ڈاکٹر سعید احمد صدّیقی
وطن عزیز میں جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں، محبانِ وطن کے دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو بھی وطن عزیز کا ذ را سا بھی درد رکھتا ہے، اس کے نزدیک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا استحکام اور بقا ایک ایسا فرض ہے کہ اس کے لئے ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے اور جو لوگ پاکستان کے وجود میں آنے کی تاریخ سے آگاہ ہیں ،وہی اس فرض کی اہمیت و نزاکت کا اندازہ کرسکتے اور سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے ذرہ برابر کوتاہی کتنے خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ ہمارے عمل سے اگرپاکستان کمزور ہوتا ہے تو ہم گویا برصغیر کے ان مسلمانوں سے غداری کررہے ہیں، جنہوں نے وطن عزیز کے قیام کےلئےاپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔
حق ِ رائے دہی اوراس کے لیے ووٹ کا صحیح استعمال ایک لازمی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا : ’’ بے شک، اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہےکہ امانتوں کو ان کے حق دار تک پہنچادو‘‘۔ اس حوالے سے اس کا صحیح استعمال لازمی ہے، کیونکہ ووٹ ایک گواہی کی حیثیت رکھتا ہے جو آپ کسی بھی امیدوار کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم گواہی مت چھپاؤ۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
وطن عزیز میں سیاسیات کا عام مزاج یہ ہے کہ نہ تو ہم عام طور پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور نہ ایک خاص سطح سے آگے جاتے ہیں۔ ہمارے اردگرد بہت سی مصنوعی دیواریں چن دی گئی ہیں۔ ہم کبھی ان دیواروں کو ڈھادینے کے لئے بھڑک اٹھتے ہیں اور کبھی انہی دیواروں کے سائے میں سکون ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ اس بے یقینی نے ہمارے مافی الضمیر ہی کو بدل ڈالا ہے۔ ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا اور اپنے مزااج کو بدلنا ہوگا، تاکہ وطن عزیز کی باگ ڈوردیانت دار ، مخلص، تعلیم یافتہ اور نیک لوگوں کے ہاتھ میں آئے جو عوام کی اور ملک کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
عوام کی اکثریت کم علمی اور غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہے کہ ووٹ دینا ایک دنیاوی معاملہ ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ درحقیقت دین سے دوری کا نتیجہ ہے ،کیونکہ ووٹ نہ دینے یا غلط استعمال سے ایک نااہل قیادت منتخب ہوسکتی ہے، جس کے ہم برابر کے ذمہ دار ٹہریں گے۔ اس لئے ووٹ ڈالنا اور اس کا درست استعمال ازروئے شریعت ایک دینی فریضہ ہے۔
وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان صرف اپنے باشندوں کا نہیں، بلکہ اسلامی ملکوں کا حصار ہے۔ اگر پاکستان کی عزت و آبرو پر آنچ آتی ہے، تو ایسی قوتوں کو پنپنے کا موقع ملے گاجو پاکستان کے علاوہ اسلام کی بھی دشمن ہیں اور طویل مدّت سے اس تعاقب میں سرگرداں ہیں ۔
سورۃ التوبہ آیت ۱۱۲ میں ان لوگوں کے انفرادی و معاشرتی اوصاف بیان کئے گئے ہیں ،جو معاشرے اور قیادت کے لئے اہل ہیں۔ ترجمہ: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک کاموں کا امر کرنے والے، بری باتوں سے منع کرنے والے، اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے،(یہی مومن لوگ ہیں) اور اے پیغمبر ﷺ،مومنوں کو (بہشت کی) خوش خبری سنادو۔‘‘ شروع کے چھ اوصاف وہ ہیں جو انفرادی طور پر ایک بندۂ مؤمن میں ہونے چاہییں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہوجانے والے کہ ہم اللہ کی حدود کو توڑنے نہیں دیں گے، ہم منکرات کو کسی طور پر برداشت نہیں کریں گے۔ یہ آخری تین اوصاف درحقیقت اس بات کی گواہی ہیںکہ امیدوار حب الوطنی کے جذبے سے سرشار اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے تن من دھن سے کوشاں رہے گا۔ اب ان اوصاف کے ساتھ امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ وہ نرم دل ہو، لیکن کمزور نہ ہو، مضبوط ہو، لیکن سختی نہ ہو، کم خرچ ہو ،لیکن بخیل نہ ہو، سخاوت ہو، لیکن اسراف نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی صاحب عقل و فہم و فراست ہو۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’ اللہ نے حکمرانی کے لئے اسے (یعنی طالوت کو )تم پر ترجیح دی ہے اور اسے علم و جسم میں فراوانی عطا کی ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ) امیدوار عادل و صالح ہو ، عالم ہو کہ دینی و دنیاوی امور میں مہارت رکھتا ہو، اسی طرح دلیر ہو، مضبوط اعصاب کا مالک ہو، معاملہ فہم اور صاحب رائے ہو، اسی طرح وطن عزیز کا حقیقی شہری ہو، اچھے حسب نسب کا مالک ہو کہ قیادت کے لئے یہ ضروری ہے، تقویٰ والا ہو، ظاہری اور باطنی عیبوں سے بری ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس منصب کی خواہش نہ رکھتا ہو۔ یعنی امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ علم و عمل، عدالت و دیانت، قابلیت و صلاحیت کے اعتبار سے اپنے علاقے کا ممتاز فرد ہو اور صالح مؤمن کی بنیادی شرائط پر پورا اترتا ہو۔
جب ہم کسی بھی امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں تو ہمارے ذہن اور ہمارے دل و دماغ میںپیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے یہ فرامین مبارک ہوں۔’’تمہارے بہترین حکمراںوہ ہیں ،جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جنہیں تم دعا دو اور وہ تمہیں دعا دیں اور تمہارے بدترین حکمراں وہ ہیں، جن سے تم نفرت کرواور وہ تم سے نفرت کریں، اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔‘‘
’’تم میں سے سب سے بڑا خا ئن ہمارے نزدیک وہ شخص ہے جو اسے خود طلب کرے۔‘‘
’’قیامت کے دن اللہ کے دربار میں لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ،پسندیدہ عادل حکمراں ہوگا جو نرمی کرنے والا ہو اور بدترین شخص اللہ کے ہاں ظالم حکمراں ہوگاجو لوگوں پر سختی کرتا ہو۔‘‘
حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ،اللہ تعالیٰ حکومت کے ذریعے برائیوں کا جو سدّباب کرتا ہے، وہ اس سے بہت زیادہ ہے، جو قرآن کریم کے ذریعے کرتا ہے۔‘‘
’’انصاف کرنے والے نور کے ممبروں پر خدائے مہربان کے دائیں جانب بٹھائے جائیں گے ، یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت کے معاملات میں بھی انصاف کرتے ہوں اور اپنے گھر والوں کے درمیان بھی انصاف کرتے ہوں اور جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے، اس میں بھی انصاف کرتے ہیں۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’تمہارے اعمال تمہارے حکمراں ہیں۔‘‘
•اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اسلام اور حکومت دو جڑواں بھائی ہیں، دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا،پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے، جس عمارت کی بنیاد نہ ہو، وہ گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو ،وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔
ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ووٹ کا درست استعمال کریں اور ایسے امیدوار کو منتخب کریں ،جو متقی،پرہیزگار ،دیانت دار،مخلص،محب وطن اور عوام کا خیرخواہ ہو۔اس کا منشور اسلام ، مسلمانوں اور ملک و قوم کے حق میں بہتر ہو۔ قرآن و سنّت کے خلاف نہ ہو، ملک کی سالمیت کے خلاف نہ ہو۔
وطن عزیز کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ اس حوالے سے ہم سب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور اس وقت ہمارا یہ کردار ہو کہ اگر ہمارے ہاتھ میں طاقت ہو تو ہم زمین کی طرح متحمل،بادِ صبا کی طرح نرم اور شیشے کی طرح شفاف ہوں اور اگر ہاتھ میں طاقت نہ ہو، یعنی مصیبت آجائے تو پہاڑ کی طرح بلند، مرمر کی طرح تند اور فولاد کی طرح سخت ہوں۔ آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو نیک صالح قیادت عطا فرمائے جو ملک وقوم کو ترقی ،امن اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرے۔ عالمی برادری میں وطن عزیز کا وقار بلند کرے اور پوری امت مسلمہ کے لئے ایک سایہ دار درخت کی حیثیت رکھے۔ (آمین)