر ملکی اکائونٹس ظاہر نہ کرنے والوں کا پتہ چلنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے پیسے کی بیرون ملک منتقلی روکنے کی ضرورت بھی اجاگر کی۔ یہ ایسے امور ہیں جنہیں مختصر مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں مگر اس باب میں ماہرین کی آراء حاصل کرکے ایسا میکنزم تیار کیا جاسکتا ہے جو ملکی سرمائے کا فرار روکنے میں موثر کردار ادا کرسکے اور غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرکے اسے قومی مفادات و مقاصد سے ہم آہنگ کرنے میں معاون ہو۔ اس ضمن میں حکومت کو رپورٹ مرتب کرنے کے لئے اگرچہ مہلت دے دی گئی ہے تاہم ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت میں جو رپورٹ پیش کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں 4221پاکستانیوں کے اثاثے اور اکائونٹس ہیں۔ جائز اور ناجائز طریقوں سے لیجائے گئے اس سرمائے میں کرپشن اور ٹیکس چوری کا پیسہ بھی شامل ہے جو باہر لیجا کر یورپ، امریکہ اور کینیڈا منتقل کیا گیا۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں حائل قانونی رکاوٹیں دور کرنے کا راستہ نکالنا پڑے گا۔ اس باب میں سپریم کورٹ نے جو پہل کاری کی ہے اس سے الیکشن 2018ء کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو سرمائے کی واپسی کے لئے قانون سازی اور مختلف ممالک سے میوچل لیگل معاونت کے معاہدوں سمیت کئی معاملات میں رہنمائی مل سکے گی۔

تازہ ترین