راولپنڈی (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ملک میں عدلیہ آزاد نہیں، عدالتی معاملات کو مینو پلیٹ کیا جاتا ہے، مرضی کے بنچ بنواتے ہیں، ہمارے چیف جسٹس(اسلام آباد ہائیکورٹ ) کو اپروچ کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس انور کاسی نے کہا کہ جس طرح آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا، جب کوئی اہم فیصلہ دیتا ہوں ایک مخصوص گروہ کی جانب سے میرے خلاف مہم چلا دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی جج صاحب ہیں جن کیخلاف کرپشن کا ریفرنس زیرسماعت ہے جبکہ میرا دامن صاف ہے اسی لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو باقاعدہ درخواست دے رکھی ہے کہ میرے کیس کا اوپن ٹرائل کریں، بار کے تمام وکلاء کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آکر دیکھیں کہ مجھ پر لگے کرپشن کے الزام میں کتنی صداقت ہے اگر کہیں کرپشن نظر آجائے تو بار مجھ سے استعفے کا مطالبہ کرے میں مستعفی ہو جائوں گا، پاکستان کو درپیش موجودہ ملکی حالات کی ذمہ داری کیلئے اگر اداروں کا تعین کیا جائے تو چار ادارےذمہ دار ہیں لیکن میں عدلیہ کو اس چیز کا پچاس فیصد ذمہ دار سمجھتا ہوں جبکہ باقی پچاس فیصد باقی تینوں اداروں پر تقسیم کرسکتے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی میں خطاب کرتے ہوئے کیا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اگر جج کسی شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ ہاں یہ چور ہے لیکن حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ وہ چوری کرے تو وہ پھر جج نہیں۔ ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی مجھے اچھی طرح جانتی ہے اور یہ میرا گھر بھی ہے اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ مجھے نوکری کی پرواہ نہیں اور نہ نوکری کی خاطر میں نے یہ عہدہ قبول کیا ، آج کے اس دور میں اگر جسٹس منیر مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ دیتا یا ڈوساکیس کا فیصلہ دیتا تو یہاں کے عوام اس کی بوٹیاں نوچ کر کوئوں کو ڈال دیتے یہاں لوگوں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں ہے کہ جسٹس منیر نے پاکستان کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے، ابھی تک لاء کے طالب علموں کو نہیں پتہ کہ اصل میں ہوا کیا ہے ، یہ بدقسمتی ہے کہ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے بعد زندہ ہو کر سامنے آجاتا ہے وہ کردار ذوالفقار علی بھٹو کے شہادت والے کردار ہوں وہ کردار ارشاد حسن خان کی صورت میں ہوں، وہ کردار شیخ ریاض کی صورت میں ہوں، وہ کردار موجودہ دور کی صورت میں ہوں، جسٹس منیر جس نے پاکستان کی قسمت کا اس انداز میں سودا کیا کہ اسی دور کی کابینہ میں یہ وزیر قانون کا سودا کر کے بیٹھا اور آپ کو پتہ ہے کہ 1962کے آئین میں پہلی مرتبہ پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ختم کیا گیا اور یہ اس وقت کی اسمبلی کو اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی قرارداد یہ پیش کی اسلامی جمہوریہ پاکستان اس ملک کی اساس ہوگی، ارشاد حسن خان تین سال کے الیکشن کمشنر بننے کی خاطر تم نے پرویز مشرف کو سند جواز عطا کی اور پھر جس طریقے سے اس ملک کی قسمت کے ساتھ کھلواڑ ہو رہے ہیں میں آج کے دور کی آپ کے ساتھ بات کرتا ہوں جو میری اپنی ذات کے ساتھ پیش آئے، میں اللہ کو گواہ کر کے آپ سب کو گواہ کر کے امانت کے طور پر کہ مجھے نہیں معلوم کہ آج کے بعد کیا ہوگا لیکن میں آپ کو اور اپنی بار جسے ماں بھی سمجھتا ہوں کو گواہ کر کے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آج کے اس دور میں ایجنسی جوڈیشل پروسیڈنگ کو مینوپلیٹ کرنے میں ملوث ہے۔ اس موقع پر وکلا ءنے شیم شیم کے نعرے لگائے، انہوں نے کہا ک اپنی مرضی کے بنچ بنوائے جاتے ہیں کیسوں کی مارکنگ ہوتی ہے، میں اپنی ہائیکورٹ کی بات کرتا ہوں، مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لیکر جاتا ہے مجھے یہ پتہ بھی ہے کہ احتساب عدالت کی ہر روز کی کارروائی کہاں پر جاتی رہی ہے مجھے یہ وجہ معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا احتساب عدالت پر انتظامی کنٹرول کیوں ختم کیا گیا تاکہ کل وہاں جاکر کوئی جج کاروائی نہ دیکھ سکے ،آپ سے میں نے یہ باتیں جان اور نوکری کی پرواہ کئے بغیر اس لئے کی ہیں کہ مجھے یہ کہا گیا کہ جناب آپ ہمیں یہ یقین دہانی کروا دیں کہ ہماری مرضی کے مطابق فیصلہ کرینگے تو ہم آپ کیخلاف دائر ریفرنس ختم کروا دینگے مجھے یہ کہا گیا کہ آپ اگر ہماری مرضی کے مطابق فلاں کیس میں فلاں فیصلہ دینگے تو ہم نومبر تک نہیں ستمبر میں ہی آپ کو چیف جسٹس بنوا دینگے تو میں نے انہیں کہا کہ میں اپنے ضمیر کو گروی رکھنے سے پہلے مر جائوں، میں نے کہا کہ میں میرٹ سے ایک سینٹی میٹر ادھر ہوں گا نہ ادھر ہوں گا، مجھے ریفرنسز کی پرواہ نہیں آپ نے پہلے بھی ریفرنسز کروائے ہیں آپ دس اور کروا دیں جب تک میرے اللہ کو منظور ہے کہ میں نے اس عہدے پر رہتے ہوئے اللہ کی رضا کی خاطر کام کرنے ہیں تو میں کرتا رہوں گا چاہے ساری دنیا میرے مخالف ہو جائے اور جب اللہ کو منظور نہ ہوگا تو میں یہاں پر کام نہیں کروں گا ، میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ بار اور عدلیہ جسے میں گھر کہتا ہوں ہم ایک ہی گھر کی حویلی میں رہنے والے لوگ ہیں لیکن آپ کی حویلی پر ڈاکہ پڑ چکا ، آپ کی آزادی سلب ہو چکی ہے آپ کی آزاد عدلیہ جس پر آپ فخر کرتے تھے اس پر سمجھوتے ہو چکے ہیں دو افراد کے درمیان مقدمے کے فیصلے میں اپنے آپ کو آزاد ظاہر کرنا اور انصاف پسند ظاہر کرنا کوئی بڑی بات نہیں، کسی مشہور فلسفی کا قول ہے کہ آپ دیکھنا یہ چاہتے ہیں کہ حکمرانی کس کے پاس ہے تو آپ یہ دیکھیں کہ آپ کو کس کیخلاف بات کرنے کی اجازت ہے، آج میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں یہ اشتہاروں کی خاطر اور اپنے مفادات کی خاطر سچ بولنے سے گریزاں ہیں آج اس ادارے کے اوپر بھی مرضی کے ٹویٹس آتے ہیں مرضی کی ڈائریکشن آتی ہیں مرضی کی پریس ریلیز آتی ہیں کہ یہ جاری کرو اور یہ جاری نہ کرو، یہاں بیٹھے میڈیا والوں سے حلف لے لیں کہ کون سا چینل کہہ سکتا ہے کہ ہمیں ہدایات نہیں ملتیں ، جوڈیشری اور میڈیا جو کسی بھی ملک کے لوگوں کے ضمیر کی آواز ہوتی ہے اس کے اوپر اگر پابندیاں لگا دی جائیں گی اس کو اگر پابند سلاسل کر دیا جائے گا اس کے لبوں کو اگر سی دیا جائے گا اس کے لوگوں کی آزادی سلب کر لی جائے گی تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ پھر پاکستان ایک آزاد اسلامی جمہوری ملک نہیں رہے گا، 70سال میں ہم نہ تو اس ملک کو اسلامی بنا سکے نہ جمہوری بنا سکے اور نہ ہی آئین کے طابع بنا سکے، اس وجہ سے کہ 70سال کی زندگی میں ہمارے 35سال ڈکٹیٹر کھا گئے ان 35سال میں ہمارے آئین کے ساتھ کھلواڑ کئے گئے ان 35سال میں ہمیں بات کرنے سے روکا گیا یاد رکھئے اگر چور کو چور کہنے والا ساتھ ملے گا تو پھر انصاف نہیں ملے گا وہ نوکری کرے، جج نوکری سے نہیں انصاف کرنے ، عدل کرنے، دلیری کا مظاہرہ اور بلا تفریق انصاف کرنے سے جج بنتا ہے، اللہ تعالیٰ سے میری یہ دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو سچ کہنے والے سچ سننے والے، سچ کے مطابق فیصلہ کرنے والے اور حق کی بات کرنے وسننے والے منصف عطا کرے، دوران خطاب انہوں نے کہاکہ ترقی کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ، پاکستان کا موازنہ امریکا اور یورپ کے ساتھ نہیں بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ ہو سکتا ہے 2030میں بھارت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہوگا لیکن ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں بھارت میں ایک دن کیلئے سیاسی عمل نہیں رکا اور نہ ہی کبھی وہاں مارشل لاء لگا، بھارت میں بھی کرپشن اور بدانتظامی ہے مگر پھر بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تقریب سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا، قبل ازیں ڈسٹرکٹ بار آمدپر وکلا ءنے شوکت عزیز صدیقی کا شاندار استقبال کیا اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے، ادھر ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کے صدر خرم مسعود کیانی نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نوجوان وکلاء کو قانون اور اخلاقیات سے متعلق لیکچر دینے کیلئے بار میں مدعو کیا تھا لیکن دوران تقریر انہوں نے جن جذبات اور خیالات کا اظہار کیا وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔صباح نیوز کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ مجھے یہاں پیشہ ورانہ اخلاقیات کا عنوان دیا گیا ہے، جس کے مطابق میں 4 باتیں بتانا چاہوں گا۔انہوں نے کہا کہ کسی کی دنیا بنانے یا بگاڑنے کے لیے اپنی آخرت نہیں خراب کریں، اپنی شناخت اپنی پہچان، اپنا تعارف بطور پیشہ ور وکیل کروائیں، جرائم میں کمی کا سبب بنیں اس میں اضافے کے سہولت کار نہیں بنیں، کتاب سے دوستی، علم سے جستجو، دلیل کی طاقت اور دانش و تدبر کی روشنی بنیں اس کے علاوہ کامیابی کا کوئی راستہ نہیں،انہوں نے کہاکہ مجھے جس طرح اللہ تعالیٰ اور حضرت محمدؐ پر ایمان ہے اسی طرح مجھے یہ یقین ہے کہ میری بار سے کوئی ایک شخص اٹھ کر یہ نہیں کہ سکتا کہ شوکت عزیز صدیقی کسی طرح کی کرپشن میں ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ یہی وہ اعتماد تھا کہ میں نے اپنے بڑوں سے کہا کہ مجھے اپنے خلاف ان کیمرہ سماعت نہیں چاہیے، میرا احتساب کرنا ہے تو سرعام کریں، میڈیا، بار اور عوام بھی اس میں موجود ہوں ۔