سید حسن جاوید
ربِّ ذوالجلال کا فرمان ہے’’ مجھ سے دعامانگتے رہو ‘میں تمہاری دعا قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوںگے۔ (سورۃالمومن ۔60) باری تعالیٰ اس آیت ِمقدسہ میں تقدیرِ معلّق کی طرف بھی اشارہ فرمارہا ہے ۔
اگر ہم دعا کے موضوع پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ ہمیں بنیادی طور پر رب کریم سے صحیح طور پر دعا مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آتا اور نا ہی ہم اپنی دعا کے آغازاپنے رب کےبے شمار احسانات اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں، بلکہ بہت ممکن ہے کہ ہم جن مشکلات سے دوچار ہیں ،وہ ہمارے کسی گناہ کی سزا ہو ں۔ لہٰذا ہم جب بھی دعا مانگیں، اپنے دانستہ اور نا دانستہ گناہوں پر نادم ہو کر رب سے معافی ضرور مانگیں ۔ اس کے دیئے ہو ئے رزق اور آسائشوں پر شکر گزار ہو نا لازم ہے ۔ ہم ان تمام نوازشات کو پس پشت ڈال کر اپنی موجودہ ضروریات اور خواہشات کے بارے میں دعا مانگتے اور دعا ختم کر دیتے ہیں ۔
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلی دعا حضرت آدم ؑاور اماں حواؑ نے مانگی تھی ’’ اے پر وردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیںگے ۔(سورۃ الا عراف 23) حضرت آدمؑ کے بعد ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف لائے اور ان سب نے ہمیشہ باری تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی سے دعائیں مانگیں، اگر ہم صرف اسی ایک نکتے پر غور کریں اور دعا کرتے وقت دل میں سوچیں کہ ہم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں اور نبی آخر الزماں ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دعا مانگ رہے ہیں ، باری تعالیٰ جس طرح تو نے ان کی دعائیں قبول کیں، ہماری دعا بھی قبول فرما تو کیا باری تعالیٰ ہماری دعائیں رد کردے گا، لیکن کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور اسے مستقبل میں ہونے والے واقعات کا علم ہے، لہٰذا بہت ممکن ہے کہ ہماری دعائوں کی قبولیت میں تاخیر ہو جائے ،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ باری تعالیٰ کسی کی جائز دعا رد نہیں فرماتا، دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا یقینی طور پر قبول ہوتی ہے ۔
اکثر افراد جب بہت زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو تقدیر کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ ہماری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ ہم اسی طرح پریشان ہوں، یہ بات ایک طرح سے ناشکری کے زمرے میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کی ان تقدیر خراب بنائی ، یہ عمل درحقیقت توہین کے زمرے میں آتا ہے ،لوح محفوظ پر تقدیر مبرم لکھی گئی ہے، یہ وہ تقدیر ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے، مثلا ً آگ کا کام جلانا ہے، پانی انسانوں، حیوانات اور نباتات کے لئے باعثِ زندگی ہے، سورج کاکام روشنی پھیلانا ،اپنے وقت پر نکلنا اور اس کی حدّت سے حیوانات اور نباتات کی افزائش ہوتی ہے، سمندروں سے بھاپ بنانا ،تاکہ بادلوں کی شکل میں دور دراز کے علاقے پانی سے سیراب ہو سکیں، یہ تقدیر مبرم ہے یعنی اٹل قانون الہٰی ہے جو دنیا کی ساری اشیاء میں جاری و ساری ہے ۔
ابتدا میں تقدیر معلّق کا ذکر کیا گیا کہ ’’ہم سے دعائیں مانگتے رہو ہم قبول کر یں گے ‘‘اس سے مراد وہ تقدیر ہے جو ٹل سکتی ہے یعنی بار ی تعالیٰ نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ انسان جب کبھی صحیح اسباب استعمال کرےگا تو نتیجہ صحیح نکلے گا، اگر غلط اسباب سے کام لے گا تو نتیجہ غلط نکلے گا ،اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ دو افراد ایک ہی مرض میں مبتلا ہیں، اُن کے لواحقین اُن کے لئے باری تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں، لیکن ایک مریض کا علاج بہتر طریقے سے ہو رہا ہے، جبکہ دوسرے مریض کا علاج غلط یا غیر مناسب طریقے سے ہورہا ہے، نتیجتاً ایک مریض صحت مند ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا مریض خالق کائنات کے حضور پیش ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس کا علاج بھی صحیح طریقے سے ہو تا تو وہ بھی شفایاب ہو جاتا، یہ ایک تقدیر تھی جو اسباب کے ساتھ وابستہ تھی ،صحیح اسباب کا نتیجہ درست نکلا اور غلط اسباب کا نتیجہ منفی رہا ۔
اس ضمن میں ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں جو اس بات کی تائید کر تی ہیں کہ باری تعالیٰ دل سے نکلی ہوئی دعائوں کو قبول فرماتا ہے۔ ایک ضعیف خاتون کا ہر ممکن علاج ہو رہا تھا، مگر ڈاکٹر مایوس ہو تے جا رہے تھے، اُن کے صاحبزادے نے اپنے کسی عزیز جو کہ عمرے کی ادائیگی کے لئے گئے ہو ئے تھے ،ان سے حرم اور روضۂ رسول ؐ پر رو رو کر دعائیں کرنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں قبول کیں اور وہ خاتون رفتہ رفتہ صحت یاب ہو گئیں۔ دوسری مثال میرے ایک عزیز کی ہے،وہ کئی ہفتوں تک آکسیجن اور انتہائی نگہداشت میں رہے۔ آخرڈاکٹروں نے مایوس ہو کر اُنہیں گھر جانے کے لئے کہہ دیا مگر ان کی بیوی اور بچے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے ۔ انہوں نے گھر میں ہی آکسیجن وغیرہ کا انتظام کیا اور باری تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے رہے ۔رب کریم نے ان کی دعائیں قبول کیں ۔آج موصوف صحت مند ہیں ، عمر کے تقاضے کی وجہ سے معمولی کمزوری کا شکار ہیں ، ما شاء اللہ ہوا خوری کے لئے جاتے ہیں اور مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں، یہ سب تقدیر معلّق ہے ۔
ہمیں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرنا چاہئے، جیسا کہ حکم ہے ’’اے بنی آدم ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کر تا۔ ‘‘ (سورۃ الاعراف ۔ 31) نماز اور دیگر عبادات کی پابندی کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے اور دل میں یہ ضرور سوچیں کہ میں حضرت آدمؑ سے نبی کریم ﷺ ،صحابۂ کرامؓ، اہل بیتؓ اور امت کے صالحین کی سنت پر عمل کر رہا ہوں، باری تعالیٰ جس طرح تو نے ان کی دعائیں قبول فرمائیں۔ میری دعا بھی ان کے صدقے میں قبول فرما، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور دعا کا تعین کریں۔ مثلا ً اگر آپ کا روبار کرنا چاہتے ہیں تو دعا کریں باری تعالیٰ میں سنت نبوی ؐ پر عمل کرتے ہوئے کاروبار کر نا چاہتا ہوں جو آپ کے نزدیک بہتر ہو، اس کاروبار سے مجھے منسلک فرمادیں ۔ اگر بیٹی کی شادی کے لئے پریشان ہیں تو دعا کریں باری تعالیٰ آپ کے حکم کے مطابق میں اپنی بیٹی کی رخصتی چاہتا ہوں تو اس کا نیک، صالح ، دین دار فردسے عقد کروادے ۔ اپنی ہر دعا کو واضح طور پر اللہ کے حضور پیش کریں۔ مبہم دعائوں سے گریز کریں ۔اول و آخر درود شریف پڑھ کر ہر دعا کو تین دفعہ دہرائیں، وہ غفور الرحیم آپ کی دعائیں ضرور قبول فرمائے گا ۔