• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی نے خوب لکھا ہے کہ 40سالہ سیاست میں تین مرتبہ وزیراعظم اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہنے والے نواز شریف پہلی مرتبہ لیڈر بنے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ لوگ جیلوں اور عدالتوں سے بچ کر لندن جاتے ہیں مگر ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی سیاسی رہنما سزا سننے کے بعد لندن سے پاکستان واپس آیا ہو۔نوازشریف کی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نوازشریف کا واپسی کا فیصلہ بہت جرأت مندانہ تھا۔بیمار بیوی کو چھوڑ کر جوان بیٹی کی انگلی پکڑ کر گرفتاری دینے کے لئے آنا بہرحال تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔اگر نواز شریف واپس آنے میں حکمت کا مظاہرہ کرتے تو شاید آج مسلم لیگ ن کی سیاست ماڈل ٹاؤن میں دفن ہوچکی ہوتی مگر نوازشریف نے جیل میں قدم رکھ کر مسلم لیگ ن کی سیاست کو نئی زندگی دی ہے۔کل پاکستان میں جمہوریت نے 70سال کی مسافت کو ایک جست میں طے کیا ہے۔
نواز شریف کے سیاسی کیرئیر پر روشنی ڈالیں تو قدرت ہمیشہ نوازشریف پر مہربان رہی ہے۔وطن عزیز کا شاید ہی کوئی عہدہ تھا جو نوازشریف کی دسترس میں نہ رہا ہو۔حالیہ اقتدار کے چار سالوں میں نوازشریف سے بڑی غلطیاں بھی ہوئیں۔پیپلزپارٹی کے حوالے سے قریبی دوستوں نے غلط فیصلے بھی کروائے۔اقتدار میں کارکنوں کو نظر انداز بھی کیا گیا۔کچھ بیوروکریٹس نے ممبران اسمبلی کے دروازے وزیراعظم ہاؤس پر ہمیشہ بند رکھے ۔مگر شاید یہ وقت اسکور سیٹل کرنے کا نہیں ہے۔خاندانی آدمی آزمائشی وقت میں اسکور سیٹل نہیں کرتا۔یہ سب بالا باتیں اقتدار میں کرنے کی ہوتی ہیں۔ویسے یہ خاکسار گزشتہ پانچ سالوں میں درجنوں کالمز میں یہی باتیں کرچکا ہے۔مگر مسلم لیگ ن کے لوگوں کو اب ان میں سے کوئی بات بھی زیب نہیں دیتی۔نوازشریف کو عدالت سے سزا ہونا ایک علیحدہ معاملہ ہے۔مگر جمعہ کو نوازشریف کی واپسی صرف اور صرف اپنی پارٹی کی خاطر تھی۔ نوازشریف نے جمہوریت اور سویلین بالادستی کے لئے بہرحال ایک بڑا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کے لئے نوازشریف کی خدمات کو بھلانا آسان نہیں ہوگا۔نشیب و فراز سے بھرے نواز شریف کے کیرئیر میں شاید اب کسی عہدے کی طلب نہ ہو مگر گرفتاری میں جس حوصلے کا مظاہرہ کیا گیا۔اس کی داد دینی چاہئے۔اس واپسی کے اثرات 25جولائی کے انتخابات پر ضرور مرتب ہونگے۔پیپلزپارٹی نے اسی پنجاب سے 4الیکشن مزاحمتی سیاست کرکے جیتے ہیں۔اس لئے یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ سخت بیانیہ اختیار کرکے پنجاب سے الیکشن جیتنا ناممکن ہوتا ہے۔
نوازشریف کی واپسی کے ساتھ ساتھ ایک اہم معاملہ تین دن میں تین خودکش دھماکوں کا ہے۔جو کچھ کوئٹہ اور خیبر پختونخوا میں ہوا ،انتہائی تکلیف دہ ہے۔وطن عزیز کو دوبارہ خون میں نہلایا گیا ہے۔دہشت گردی پھر سر اٹھارہی ہے۔شاید ملک میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے، وگرنہ ہر چیز وہیں پر ہے ماسوائے سیاسی قیادت۔ مستونگ خو د کش دھماکے کے بعد پورے ملک میں دہشت گردی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ بیرونی مسائل کے ساتھ ساتھ اندرونی چیلنجز نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔ معاشی طور پر کمزور پاکستان اب دوبارہ دہشت گردی کے دہانے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔بھارت کے دہشت گردی واقعات میں ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔دوسری طرف نگران حکومت سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔دونوں ادارے نئی منتخب حکومت سے بات کرنے کا انتظار کررہے ہیں۔لیکن اگر شکوک و شہبات سے بھرے انتخابی نتائج سامنے آئے اور ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی۔سیاسی جماعتیں سڑکوں پر ہوئیں تو شاید آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک منتخب حکومت سے بھی بات نہ کریں۔ امریکہ ہمارے دیوالیہ ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے۔چین کے سینئر سفارتکاروں سے میری بات ہوئی ۔انہیں حالیہ صورتحال پر شدید تحفظات ہیں۔چین کے ایک سینئر سفارتکا ر کا کہنا ہے کہ اگر انہی حالات میں انتخابات ہوئے اور سیاسی جماعتوں کے شکو ک و شبہات برقرار رہے تو ایسے میں ہمارے لئے سی پیک کو آگے بڑھانا بہت مشکل ہوگا۔
آج وطن عزیز بہت آزمائشی حالات سے گزر رہا ہے۔اگر ہم نے ذاتی انا کو پس پشت ڈال کرپاکستان کا نہ سوچاتو ہمار ا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔معاملہ نوازشریف کی ذات یا کسی اور عہدے پر براجمان شخص کا نہیں ہے۔بلکہ اس وقت پاکستان خطرے میں ہے۔اکثر کہا جاتا ہے کہ فلاں ہے تو پاکستان ہے مگر یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔پاکستان کی خاطر بھی اگر ہم دو ،دو قدم پیچھے نہ ہٹے تو پھر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔انہی حالات پر احمد ندیم قاسمی نے یہ نظم لکھی تھی۔۔۔
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسما ں در آسماں اسرارکی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے،کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندان ایوان عقائد، اے ہنر مندان آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہئے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہئے
ۜ (کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین