• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتیاط کا عالم: سیّدنا عمر بیعت سے پہلے خوش خوراک اور کھانے کے شوقین تھے۔ ایک مرتبہ اہلیہ سے کہا۔ ’’فاطمہ! انگور کھانے کو دل چاہتا ہے۔ اگر تمہارے پاس کچھ ہو، تو دو۔‘‘ انہوں نے کہا ’’میرے پاس تو ایک کوڑی بھی نہیں ہے۔ آپ تو امیرالمومنین ہیں۔ کیا آپ کا اتنا بھی اختیار نہیں کہ انگور کھا لیں؟‘‘ اس وقت سیّدنا عمر نے جو تاریخی الفاظ ادا کیے، وہ آج کے تمام مسلمان حکمرانوں کے لیے باعثِ عبرت ہیں۔ آپ نےفرمایا، ’’انگوروں کی تمنّا دل میں لے جانا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ کل کو دوزخ میں زنجیروں میں جکڑا جائوں۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)۔سیّدنا عمر کو لبنان کا شہد بہت پسند تھا۔ ایک مرتبہ اہلیہ سے خواہش کا اظہار کیا۔ اہلیہ نے خاموشی سے لبنان کے حاکم ابن معدی کرب کو کہلا بھیجا۔ اس نے بہت سارا شہد بھیج دیا۔ اہلیہ نے خوش ہوتے ہوئے سیّدنا عمر کو پیش کیا۔ آپ نے شہد دیکھ کر فرمایا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ تم نے ابنِ معدی کرب کے پاس سے منگوایا ہے؟ میں اسے ہرگز نہیں کھائوں گا۔‘‘ بعدازاں، سارا شہد فروخت کرکے اس کی قیمت بیت المال میں جمع کروادی اور ابنِ معدی کرب کو خط لکھا کہ ’’تم نے فاطمہ کے کہلانے پر شہد بھیجا ہے۔ خدا کی قسم، اگر تم نے آئندہ ایسا کیا، تو یاد رکھو، تم اپنے عہدے پر نہیں رہ سکو گے اور میں کبھی تمہارے چہرے پر نگاہ بھی نہیں ڈالوں گا۔‘‘ (سیرت عمر بن عبدالعزیز)۔

سیّدنا عمر بن عبدالعزیزؒ اور رنگِ فاروقیؓ:بنو مروان کے امراء اور آپ کے عزیزواقارب اپنی جائیدادوں کی ضبطی اور وظائف کی بندش کی وجہ سے آپ سے سخت ناخوش تھے۔ یہ لوگ مختلف اوقات میں آپ کے پاس پیغامات اور سفارشیں بھیجتے رہتے۔ ایک مرتبہ یہ سب آپ کی پھوپھی امّ عمر کے پاس چلے گئے۔ امّ عمر ان کی بات سن کر سیّدنا عمر کے پاس گئیں۔ آپ اپنی پھوپھی کا بہت ادب و احترام کرتے تھے۔ امّ عمر نے کہا ’’تمہارے رشتے دار تمہاری شکایت کرتے ہیں کہ تم نے ان سے وہ تمام چیزیں لے لیں، جو دوسروں نے عطا کی تھیں اور ان کے وظائف بھی بند کردیئے۔‘‘ آپ نے کہا۔ ’’اے پھوپھی! میں نے ان کی کوئی ایسی چیز نہیں لی، جو ان کی اپنی کمائی کی ہو۔ ان کے پاس جو دوسروں کی غصب کی ہوئی چیزیں تھیں، وہ میں نے ان سے واپس لے لی ہیں۔‘‘پھوپھی نے کہا۔’’ اے عمر! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ سب کسی سخت دن تم پر ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘سیّدنا عمر نے کہا! ’’اے پھوپھی جان! میں سوائے قیامت کے، کسی اور دن سے نہیں ڈرتا۔ روزِ قیامت کے شر سے اللہ مجھے بچائے۔‘‘پھر آپ نے ایک دینار ا ور ایک لوہے کے ٹکڑے کو آگ پر خوب گرم کیا۔ جب وہ سرخ ہوگیا، تو اپنی جیب میں ڈالا اور کہا۔ ’’اے پھوپھی! آپ کو اس قسم کی تکلیف سے اپنے بھتیجے پر رحم نہیں آتا۔‘‘ امّ عمر رشتے داروں کے پاس گئیں اور کہا۔ ’’عمر بن خطابؓ کے خاندان میں نکاح کرتے ہو،مگر جب اولاد میں رنگِ فاروقیؓ ظاہر ہوتا ہے، تو شکایتیں کرتے ہو۔ اب اس پر صبر کرو۔‘‘

حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ (آخری حصہ)

بنو مروان کی ناراضی کی انتہا:ایک مرتبہ بنو مروان، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دروازے پر جمع ہوگئے اور آپ کے صاحب زادے سے کہا ’’اپنے والد سے کہو کہ آپ سے پہلے جتنے خلیفہ گزرے ہیں، وہ سب ہمیں کچھ عطا کرتے اور جاگیریں مخصوص کرتے رہے ہیں، لیکن آپ نے خلیفہ ہوکر ہم پر تمام چیزیں حرام کردی ہیں۔‘‘ آپ کے صاحب زادے نے یہ پیغام پہنچایا، تو آپ نے فرمایا۔ ’’ان سب سے کہہ دو کہ میرے والد کہتے ہیں کہ ’’وہ سب اللہ کا مال تھا، جو میں نے بیت المال میں جمع کروادیا۔ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں گا، تو قیامت والے دن کیا جواب دوں گا۔‘‘ (تاریخِ خلفاء)۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن:بنو مروان کی رقابت و دشمنی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، بالآخر ایک غلام کے ذریعے آپ کو زہر دے دیا گیا۔ ولید بن ہشام کہتے ہیں کہ ’’کسی نے آپ سے مرض کی حالت میں عرض کیا کہ ’’آپ دوا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ آپ نے فرمایا، ’’جس وقت مجھے زہر دیا گیا، مجھے معلوم تھا۔ اگر مجھ سے اس وقت کہا جاتا کہ تم اپنے کان کی لو کو ہاتھ لگائو یا فلاں خوشبو سونگھو، اس میں تمہاری شفا ہے، تو میں ایسا کبھی نہ کرتا۔‘‘ (کیوں کہ اگر میں مرگیا، تو زہر کی وجہ سے شہید ہوں یا یہ کہ دوا کرنا منافی توکّل ہے)۔ آپ نے اس غلام کو بلایا جس نے آپ کو زہر دیا تھا اور فرمایا، ’’تجھ پر افسوس ہے، تجھے اس کام پر کس طمع نے آمادہ کیا؟‘‘ اس نے کہا ’’مجھے اس کے عوض ایک ہزار دینار دیئے گئے ہیں اور آزادی کا وعدہ کیا گیاہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’ان دیناروں کو میرے پاس لا۔‘‘ چناں چہ وہ لایا۔ آپ نے ان کو بیت المال میں جمع کروادیا اور غلام سے کہا کہ ’’تو یہاں سے اس طرح بھاگ کہ پھر کسی کو تیری صورت نظر نہ آئے۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)۔ابراہیم بن میسرہ سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی وفات سے پہلے اپنی قبر کی زمین دس دینار میں خریدی۔ زہر کے اثرات میں 20دن مبتلا رہنے کے بعد 25رجب101ہجری کو صرف 39 سال 5 ماہ کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ صرف2سال5ماہ اور4دن تک مسندِ خلافت پر فائز رہے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد)۔ اس مختصر سے عرصے میں آپ نے امّتِ مسلمہ کی سربلندی اور عوام النّاس کی فلاح و بہبود کے حوالے سے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جنہوں نے رہتی دنیا تک آپ کے نام کو زندہ و جاوید کردیا۔ آپ کے انتقال سے نہ صرف مسلمانوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی، بلکہ مسیحیوں اور یہودیوں میں بھی غم کی لہر دوڑ گئی۔ راہبوں نے آپ کے انتقال کی خبر سن کر اپنے عبادت خانوں میں سر پیٹ لیے کہ آج دنیا میں عدل قائم کرنے اور انصاف فراہم کرنے والا اٹھ گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا نے ایسا عادل اور منصف حکمراں پھر کبھی نہیں دیکھا۔

ترکے کی تقسیم:آپ کی تین بیویاں اور گیارہ بیٹے تھے، جب کہ چھوڑے گئے ترکے کی کل رقم صرف21دینار تھی، ان میں سے چند دینار کفن دفن میں صرف ہوگئے، باقی بچّوں میں تقسیم کیے گئے، تو ہر بچّے کو ترکے میں ایک دینار ملا۔ عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر کا بیان ہے کہ ’’عمر بن عبدالعزیز ؒ نے گیارہ بیٹے چھوڑے اور ہشّام بن عبدالملک نے بھی گیارہ بیٹے چھوڑے۔ عمر بن عبدالعزیز کے ہر بیٹے کو ترکے میں ایک ایک دینار ملا اور ہشام کے بیٹوں کو باپ کے ترکے سے دس دس لاکھ درہم ملے، لیکن میں نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒکے ایک بیٹے نے جہاد کے لیے100گھوڑے دیئے، جب کہ ہشام کے ایک بیٹے کو لوگوں سے صدقہ وصول کرتے دیکھا گیا۔(تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی)۔

مختصر دورِ خلافت کے چند اہم کارنامے: خلافتِ راشدہ کا عملی نفاذ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ خلافت کو خلافتِ راشدہ کی طرز پر قائم کر کے عہدِ صدیقیؓ اور عہدِ فاروقیؓ کی یاد تازہ کر دی۔

اتحاد بین المسلمین کے داعی:آپ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ بنو امیّہ کے دور میں کچھ لوگ صحابہ کرام اجمعینؓ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے، آپ نے ایسے تمام امور پر پابندی لگادی، جو فرقہ واریت کو فروغ دیں۔ آپ نے امّتِ مسلمہ کے تمام فرقوں کو بھائی چارے کی مضبوط رسّی میں پرو دیا۔

عدل و انصاف کی فوری فراہمی:آپ نے عدل و انصاف کی فراہمی کو آسان اور عام کیا اور عدل و انصاف کو غریب کی دہلیز تک پہنچایا۔ اچھے اور قابل علماء کو قاضی اور منصف مقرر کیا۔ مظلوموں، مجبوروں کے لیے اپنی خلافت کے دروازے کھلے رکھے۔ اپنے امراء اور گورنرز کو سختی سے پابند کردیا کہ کسی بھی جرم میں لوگوں کی گردن نہ اڑائی جائے۔ قتل کے ہر کیس کو اپنے پاس منگوا کر مکمل تحقیق کے بعد حق و انصاف کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جاتا۔ مرتد کےفوری قتل سے منع فرما دیا۔ اسے تین دن تک توبہ کا وقت دیا جاتا، اگر وہ توبہ کرلیتا، تو اسے معاف کر دیا جاتا۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی مملکتِ اسلامیہ میں ظلم و ستم کی ہر شکل کو مٹا کر عدل و انصاف کا بول بالا کیا، یہاں تک کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے۔

جائیدادوں کی اصل مالکان کو واپسی:بنو امیّہ کے لوگوں کے پاس موجود امّتِ مسلمہ کی دو تہائی دولت واپس بیت المال میں جمع کروائی۔ تمام غصب شدہ اموال و جاگیریں ان کے اصل مالکان کو واپس کیں۔ سلمان بن موسیٰ سے مروی ہے کہ ’’میں نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ جس روز خلیفہ بنائے گئے، اس روز سے اپنی وفات تک لوگوں کے حقوق ہی واپس دلواتے رہے۔

بیت المال پر غریب غرباء کا حق: یتیم، بیوہ، مساکین، معذور و مجبور، بے روزگار اور شِیرخوار بچّوں کی فہرستیں تیار کرواکر سرکاری خزانے سے وظائف مقرر کروائے۔ حاجت مندوں کے لیے بیت المال کے دروازے کھول دیئے۔

غربت کا خاتمہ:آپ کے دور میں لوگوں کو اتنا وظیفہ دیا جاتا تھا کہ جس سے کاروبار کرکے اگلے سال وہ زکوٰۃ دینے والوں کی صفوں میں شامل ہوجاتے تھے۔ ایک ہی سال کے اندر لوگ اتنے غنی ہوگئے کہ کوئی صدقہ و خیرات لینے والا نہیں ملتا تھا۔

بیت المال کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ: نومسلموں کا جِزیہ معاف کرنے اور وظائف کے اجراء سے بیت المال کی آمدنی کم ہوگئی۔ آپ نے بیت المال کی حفاظت و نگرانی کا سخت ترین انتظام کیا۔ وصولی اور تقسیم کے نظام کو نقائص سے پاک کیا۔ اس سلسلے میں سخت ترین قوانین تشکیل دیئے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور ناجائز آمدنیوں کے خاتمے کے بعد ایک سال ہی میں بیت المال کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

رعایا کی بے لوث خدمت:آپ نے اپنے مختصر دورِ خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے۔ تمام مسلم ریاستوں میں جگہ جگہ سرائے، مسافر خانے، پل اور گزرگاہیں تعمیر کروائیں۔ پلوں اور گزرگاہوں سے زکوٰۃ اور چنگی کی وصولی کا خاتمہ کردیا۔ نومسلموں سے جِزیہ لینے سے سختی سے ممانعت کردی۔ شراب کی دکانوں کو بند کروادیا اور کھلے عام شراب پینے پر سخت ترین سزا مقرر کی۔

رعایا کے ساتھ بہترین حسنِ سلوک کی ہدایت:سیّدنا عمر بن عبدالعزیز، خلیفہ کو حکمراں یا سربراہ نہیں بلکہ رعایا کا شفیق باپ سمجھتے تھے، چناں چہ تمام ریاستی ذمّے داروں کو رعایا کے ساتھ بہترین حسن سلوک روا رکھنے کے احکامات جاری فرمائے۔ رعایا کو معاشی فکر سے آزاد کر کے دین کی جانب راغب کیا۔

اسلام کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجّہ:دینِ اسلام کی تبلیغ کے لیے دنیا بھر میں علماء و اساتذہ کے وفود بھیجے۔ خلافتِ اسلامیہ کے زیرِنگیں تمام علاقوں میں تربیت یافتہ علماء و فقیہ مقرر کیے۔ مساجد میں مدرسے قائم کروائے اور درس و تدریس میں مصروف علمائے کرام کو فکرِ معاش سے آزاد کردیا۔ زمّیوں کو دی جانے والی دعوتِ اسلام کے نتیجے میں آپ کے ہاتھ پر چار ہزار افراد نے اسلام قبول کیا۔ (ابنِ سعد)۔ آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے احادیث نبویؐ کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کیا اور ان کی اشاعت کا بندوبست کیا۔

اخراجات میں کمی:آپ نے خلافت اور اس سے ملحقہ تمام دفتری اخراجات میں کافی حد تک تخفیف کر دی۔ تمام ریاستوں کے امراء اور حکمرانوں کو سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنے کے احکامات جاری کیے۔ مدینے کے گورنر، ابوبکر بن حزم نے قلم و دوات اور روشنی کے مصارف میں اضافے کی درخواست کی، تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا۔ ’’قلم کو باریک کرلو، سطریں قریب قریب لکھا کرو۔ دیگر ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لیا کرو۔ تمہیں مسلمانوں کے خزانے سے اس مد میں ایک درہم بھی نہیں ملے گا۔‘‘ سیّدنا عمر کے صاحب زادے کہتے ہیں کہ ’’والد جب خلیفہ بنے، تو سالانہ آمدنی چالیس ہزار دینار تھی، لیکن جب انتقال ہوا، تو سالانہ آمدنی چار سو دینار سے بھی کم تھی۔‘‘

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن: تاریخ کے اس عظیم مردِ حق اور امامِ صالح، خلیفہ کی سحرانگیز شخصیت ربِ کائنات کی فراہم کردہ خداداد صلاحیتوں کا مظہر تھی کہ احکام الٰہی اور فرمان نبوی ؐ کا عملی نمونہ نظر آتی ۔ایک طرف وہ شرم و حیا کے پیکر، ہر لمحہ خوفِ الٰہی سے لرزاں، غریبوں، مسکینوں، پریشان حال لوگوں کے ملجاء تھے۔ آنکھوں میں ایمان کی چمک، چہرے پر عاجزی و انکساری، دل میں سوز و گداز، طبیعت میں ایسی رفعت و آہ زاری تھی کہ مسکراتے لبوں سے جھڑنے والے نرمی و نزاکت کے حسین پھولوں اور شیریں گفتگو سےمخاطب کو اپنا اسیر کرلیتے۔ یوں محسوس ہوتا کہ ان سے زیادہ حلیم الطّبع، رقیق القلب اور نرم دل دنیا میں اور کوئی نہیں، لیکن جب بات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات، حق و مساوات اور عدل و انصاف کی آجاتی، تو غاصب، ظالم اور جابر کے سروں پر اللہ کا قہر بن کر ٹوٹ پڑتے۔ امتِ محمدیہ کے لیے ریشم کی طرح نرم ،لیکن دشمنانِ دین کے لیے فولاد سے بھی زیادہ سخت تھے کہ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم.....رزم ِحق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔

تازہ ترین
تازہ ترین